کراچی، آسیب سے آزادی؟

کراچی، آسیب سے آزادی؟
 کراچی، آسیب سے آزادی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

روشنیوں سے جگمگاتا شہرکراچی تیس سال خوف اور جبر میں جلتا رہا۔تعلیم یافتہ اور شائستہ لوگوں کے شہرمیں ٹارگٹ کلراور قاتل اسلحہ لہراتے رہے،ان نامعلوم افراد کو سب پہنچانتے تھے مگر خوف نے ہونٹ سی دیئے تھے۔ بھتہ پرچیاں تقسیم ہوتیں،بھتہ وصول ہوتا،اکٹھا ہوتا اور بڑاحصہ بیرون ملک بھیج دیا جاتا۔بھتہ سے انکار پر گولی مار دی جاتی،دکان اور فیکٹری جلادی جاتی ۔بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں اڑھائی سو سے زائد غریب مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا ۔کوئی بولنے والا،لکھنے والاہمت بڑھاتا تو اپنے بچوں کی یتیمی کامنظر سامنے آجاتا۔بڑے بڑے چینلزیا اخبارات میں دور بیٹھے اینکریالکھاری بھی جرات نہ کرتے کہ کراچی میں اس کے ساتھیوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ پولیس اور انتظامیہ بے بس تھے اور ادارے خاموش۔پورے شہر پر خوف کا عذاب مسلط تھا۔ کسی آسیب کا اشارہ ہوتاتو شہر کی زندگی درہم برہم ہو جاتی، سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ کرتے جھنڈ کے جھنڈنکل آتے،فائرنگ اور توڑ پھوڑکی آگ پھیل جاتی، لوگ گھروں کی طرف بھاگتے ،گھر میں مائیں اور بچے ہاتھ اٹھا اٹھا کر اپنے والد اور بھائیوں کی سلامتی کی دعائیں مانگتے،زندہ پہنچنے پر شکرادا کرتے۔ کسی کے ہاں خون آلود لاش آتی، ہنستا بستا گھر اجڑ جاتا‘مگر کوئی آنسو پونچھنے والا، دلاسہ دینے والا نہیں تھا۔ دور بہت دور مگر کوئی رقم گنتا رہا، مسکراتا رہا ۔تیس سال سڑکوں پر لاشے گرتے اور تڑپتے رہے،ایدھی صاحب انہیں اٹھاتے اور دفناتے رہے، مگر سامنے دکھائی دینے والے قاتل کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکا،ریاست انہیں نامعلوم ہی لکھتی رہی ۔ ہزاروں بے گناہ شہری روشنیوں کے شہر کی تاریک راہوں پر مارے گئے: عظیم طارق، سابق گورنر حکیم محمد سعید، ایڈیٹر ’’تکبیر‘‘ محمد صلاح الدین،مشہور سکالر جامعہ کراچی کے پروفیسر شکیل اوج، پروفیسر سبط جعفر‘اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر وحید الرحمن‘‘ جامعہ بنوریہ کے مفتی نظام الدین شامزئی، مولانا مسعود بیگ‘مشہور قوال امجد صابری، ایس ایس پی چودھری اسلم، پی ٹی آئی کی زہرہ شاہد حسین‘اورنگی پائیلٹ پراجیکٹ کی پروین رحمان‘صحافی ولی بابراور علی رضا،کے ای ایس ای کے ڈائریکٹر شاہدحامداورلیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم حیات اورجسٹس باقر رضوی اور پر قاتلانہ حملہ‘ان گنت نمایاں شخصیات اور ہزاروں گمنام لوگ جو صرف ہندسوں میں بیان کئے جاتے ہیں۔
نکلو گے تو ہر موڑ پر مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
مہاجروں کے حقوق کے نام پر 18مارچ 1984ء کوبننے والی مہاجر قومی موومنٹ نے کراچی اور حیدرآباد کو کیا دیا‘وہاں کے رہنے والوں کی زندگی کو کتنا آسودہ کیا؟ ان شہروں کااسّی فیصد مینڈیٹ ملنے اور حکومتوں میں رہنے کے باوجود کتنے حقوق لے کر دئیے؟کتنی شہری سہولتیں فراہم کیں اور کتنا روزگاردیا؟سہولتیں کیا ملتیں‘ شہروں کا امن برباد ہوگیا‘ خوف،بے یقینی‘حق تلفی اور جبرپھیلتے گئے ۔


جنرل پرویز مشرف نے اس کو پالا پوسا اورتوانا کیا۔ 88ء میں ایم کیو ایم بے نظیر بھٹوکی حکومت میں شامل ہوئی، مگرنومبر 89ܡ میں علیحدہ ہوگئی ۔90ء میں نواز شریف حکومت کے ساتھ شامل ہوئی، مگر 92ء میں کراچی میں اس کے خلاف آپریشن شروع کردیاگیاجو بے نظیر حکومت میں بھی جاری رہااور اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابرایم کیو ایم کے لئے بہت سخت ثابت ہوئے۔ 92ء آپریشن شروع ہوتے ہی الطاف حسین ملک سے چلے گئے اور لندن میں پناہ لے لی اور وہیں سے حکمرانی کرتے رہے۔کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسروں میں سے 225کو چن چن کرموت کے ’تمغے‘ دیئے گئے۔ 97ء میں ایم کیو ایم مہاجر سے متحدہ بن گئی۔98ء میں سابق گورنر سندھ حکیم سعید کے قتل کے بعد نواز شریف نے ایم کیو ایم کو فارغ کرکے سندھ میں گورنر راج لگادیا۔


