مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 16
محمد رفیع کو بہت سے ہندوستانی فنکار غریب پرور مانتے ہیں ،کچھ کا تو دین دھرم ہی رفیع ہیں۔ایسے فدائیوں کا کہنا ہے کہ محمد رفیع جیسا دوسرا جنم نہیں لے گا حالانکہ ہندووں کے دھرم میں تو سات جنموں پر یقین رکھا جاتا ہے البتہ گائیکی کی دنیا میں وہ محمد رفیع کے بعد کسی کا جنم تسلیم نہیں کرتے ۔نوشاد صاحب تو خیر سے مسلمان تھے ،وہ جنموں کے فلسفے پر یقین نہیں رکھتے تھے لیکن ان کی توصیف میں یہ کہہ دیتے تھے کہ اب محمد رفیع جیسا صدیوں بعد ہی پیدا ہو گا ۔
ایک ہندوستانی گلوکار سریش واڈکر تو محمد رفیع کے دیوانے ثابت ہوئے حالانکہ انہیں زندگی میں چند ایک بار ہی رفیع جی کے ساتھ گانے کا موقع ملا ۔یہ دور ہی انکی زندگی کا اثاثہ بن گیا ۔وہ محمد رفیع کو ولی اللہ بولا کرتے تھے ،ابھی حیات ہیں اور جب ان کا ذکر آتا ہے تو بات کرنے سے پہلے ہی انکے چہرے اور لہجے میں محمد رفیع کا احترام عود آتا ہے ۔
سریش واڈکر نے محمد رفیع سے متاثر ہوکر طالب علمی کے زمانہ میں گانا شروع کیا تھا اور دل میں ٹھان لی تھی کہ ایک دن وہ محمد رفیع کے ساتھ بھی گائیں گے ۔1978میں انہیں طالب علموں کے ایک گائیکی مقابلے میں لتا منگیشکر نے بہت سراہا اور پیارے لعل جی ،سمیت کئی بڑے موسیقاروں سے کہا کہ سریش کی آواز کو کھو نہ دینا اور اسے موقع دینا چاہئے ۔پس لتاجی کی ان پر نظر پڑی تو انہیں بہت جلد لتا جی کے ساتھ فلم کرودھی کا یہ مشہور ترین دوگانا” چل چمیلی باغ میں میوہ کھلاوں گا “ گانے کا موقع مل گیا اور پھر چل سو چل ۔رام تیری گنگا میلی ہوگئی کے گانے انہوں نے گائے ۔
مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 15
سریش واڈکر کو لتا جی کے ساتھ گاکر جو سواد آیا تھا یہ محمد رفیع کے ساتھ گانے سے سوا ہوگیا ۔یہ1978میں بنائی جانے والی فلم ساجن بن سہاگن تھی ۔سریش واڈکر کو یاد ہے کہ جس روز وہ محمد رفیع کے ساتھ گاکر گھر لوٹے تو محمد رفیع کے سالا صاحب ظہیر بھائی نے انہیں فون کیا اور کہا ” جانتے ہو سریش بابو، رفیع صاحب نے کیا بولا ہے ۔کہتے ہیں جب ہم نے گانا شروع کیا تھا ہماری آواز بھی سریش جیسی تھی ۔تمہاری آواز سن کر وہ بہت خوش ہوئے ہیں“ سریش کے لئے یہ الفاظ امرت کی طرح تھے کہ اتنا مہان گائیک اور ان کی آواز کو پسند کرتا ہے ۔سریش کا کہنا ہے کہ محمد رفیع کی آواز تو مشری جیسی تھی،گاتے تھے تو لگتا تھا شہد گھول کر کانوں میں انڈیلا جارہا ہے ۔روح تک اندر چلا جاتا تھا یہ میٹھا ۔ سریش واڈکرپر محمد رفیع کا کتنا اثر تھا ،اس سے اندازہ کیجئے کہ جب انہیں محمد رفیع کے انتقال کی خبر معلوم ہوئی وہ سن کر ہوکر رہ گئے اور انہیں لگا انکی آواز گم ہوگئی ہے ۔اس روز وہ ایک محفل میں گا رہے تھے ۔وقفہ کے دوران وہ سیڑھیوں پر بیٹھے تھے جب انہیں اطلاع دی گئی کہ محمد رفیع کا انتقال ہوگیا تو ان کے حواس گم ہوگئے ۔وہ محفل میں لوٹے اور روندھی ہوئی آواز میں کہا کہ اب وہ گا نہیں سکیں گے ۔اس کے بعد وہ کافی عرصہ سُر لگانے کی ہمت نہ کرسکے ۔اسکی وجہ یہ بھی تھی وہ ریاض میں محمد رفیع کے گانے گاتے یا لتاجی کے۔۔۔انہیں لگا محمد رفیع کے بعد ان کا ایک بڑا سُر ٹوٹ گیا ہے ۔
