بے رحم نظام اور سادہ لوح عوام

      بے رحم نظام اور سادہ لوح عوام
      بے رحم نظام اور سادہ لوح عوام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان غالباً اب واحد ایسا ملک بن گیا ہے جہاں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد18کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اتنی بڑی کایا کلپ ہے کہ اس کی وجہ سے ہمارے تمام دفتری و انتظامی مسائل حل ہو جانا چاہئیں تھے، دنیا نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے اپنی گورننس کومثالی بنا لیا ہے۔کاغذ سے ماوراء دفتری نظام رائج ہو چکا ہے اور لوگوں کے دفاتر میں جانے کی شرح چند فیصد رہ گئی ہے جہاں ٹیکنالوجی کا استعمال ہو گا وہاں شخصی مداخلت کم ہو جائے گی۔یہ کم ہو گی تو رشوت اور اقربا پروری بھی ختم ہو گی۔ہمارے ہاں اس طرف تھوڑی بہت تو توجہ دی گئی ہے،ایپس بنا کر اور واٹس ایپ گروپ ترتیب دے کر نظام کی اصلاح کرنے کا آغاز تو ہوا ہے،لیکن اُس کا پیمانہ اس قدر محدود ہے کہ کروڑوں کی آبادی کو اُس سے کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔پھر یہ بھی پیش نظر رہے کہ جس کرپٹ نظام میں ہم جی رہے ہیں اُس میں ٹیکنالوجی کو ناکام بنانے کے حربے بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں،جس طرح سرکاری ہسپتالوں میں نجی اداروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے سی ٹی سکین مشین یا ایکسرے مشین خراب کر دی جاتی ہے، اُسی طرح اکثر دیکھاگیا ہے حکومت نے جو سوشل ایپس بنائی ہیں،اُن تک لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی،کبھی لنک ڈاؤن ملتا ہے اورکبھی جواب موصول نہیں ہوتا۔کل ایک دوست بتا رہے تھے انہوں نے پنجاب حکومت کے پروگرام مریم کی دستک سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے بیٹے کا ڈومی سائل بنانا تھا انہوں نے بہت کوشش کی بات بن جائے، مگر پیچیدہ طریقہ کار کی وجہ سے وہ حتمی مرحلے تک پہنچ نہیں پائے تھے۔ بالآخر انہوں نے ایک ایجنٹ سے رابطہ کیا، جس نے پیسے لے کر انہیں ایک دن میں ڈومیسائل بنوا دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے صرف طریقہ کار یا رابطے کو جدید بنانے سے کوئی فائدہ نہیں جب تک نظام کو سادہ نہیں بنایا جاتا۔ یہ کون سا نظام ہے جس میں پیسے دے کر فوراً کام ہو جاتا ہے اور جو نہ دے اُسے متعدد اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے ہر نظام کمپیوٹرائزڈ بنا سکتے ہیں،مگر اس میں اگر انسانی عمل دخل کو بہت زیادہ رکھیں گے تو عوام کو آسانی کی بجائے مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہاں پنجاب کے کمپیوٹرائزڈ اراضی ریکارڈ سنٹروں کا ذکر ضروری ہے،یہ مراکز اس لئے کھولے گئے تھے کہ پٹواری کلچر سے نجات مل جائے۔ لوگ آسانی سے اپنی جائیداد کے کاغذات بنا سکیں،مگر ہوا اس کے برعکس۔اب اراضی ریکاڈڈ سنٹروں سے فرد ملکیت یا دوسرے کاغذات کا حصول پٹواری کی نسبت زیادہ مشکل ہوتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے ان سنٹروں کے باوجود پٹواری سے تصدیق ضروری ہوتی ہے،یعنی یک نہ شد دو شد۔پہلے پٹواری  ہی ایک مشکل کردار تھا، اب اراضی ریکارڈ سنٹروں کا عملہ دفاتر میں بادشاہ بن کر بیٹھتا ہے اور جسے چاہے ریکارڈ نہ ملنے کا کہہ کر اور پٹواری سے ریکارڈ لانے کی راہ دکھا کر بری الذمہ ہو جاتا ہے۔

