مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔آخری قسط
محمد رفیع برسوں کی محنت کے بعد تراشا ہوا وہ ہیرا ثابت ہوئے جنہیں ایک سے زائد جوہریوں نے تراشا تھا ،وہ جہد مسلسل اور ہمت کی داستان تھے ۔سوچئے کہ گانے کے شوق نے انہیں بچپن میں ہی ایسا قوی بنادیا تھا کہ پھر شادی بھی اس عمر میں ہوگئی جب بچوں کے شرارتوں کے دن ہوتے ہیں اور بلوغت کی کونپلیں موسموں میں اپنا جوبن دکھاتی ہیں ۔تو وہ کیسے اپنا بچپنا بچا کر رکھتے ۔ بیس برس کی عمر تک وہ دو بچوں کے باپ بھی بن چکے تھے او رچوبیس سال کے تھے جن ان کی بلقیس بیگم سے شادی ہوگئی ۔
بلقیس بیگم کی عمراس وقت تیرہ سال تھی ۔بلوغت کے پہلے ہی سال میں وہ بیاہ دی گئیں ۔ایک روز پہلے وہ سکول سے آکر گڈے گڈی سے کھیل رہی تھیں جب انکے گھر والوں نے انکے ہاتھوں میں مہندی لگانا شروع کی تو وہ چونکیں اور سمجھیں کہ دراصل وہ اسکے گڈے گڈی کی شادی کا سوانگ رچا رہے ہیں لیکن جب دوسرے دن محمد رفیع کی دلہن بن کر وہ ان کے حجلہ عروسی میں پہنچیں تو تب احساس ہوا کہ ان کا گُڈا ان کے سامنے حقیقت بن کر بیٹھا ہے ۔شادی انتہائی سادگی سے ہوئی ،صرف چھوہارے بٹے ،سہرے کے بغیر نکاح ہوا اور وہ بھی واجبی سے سہاگنوں والے عام سے سوٹ میں سمٹ سمٹا کر سہاگن بن گئیں ۔
یہ سمے تھا ہی ایسا کہ روٹی روزی کے لئے محمد رفیع کو بڑی محنت کرنی پڑتی ۔نجی محفلوں میں پنجابی گانے گاتے اور چار پیسے کمال لیتے کہ گذر بسر ہوجاتی۔دس سال ہوگئے تھے انہیں اپنی پہچان بناتے ہوئے لیکن کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی اور ان سالوں میں بمشکل انہوں نے کل ملا کر ایک سو کے قریب گانے گائے تھے ۔ان میں کئی زبانوں پر بھی چڑھے ،فلم جگنو کا گانا ’’ یہاں بدلا وفا کا ‘‘ مقبول اور ہٹ ہوا لیکن محمد رفیع ہٹ نہ ہوسکے ۔اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی اس دور میں استاد فن کی قدر کی جاتی تھی اور پختگی ہی میرٹ تھی ۔
مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 16پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آپ نے دیکھا ہوگا کہ آج کل تو جن کی مونچھیں نہیں نکلی ہوتیں وہ خود کو موسیقی کا شاہ زور سمجھنے لگتے ہیں ۔اداکاری کے لئے بھی نئے نویلے لڑکوں کو ہیرو بنایا جاتا ہے ۔لیکن وہ دور ایسا پختگی کا دور تھا کہ توند نکلے عمررسیدہ ہیرو کو ہی پسند کیاجاتا تھا۔محمد رفیع کے سامنے بھی ایک سے بڑھ کر ایک گائیک کھڑا تھا ۔وہ فن کا دور تھا گلیمر زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا ۔
تقسیم کے بعد انکی تقدیر نے بھی پانسہ پلٹا اور یکے بعد دیگرے انہیں گانے ملنے لگے۔کوئی کہتا کہ دیکھا شادی کی تو لکشمی گھر آگئی ہے ۔شادی واقعی انہیں راس آگئی تھی ۔بلقیس بیگم نے اپنے مجازی خدا کی بے پناہ تابعداری کی اور محنت سے ان کے آنگن کو سنوار دیا ۔ایک وقت کی روٹی کھا کر اور بوسیدہ پھٹے پرانے کپڑوں میں بھی وہ گزارہ کرلیتیں ۔انہوں نے اپنے سوتیلے بیٹے سعید کو حقیقی ماں سے زیادہ پیار دیا ۔ان کے اپنے بچے بھی ہوئے لیکن سعید ان کی آنکھ کا تارا تھا ۔
شادی کے چند ماہ بعد بھارت میں ایک بڑا سانحہ رونما ہوا لیکن اس سانحے کے ساتھ ہی محمد رفیع کا سورج پوی آب و تاب کے ساتھ جلو گر ہوگیا اور انہیں پورے ہندوستان میں شناخت مل گئی ۔بھارت کے باپومہاتما گاندھی کو جنوری 1948 ء کو قتل کردیا گیا اور پورے بھارت میں کہرام مچ گیا ۔ یہ ایسا وقت تھا کہ باپو پر کئی گانے بنائے گئے لیکن دو مویسقاروں نے مہاتما پر لکھی ایک نظم کو موسیقی دینے کا فیصلہ کرلیا ۔حسن لال اور بھگت لال نے نظم ’’ سنو سنو اے دنیا والو،باپو کی یہ امر کہانی‘‘ محمد رفیع سے گوانے کا فیصلہ کرلیا ۔ محمد رفیع کی آواز اور سوز نے اس نظم سے ہندوستانیوں کے دلوں کو تڑپا کر رکھ دیا اور بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے انہیں ایوان وزیر اعظم میں مدعو کرکے تقریب میں یہ گانا ان سے سنا اور بے اختیار رودئیے۔