نوشاد علی نے محمد رفیع میں یہی خوبی اُس وقت ہی دیکھ لی تھی جب وہ ان کے پاس گانے کے لئے پہنچے تھے ۔نوشاد جیسے جوہری نے ان کی آواز کو پوری دنیا کی مجبوری بنا دیا ۔حالانکہ یہ وہ دور تھا جب یہ کہا جاتا تھا کہ نوشاد اور سہگل کی جوڑی توری نہیں جاسکتی ۔یہ بات مشہور تھی کہ سہگل کے ہوتے ہوئے نوشاد اپنا فن کسی اور نو آموز پر نچھاور نہیں کریں گے ۔یہ محمد رفیع کی خوش قسمتی اور محنت تھی کہ نوشاد علی مجبور ہوگئے ۔آواز کے علاوہ جس بات نے انہیں متاثر کیا وہ محمد رفیع کی ”امید“ تھی ۔
نوشاد علی ان وقتوں کو یاد کیا کرتے تھے کہ محمد رفیع نے ہمت نہیں ہاری اور لگاتار کسی نہ کسی طور پر وہ انکے رابطے میں آتے رہے،رابطہ تعلق قائم رکھا ،روزانہ سٹودیو جاتے اور گیٹ کیپر کو خوش کرکے اندر داخل ہوتے تاکہ وہ نوشادعلی سے مل سکیں جو انہیں مزید چانس دے سکتے تھے ۔گذارہ کے لئے وہ ممبئی سے لاہور تک پنجابی گانوں کی محفلوں میں گاکر کچھ کما لیتے تھے ۔انکی یہ ہمت تھی کہ ڈیڑھ دو سال کی لگاتار محنت کے باوجود انہوں نے دل نہیں ہارا ،حالانکہ وہ دو تین فلموں میں گا کر اپنی ساکھ بھی بنا چکے تھے لیکن ابھی تک انکی آ¿واز کو وہ ویلکم نہیں ملا تھا جس سے محمد رفیع کی پہچان کا سورج ابھر آتا ۔
ایک دن وہ سٹودیو میں نوشاد علی کی جانب ہی جارہے تھے کہ انہیں نوشاد علی کا اسسٹنٹ ملا جو دراصل انہیں ہی تلاش کررہا تھا ۔اس نے بتایا کہ نوشاد جی انہیں یاد کررہے ہیں ۔ان دنوں نوشاد علی کو ایک نیا تجربہ کرنا تھا ۔یہ تجربہ کیا تھا ،ذرا اس پر غور کیجئے کہ وقت کا وہ بڑا سنگر جس نے پوری دنیا ئے موسیقی کو اپنے فن سے امر کردیا اسے محض سہگل کے ساتھ گانے میں ایک لفظ ”روحی“ گانا تھا ۔گانے کو تو یہ سہگل بھی بول اور گا سکتے تھے لیکن فلم کی سچویشن ایسی تھی کہ اس کے لئے نوشاد علی نے محمد رفیع کی جواں و تازہ آواز کو ترجیح دی ۔یہ 1946میں ریلیز والی فلم ”شاہجہاں “ تھی جس میں سہگل نے ”میرے سپنوں کی رانی ۔۔۔روحی ۔۔روحی ۔۔روحی“ گانا تھا جس میں لفظ روحی محمد رفیع نے گایا تھا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس فلم میں سہگل نے اداکاری کی اور یہ گانا بھی ان پر ہی فلمایا گیا تھا ۔ سنا ہے محمد رفیع نے روحی روحی گاتے ہوئے خود بھی کیمرہ کے سامنے ایک جھلک دکھائی تھی ۔سوچنے اور سمجھنے کی باتیں ہیں کہ انسان گم نامی سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلتا ہے ۔محمد رفیع کے لئے یہ ایک بول بھی سرمایہ تھے کہ انہوں نے اپنے پسندیدہ گلوکار سہگل کے ساتھ گایا ہے۔محمد رفیع ایسے ہی نہیں جانے گئے،اسکے پیچھے ان کی سالہا سال کی لگن تھی ۔نوشاد علی نے انہیں گانے کا جو چانس دیا ،وہ ایک لفظ ”روحی“ تھاجو ان کی روح کی پکار بن گیا ۔اس بارے بھی کہا جاتا ہے کہ محمد رفیع کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ دیکھو میاں نوشاد علی کے پیچھے سمے کیوں برباد کرتے ہو،اتنے سال ہوگئے ،آخر انہوں نے تمہیں گانا بھی دیا تو روحی ،روحی پکارنے کے لئے ایک تم ہی رہ گئے تھے ۔محمد رفیع کے دل پر اس بات نے کوئی منفی اثر نہیں کیا بلکہ ان کا ارادہ اور مضبوط ہوگیا ۔
اس گانے کے بعد وہ بھنڈی بازار کی اسی مسجد میں گئے اور عشاءسے فجر تک پہلی بار اپنے رب سے وہ دعائیں مانگیں جو پھر ساری عمر ان پر ابر رحمت بن کر برستی رہیں ۔نوشاد علی کے دل میں محمد رفیع کی لگن نے تڑپ پیدا کردی اور انہوں نے سوچا کہ وہ کوئی پاپ تو نہیں کررہے اس نوجوان کو نظر انداز کرکے ۔پس ۔یہ طے ہوگیا۔اور انہوں نے چند دنوں بعد محمد رفیع کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ” رفیع میں تمہارے لئے ایک گانا بنا رہا ہوں اور یہ صرف تم ہی گاو گے کیونکہ اس میں جو سچویشن ہے ،اسکو پورا کرنے میں تمہاری آواز ہی چلے گی “
