گھر میں ایک بار پھر خوشیاں لوٹ آئی تھیں،خوب رونق لگی رہتی تھی، پیارے پیارے بچے خوب دھما چوکڑی مچائے رکھتے تھے،میں بھی اپنی پرانی ڈگر پر چل نکلا
مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:213
میرے گھر میں ایک بار پھر خوشیاں لوٹ آئی تھیں۔ اور خوب رونق لگی رہتی تھی۔ میرے بچے ایک تواتر سے ہمیں ملنے آجاتے اور ان کے پیارے پیارے بچے خوب دھما چوکڑی مچائے رکھتے تھے۔ یہ جان کر کہ زندگی میں اب ایک سکون اور ٹھہراؤ آگیا تھا میں بھی اپنی پرانی ڈگر پر چل نکلا۔ ان حالات کی وجہ سے دوستوں سے ملاقات میں جو تھوڑا بہت تعطل آگیا تھا اسے ختم کیا اور ایک بار پھر باہمی رشتے مضبوط کئے اور خاندانوں کی حد تک ایک بار پھر ہماری محفلیں جمنے لگیں۔
اس اداس ماحول سے پوری طرح سنبھلنے کے بعد ہم نے اپنا پہلا سفر ملتا ن کا اختیار کیا جہاں میرا بھتیجا اخلاق رہتا تھا۔ وہ این ایف سی میں اپنی ملازمت مکمل کرنے کے بعد اب یہاں ایک ریٹائرڈ زندگی گزار رہا تھا۔ اخلاق ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ کوئی 10سال تک تعلیم کے سلسلے میں قیام پذیر رہا تھا۔ اسی لیے وہ وسیمہ کے بہت قریب تھا۔ شروع میں تو وہ تھوڑا سا خائف اور وسوسوں میں مبتلا رہا۔ لیکن اگلے 3 دن میں اس کے اور اسکی بیوی یاسمین کے سامعہ کے ساتھ تعلقات مثالی نوعیت کے ہو گئے تھے۔ وہ اب ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے تھے۔ ان کی ہچکچاہٹ ختم ہوگئی تھی۔
ہم نے اپنا اگلا سفر مری کا اختیار کیا۔ہمارے ساتھ پرانے دوست طاہرہ اور اکرم بھی تھے۔ یہاں بھی سامعہ نے اپنی پر خلوص بات چیت اور اچھے اخلاق سے طاہرہ کو جلد ہی اپنا دوست بنا لیا۔ یہاں ہم نے خوب ہنسی مذاق اور مزے کئے اور یہ سب کچھ ہمارے خود ساختہ لیڈر اکرم شیخ کی چوکس نظروں کے سامنے ہو رہا تھا۔ اکرم شیخ مجھ سے عمر میں تو چھوٹا ہے لیکن اس کو بزرگوں والا کردار ادا کرنے کا بڑا شوق ہے۔ اکرم شیخ اور طاہرہ نے اپنے فارم ہاؤس میں ہمارے اعزاز میں ایک عظیم الشان تقریب کا اہتمام کیا۔ جس میں اس نے میرے پرانے دوستوں کو، جو اسلام آباد کے علاقے میں قیام پذیر تھے، ان کی بیویوں کے ہمراہ بلوایا تھا تاکہ ان کا تعارف سامعہ سے ہو سکے۔
سامعہ کی خواہش تھی کہ وہ ایک دفعہ پھر عمرے کی ادائیگی کے لیے مقدس سر زمین پر جا ئے، پہلے وہ جدہ ہی میں رہتی تھی اس کا مکہ اور مدینہ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ تاہم جب سے وہ مستقل طور پرجدہ سے لاہور منتقل ہوئی تھی وہ وہاں نہ جا سکی تھی۔ میں نے اکرم شیخ سے بات کی اور وہ بھی اس سفر میں ہمارے ساتھ جانے کے لیے آمادہ ہو گئے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارا رابطہ لاہور کے ایک معروف ٹریول کمپنی ذکا گروپ کے ساتھ ہو گیا جنھوں نے سارے انتظامات مکمل کر دئیے۔ یوں 13 اپریل 2016 کو طاہرہ، اکرم شیخ، سامعہ اور میں مدینہ منورہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ مکہ اور مدینہ کے عمرے اور عبادتیں بالیدگی کا باعث بنتی ہیں اور روحانی طور پر ذہن کو سکون بخشتی ہیں۔ ہم 3 دن مدینہ میں ٹھہرے جہاں ہم نے اپنی ساری نمازیں مسجد نبوی میں ادا کیں اور روضہ رسولﷺ کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ مدینہ میں اپنا قیام مکمل کرنے کے بعد ہم نے بس پکڑی اور میقات ابیار علی کے مقام پر رک کر احرام باندھے۔ مدینہ سے مکہ کی سڑک ایک موٹر وے ہے۔ بس بھی بہت آرام دہ تھی اس لیے سفر کی سختی محسوس ہی نہ ہوئی اور ہم راستے میں آرام، نماز اور کھانے کے لیے رکنے کے باوجود پانچ چھے گھنٹے میں مکہ مکرمہ پہنچ گئے تھے۔ وہاں ہمارا قیام مکہ ٹاور کے ایک بہترین ہوٹل میں تھا اور ہمارا کمرہ 27ویں منزل پر تھا۔ ہم وہاں پہنچ کر تیار ہوئے اور حرم شریف کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ ہم نے عشاء کی نماز کے بعد عمرہ شروع کیا اور اس کی تکمیل میں ہمیں ڈیڑھ گھنٹہ لگا۔ سارے ارکان سے فارغ ہو نے پر ہم نے رب کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہمیں ایک بار پھر اپنے گھر میں آکر عبادتوں کی توفیق بخشی تھی۔ سامعہ تو بہت ہی خوش تھی کہ اس کی یہاں آنے کی خواہش پوری ہو گئی تھی۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