جنرل مشرف کے دور میں ایم کیو ایم بڑی لاڈلی رہی‘حکومتی لش پش بھی ملی،تحفظ اور وسائل بھی۔ سندھ کے اس وقت کے وزیر داخلہ وسیم اختر نے 12مئی 2007ء کوکراچی کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔چیف جسٹس افتخار چودھری کراچی ائیرپورٹ پر اترے تو باہر سڑکیں بلاک تھیں اور دوسری جماعتوں کے کارکنوں پر فائرنگ ہورہی تھی‘دن بھر کے ہنگاموں میں چالیس افراد مارے گئے۔ چیف جسٹس کو باہر نہیں نکلنے دیا گیا،پورا ملک یہ منظر دیکھ رہا تھا اور اسلام آباد میں جنرل مشرف اسے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ قرار دے رہے تھے ۔ آصف زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور میں بھی ایم کیو ایم سیاست سے تشددنہیں نکال سکی۔نواز شریف حکومت میں آئے توایک بار پھر ایم کیو ایم پر سخت دور شروع ہوگیا۔نوازشریف کا ہر دور اس پارٹی کے لئے کڑاکے کا کٹھن دور رہا۔

22اگست کی زہرآلود تقریر پہلی بار نہیں تھی‘مشرف دور میں ہندوستان جاکر ایسی ہی تقریر کی تھی‘مشرف کو کچھ محسوس نہیں ہوا شایدانہیں ملکی سلامتی سے زیادہ اپنی سیاست عزیزتھی ۔اور پھرالطاف حسین کے ’را‘کے ساتھ تعلقات بھی پہلی بار آشکار نہیں ہوئے‘92ء کے آپریشن میں بھی کئی شواہد سامنے آئے لیکن سیاست اپنا کھیل کھیلتی رہی۔


دوسال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ الطاف حسین کے براہِ راست خطاب پر پابندی لگادی جائے گی‘ وہ پانچ پانچ گھنٹے لائیودھمکیاں اور گالیاں دیتے، مذاق اڑاتے،روتے چلّاتے دھاڑتے،گنگناتے گاتے اور جھومتے ہوئے خطاب کرتے مگر کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اس کی نشریات کو روکے ۔کوئی سوچ سکتا تھا کہ ایم کیو ایم کے کارکن پکڑے جائیں اور شہر پرامن رہے‘اس کا کوئی ممبر اسمبلی گرفتار ہو،قاتلوں اور بھتہ خوروں پر مقدمات بنیں اور انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے مگر کوئی احتجاج نہ ہو۔ان کا ہیڈ کوارٹر نائن زیرو قوت اورخوف کی علامت تھی‘ کوئی ادارہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ادھر کا رخ نہیں کرسکتا تھا‘کوئی گمان کرسکتا تھا کہ اس پرچھاپہ پڑسکتا ہے، وہاں موجود افرادکو گرفتارکیا جاسکتا ہے‘وہ سِیل ہو سکتا ہے اور اس کے سیکٹر دفاترمسمار۔۔۔جی ہاں مسمار ہوں اور کارکن حرکت میں آکر حرکتیں نہ کریں۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تیس سال تک لوگوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والے الطاف حسین کا نام لینا بھی دشوار ہو جائے گا !


اس شہر کوخو ف اور آسیب سے آزادکرانے کا کریڈٹ نواز شریف اور چودھری نثار علی خان کے ساتھ آرمی چیف جنرل راحیل شریف،ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل رضوان اختراور ڈی جی رینجرزسندھ میجر جنرل بلال اکبر کو بھی ہے اور ان کے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں افرادکو بھی ۔
جن محرومیوں کا استحصال کرکے الطاف حسین نے شہریوں کی سپورٹ حاصل کی،وہ آج خوفناک صورت اختیار کرچکی ہیں ۔ایسی محرومیاں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی موجود ہیں،مگر اسے نسلی یا لسانی تعصب اور سیاست کی بنیاد نہیں بنایاگیا۔ اس آپریشن کے ساتھ کراچی کی تعمیر اور ترقی کا عمل بھی شروع ہونا چاہئے،اس کے بنیادی مسائل حل ہونے چاہئیں اور یہ کام منتخب قیادت کا ہے ۔سیکیورٹی اداروں نے کمال دانشمندی سے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے،اس سے زیادہ نہیں تو اتنی ہی دانشمندی کا مظاہرہ وفاق میں مسلم لیگ نون اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو کرنا چاہئے۔قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کی تشکیل نو ہونی چاہئے‘بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے دونوں حکومتیں بڑے منصوبوں پر مل کر کام کریں ۔تیس سال سے زخم زخم شہرِ بے اماں کو اب امن چاہئے‘شہریوں کوآسودگی ملنی چاہئے‘ اس کی شاہراؤں کی روشنیاں اوربازاروں کی رونقیں لوٹ آئیں‘اس کے پارک بچوں کی اٹھکیلیوں سے کھل اٹھیں!

مزید :

کالم -