نوشاد علی نے فلم انمول گھڑی کا یہ گانا ”تیرا کھلونا ٹوٹا بالک ۔۔“ محمد رفیع سے گوایا تو گانے میں غیر معمولی سوز حقیقی آواز بن کر ہندوستانیوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا ۔اب یہ تاریخ کا الٹ پھیر ہے ۔کچھ کہتے ہیں کہ یہ گانا روحی سے پہلے گوایا گیا تھا ،اور کچھ کا استدلال ہے کہ یہ بعد میں گایا گیا تھا ۔خیر یہ گانا بھی 1946 میں ہی محمد رفیع نے گایا تھا ۔اور غالباً روحی والے گانے کے بعد ہی گایا ہوگا کیونکہ جس گانے سے گلوکار کو شہرت مل جائے ،اسکے بعد اس سے واجبی طور پر نہیں گوایا جاتا۔خود اساتذہ فن کا بنایا ہوا یہ اصول ہے کہ ہیرے کو پھر ہیرا ہی بنائے رکھنا چاہئے ۔
نوشاد علی کی توجہ ملتے ہی محمد رفیع کی زندگی میں بڑی تبدیلی آنے لگی ۔لیکن اسکے ساتھ بٹوارہ شروع ہوگیا ۔ملک کے حالات یکدم بدل گئے ۔لاہور پاکستان میں چلا گیا اور بمبئی بھارت کا حصہ بن گیا ۔ان حالات میں محمد رفیع نے بھارت میں رہنے کا فیصلہ کرلیا ۔انہوں نے لاہور سے اپنی بیگم کو بمبئی لانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانیں ،حالانکہ ان سے انکے دوبچے ،ایک بیٹی اور ایک بیٹا جنم لے چکے تھے ۔مجبوراً محمد رفیع کو ان سے الگ ہونا پڑااور وہ حمید بھائی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہنے لگے ۔ان کے دونوں بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔تقسیم کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ خود انہیں یقین نہیں تھا کہ آنے والے کل میں کیا ہوگا ۔دو چھوٹے بچے ۔مخدوش مستقبل ۔بحثیت مسلمان انہیں اپنی پہچان قائم رکھنے کا بھی مسئلہ درپیش تھا ۔ان نازک حالات میں محمد رفیع نے سخت فیصلہ کیا کہ اب جو بھی ہوگا،وہ بمبئی میں رہیں گے ۔اس دور میں انکی زندگی میں حمید بھائی کی بیگم نے تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ۔
حمید بھائی پہلے سے شادی شدہ تھے ۔انہوں نے جب دیکھا کہ حالات اب بدل سکتے ہیں تو بھنڈی بازار کو الوداع کہہ کر انہوں نے ایک گھر کرایہ پر لیا اور اپنی اہلیہ مہرالنسا اور اپنے سالے ظہیر کو بھی بمبئی بلالیا ۔اسکا یہ فائدہ ہوا کہ اب محمد رفیع کو بھی ایک گھر مل گیا تھا ۔انکی بیگم بشیراں نے لاہور چھوڑنے سے انکار کردیا تھا ۔ا سلئے وہ تنہا ہوتے تھے ۔ایک دن مہرالنسا کے دل میں کیا آئی کہ انہوں نے حمید بھائی سے دل کی بات کہہ ڈالی ”کیوں نہ اپنی بلقیس کی شادی رفیع سے کرادی جائے “
”وہ نہیں مانے گا“ حمید بھائی جانتے تھے کہ بشیراں کا دیا زخم وہ نہیں بھولے ۔لیکن انہوں نے جب محمد رفیع سے اس موضوع پر بات کی تو وہ بھڑک اٹھے اور کہا ” نہ بھائی میں تمہاری سالی سے شادی نہیں کرسکتا ،وہ تیرہ چودہ سال کی لڑکی ہے اور میں دو بچوں کا باپ“
” تو کیا یونہی اب رنڈوے بن کر زندگی گزارو گے صاحب ۔شوبز کی دنیا میں اسطرح جھلس کر رہ جاو گے ۔۔اور پھر یہ بھی تو دیکھو تم رات دن سٹوڈیو میں رہتے ہو، ان بچوں کا کیا کروگے ؟“ سوال گہرا تھا ۔محمد رفیع نے نہ چاہتے ہوئے بھی تقسیم ہند کے بعد 1947 میں مہرالنسا کی بہن بلقیس سے شادی کرلی ۔