جب کوئی حکمران کسی کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا ہے تو سارے زمانے کی نظروں میں ممتا ابھر آتی ہے ۔ پنڈت نہرو نے انہیں ہندوستان کے پہلے یوم آزادی کی تقریب میں پھر مدعو کیا اور انہیں چاندی کا تمغہ دیا ۔یہ غیر معمولی کامیابی تھی کہ وہ پھر پلٹ کر پیچھے دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہے ۔وہی سادگی اور عاجزی ان کا وطیرہ رہی لیکن اب فلموں کے منہ ان پر کھل گئے ۔
یا دکیجئے محمد رفیع کے سدا بہار گانے ،خاص طور پر اگلے چند برسوں میں یعنی پچاس کی دہائی کے شروع ہوتے ہی ان کی فلموں بیجو باورا،مدھومتی ،دیدار،آن کے گانے ایسے مقبول ہوئے کہ آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں ۔
’’ او دنیا کے رکھوالے ،سن درد بھرے میرے نالے‘‘
’’اودور کے مسافر ،ہم کو بھی ساتھ لے‘‘
’’ رمیا وتا ویا ،رمیا وتا ویا‘‘
’’ٹوٹے ہوئے تاروں نے یہ کو سکھایا ہے ‘‘
ایک لمبی فہرست ہے بلکہ ان کے گانوں پر مکمل ایک ضخیم کتاب مرتب کی جاسکتی ہے جو انہوں نے پچاس کی دہائی میں گائے اور پھر گاتے ہی چلے گئے۔کہا جاتا ہے کہ اس دور میں چونکہ ریڈیو انتہائی مقبول تھا ،ان کے گانوں کو سن کر ہندو پاٹ لگایا کرتے اور اپنی صبح و شام ان کے گانوں سے کرتے تھے ۔
محمد رفیع کا پورا خاندان پاکستان میں ا ور وہ خود بھارت میں تھے اسکے باوجود انہیں بھارت کا سب سے برا قومی ایوارڈ بھی ملا ،اسکی وجہ کیا تھی؟ ان کے بھائی سے بھی میری بات ہوئی اور یہی اس تحقیقی مضمون کا خلاصہ اور اختتامیہ بھی ہے کہ انہوں نے پلٹ کر پاکستان کو یاد نہیں کیا بلکہ بھارت کو ہی اپنی جنم بھومی کے طور پر اپنایا اور دل میں بسایا ۔وہ چونکہ بھارت کے حصہ میں آنے والے علاقہ امرتسر کے کوٹلہ سلطان میں پیدا ہوئے اور اس پر وہ فخر کرتے رہے،البتہ ہجرت سے سولہ سترہ سال پہلے وہ لاہور میں آگئے ،یہی پروان چڑھے اور پہلی شادی بھی کی ، اس لئے جب تقسیم ہوئی تو اِدھر کے لوگ اِدھر اور اُدھر کے اُدھر رہ گئے ۔محمد رفیع نے بھارت میں بھارتی بن کر قومیت کے لئے کام کیا ۔جنگ پینسٹھ میں انہوں نے پورے ہندوستان کا دورہ کیا اور اپنے گیتوں سے بھارتیوں کو ابھارتے اور ولولہ دیتے رہے ۔ادھر پاکستان میں میڈم نورجہاں کے گیتوں نے پاکستانی قوم اور فوج کو لازوال قوت دی تھی تو ادھر بھارت میں محمد رفیع یہی فریضہ انجام دیتے رہے ۔دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان پینستھ اور اکہتر کی جنگوں میں دو مسلمان گلوکار ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوئے ،ان کے جنگی گانے میزائلوں کی طرح دلوں میں جاکر پھٹتے تھے ۔محمد رفیع نے تو پینسٹھ کی جنگ میں وار فنڈ بھی اکٹھا کیا تھا ۔شاید یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان آنے سے گریزاں رہے تاکہ ان کی وفاداری پر شک نہ کیا جائے ۔یہ ان کا واہمہ نہیں تھا ۔حقیقت ان پر آشکار تھی کہ بھارت میں جینا ہے تو پاکستان کا نام نہ لو۔۔۔۔لیکن ان کے گانے پاکستان ا ور بھارت میں نفرتوں کی وسیع خلیج کے باوجود ابھی تک مقبول ہیں ،اور آنے والی صدی میں بھی مقبول رہیں گے۔وہ ہندوستانی بن کر بھی پاکستانیوں کے دلوں کی آواز بنے رہے ہیں ۔