ہمارے ایک دوست اس حوالے سے ایک اپنا ہی نظریہ رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں پاکستان سے اگر دو نمبر کام اور رشوت ختم کر دی جائے تو بڑے پیمانے پر لوگ بھوکے مرنے لگیں۔اپنے اس دلچسپ اور انوکھے تھیسز کو وہ اسی طرح بیان کرتے ہیں کہ جب ریاست کوئی فلاحی نظام وضع نہیں کرتی تو لوگوں کے لئے خود کو زندہ رکھنے کا ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ جہاں موقع ملے اپنا کام نکالو۔ انہوں نے مثال دی کہ ہر بڑے شہر میں تجاوزات ایک بڑی حقیقت اور بڑے مسئلے کے طور پر موجود ہیں۔ریڑھی والوں نے سڑکیں آدھی کی ہوتی ہیں اور ٹریفک اُن کی وجہ سے اکثر جام رہتی ہے،لیکن آپ سوچیں کہ اگر ان ریڑھی والوں کو بیک جنبش ِ قلم منع کر دیا جائے کہ وہ سڑکوں پر ریڑھیاں نہیں لگا سکتے اور وہ بیروزگار ہو جاتے ہیں تو اس دہرے نقصان کی تلافی کیسے ہو گی۔دہرے نقصان کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا جب ریڑھیاں نہیں لگیں گی تو پھل سبزیاں نہیں بکیں گی، نقصان ہوتے ہوتے کسان تک پہنچ جائے گا۔دوسرا نقصان اُن ریڑھی والوں کا ہو گا جو روز گار کماتے اور اپنے بچوں کو پالتے ہیں انہوں نے اس عمل کو بلیک اکانومی کا نام دیا۔یہ دو نمبر معیشت اُن کے نزدیک ہمیں بچائے ہوئے ہے وگرنہ خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔اسی قسم کا ایک معاشی فلسفہ ہمارے ایک اور دوست امجد علی نے بیان کیا تھا۔اُن کا خیال ہے اگر پاکستانی دفاتر میں رشوت لی جاتی ہے توگویا ہم اس معیشت کو چلا رہے ہیں،کم تنخواہیں اور شدید مہنگائی میں ایک سرکاری اہلکار کا گزارا کیسے ہو سکتا ہے، پھر انہوں نے مثال دی کہ اکثر یہ خبریں آتی ہیں کسی کلرک نے قرضے اور مہنگائی سے تنگ آ کر خود کشی کر لی۔ وہ لازماً اس نظام میں مس فٹ ہوتا ہے اور ایمانداری سے کام کر کے تنخواہ پر گزارا کرتا ہے،مگر ہر مہینے قرضے کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہے۔اب ایسی باتیں کسی مہذب معاشرے میں نہ تو کی جاتی ہیں اور نہ ہی قابل ِ قبول ہوتی ہیں،لیکن ہمارے ہاں ان باتوں پر غور کریں تو بڑی حد تک درست نظر آتی ہیں۔ریڑھی والوں کو اٹھا کے گھر بھیج دیں تو وہ اپنی روزی روٹی کیسے کریں گے، اسی طرح چھوٹے ملازمین قلیل تنخواہ میں کیسے گزارا کریں،کچھ اس کی راہ بھی تو دکھانی چاہئے،آپ نے دیکھا ہو گا انٹی کرپشن والے کسی چھوٹے موٹے اہلکار کو پکڑ کے یہ دعویٰ کرتے ہیں کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس ہے،اس کی وجہ یہ ہے وہ چھوٹا اہلکار رشوت بھی چھوٹی لیتا ہے اور احتیاط بھی نہیں کرتا اِسی لئے قابو آ جاتا ہے،جو بڑی رشوت لیتے ہیں اُن تک قانون کا ہاتھ کم ہی پہنچتا ہے، جہاں آپ سوئی گیس کے ایم ڈی کو60لاکھ ماہانہ اسی کے دفتر میں کلرک کو40 ہزار ماہانہ دیں گے تو یہ سوچ تو بڑھے گی مجھے بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔

کئی دہائیوں سے پاکستان کے دفتری نظام کو دیکھنے کے بعد نتیجہ یہی نکلا ہے کہ اس نظام کو سہل،آسان اور رشوت سے پاک بنانے کی خواہش کسی حکمران کی نہیں رہی،مجھے کل شریف ظفر نے جو اعلیٰ پولیس افسر رہے ہیں یہ واقعہ سنایا کہ پرانے زمانے کے دبئی میں ایک بار امارات کے امیر راشد المکتوم نے ایک جگہ گاڑی پارک کی جب وہ واپس آئے تو اس پر رانگ پارکنگ کی وجہ سے چالان ٹکٹ لگا ہوا تھا۔انہوں نے قریب کھڑے ٹریفک سارجنٹ کو بلایا اور پوچھا،تم نے میرا چالان کیا ہے،اُس نے کہا جی میں نے کیا ہے۔امیر نے پوچھا کیا تم مجھے جانتے ہو،اُس نے کہا ہاں آپ ہمارے بادشاہ ہیں،اس پر امیر امارت نے کہا پھر بھی تم نے چالان کر دیا،تو اُس نے سینہ پھلا کر کہا یہ میرا فرض تھا۔قانون کی نظر میں امیر اور ویٹر برابر ہیں،امیر نے اُسے گلے لگایا اور کہا اِس کانسٹیبل نے نئے دبئی کی بنیاد رکھ دی ہے۔نئے نظام کی بنیاد رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ قانون کو اوپر سے نافذ کیا جائے۔ جب دفتروں میں بااثر افراد کا ہر کام فون پر ہو جائے اور عام آدمی دھکے کھاتا رہے جب سادہ سے کام کے لئے انتہائی پیچیدہ طریقہ بنایا جائے تو بہتری کیسے آ سکتی ہے۔کاش جتنی تیزی اشرافیہ اپنے مفاد کا قانون بنانے میں دکھاتی ہے اتنی ہی نظام کی تبدیلی کے لئے بھی تیز قانون سازی کرے تو ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -