قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 114
امام دین کے مجموعہ کلام کا معاملہ یہ ہے کہ لوگ انہیں بیوقوف بناتے تھے۔ استاد امام دین ایک چونگی محرر تھے اور گجرات ہی میں کام کرتے تھے۔ اس مجموعے میں انہوں نے زیادہ تر تضمین کی ہے ۔ جس طرح استاد صاحب نے مولانا علی خان کی تضمین کی اسی طرح غالب کی غزل
کوئی صورت نظر نہیں آتی
کی انہوں نے تضمین کی ۔ اور لکھا
ہو سکے استاد انسپکٹر چونگی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
گجرات میں ایک وکیل تھے جن کے نام میں خادم آتا تھا ۔ اس زمانے میں گجرات میں راجہ اختر مجسٹریٹ تھے۔ استاد امام دین ان کی دل بستگی کا سامان ہو اکرتے تھے چنانچہ انہوں نے استاد کو مجموعہ شائع کرنے کا مشورہ دیا اور امام دین کی تصویر علامہ اقبال جیسی چھپوائی گئی۔ پھر کتاب کا سائز بھی بانگ درا جیسا رکھا گیا اور اس میں باقاعدہ دیباچہ لکھا گیا۔ پھر اس میں ایک قطعہ بھی لکھا گیا جس سے تاریخ اشاعت نکلتی تھی ۔ اس کے دو مصرعے یوں تھے۔
طبع دیوان خاص و عام ہوا
کام استاد کا تمام ہوا
اس سے مجموعے کی تاریخ اشاعت نکلتی ہے ۔ استاد صاحب کو یہ سمجھ نہ آسکی کہ اس کے آخری مصرعے کا مطلب کیا نکلتا ہے اور انہوں نے اسے بڑے اہتمام سے چھاپا اور پھر اس کتاب کا افتتاح ہوا اور استاد صاحب کو گرمیوں کے موسم میں ایک ٹرک کی چھت پر بٹھایا گیا جبکہ باقی سب افراد ٹرک کے اندر بیٹھے ۔ ان کے گلے میں گنڈیر یوں اور پھلوں کے ہار پہنائے گئے اور اہتمام یہ کیا گیا کہ ان کے سر میں کچھ رنگ ڈال دیئے گئے اور جب انہیں پسینہ آتا تھا تو وہ رنگ میں مل کر ان کے چہرے پر گرتا تھا اور ان کا چہرہ رنگین ہوتا جاتا تھا۔ لوگ ادھر اُدھر کھڑے استاد امام دین کو اس حالت میں دیکھ کر تالیاں بجاتے تھے اور استاد داد لیتے تھے۔
وہاں پر کوئی صاحب محمد حسین تھے۔ سنا ہے کہ وہ کافی نام والے آدمی تھے اور بعد تک گجرات میں رہے۔ ان سے استاد امام دین کی چپقلش ہو گئی اور استاد نے ان پر ایک نظم لکھ ڈالی۔ جس میں کچھ اس طرح کے مصرعے تھے:
تیرا نک اے یا پکوڑا محمد حسین
مار کے مکہ میں اسے کردوں گا چوڑا محمد حسین
پھرے گا پھر تو دوڑا دوڑا محمد حسین
اس کی قسم کی نظم تھی ۔ ان صاحب محمد حسین نے راجہ حسن اختر مجسٹریٹ کی عدالت میں استاد امام دین کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ۔ استاد تو ایسے تھے ہی ۔ اس لیے اب یہ کم احمق نظر آئے اور مقدمہ دائر کرنے والا آدمی زیادہ احمق نظر آیا۔ انہوں نے ایک مجذوب آدمی کے پیچھے پڑ کے کیس کر دیا۔ وہاں ان کی دل لگی کا سامان ہوا۔ انگریز کا زمانہ تھا ۔ یونہی نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ چنانچہ راجہ حسن اختر نے استاد سے کہا کہ اب محمد حسین نام کا کوئی اور شخص پیدا کرو جس کا ناک بھی پکوڑے جیسا ہو پھر ہم مان جائیں گے کہ آپ نے نظم مدعی کے بارے میں نہیں کہی بلکہ اس محمد حسین کے بارے میں کہی۔ راجہ حسن اختر اس مقدمے کو طول دیتے گئے۔ ہر تاریخ پر پورا گجرات ان کی عدالت میں امڈ چلا آتا تھا اور وہاں راجہ صاحب ان سے شعر سنتے تھے اور بہت مدت کے بعد کہیں جا کر انہوں نے اس مقدمے کو خارج کیا۔
استاد امام دین سے ملاقاتوں کے واقعات میں نے بیان کئے ہیں ۔ اس قسم کے ایک اور صاحب لاہور میں بھی موجود تھے۔ یہ دہلی سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ اچھی فیملی سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کا نام نواب ناطق دہلوی تھا۔ بہت پڑھے لکھے تھے لیکن تھوڑے سے امام دین بھی تھے۔ کسی انگلش اخبار میں کام بھی کرتے تھے اور سنا ہے کہ وہاں اچھے ورکر تھے۔ غالباً سب ایڈیٹر تھے اور کافی ہاﺅس میں ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔
یہ یہاں پر دل لگی کا سامان تھے۔ ان کا ایک شعر اس زمانے میں بہت مشہور ہوا جو یہ تھا:
ناطق ترا یہ شعر ہے تریاق تری ہا
زنباق تری ہا لاکا زنباق تری ہا
لوگ اس کا مطلب جب ان سے پوچھتے تھے تو وہ سب کہتے تھے کہ میرا کام شعر کہنا ہے مطلب بتانا نہیں ،مطلب آپ خود ڈھونڈیں۔
ان صاحب کی بیچ میں نوکری چلی گئی۔ ہمارے ایک مشفق دوست سبطین فضلی مرحوم کے کچھ راہ رسم ہوتے تھے ۔ ان کے کچھ تعلقات ادیبوں ، آرٹسٹوں وغیرہ سے بھی تھے ۔ فلم ڈائریکٹر تھے اور ان کا فنون لطیفہ سے تعلق بھی تھا۔ وہ کبھی کبھی مجھے ساتھ لے کر کافی ہاﺅس میں چلے جایا کرتے تھے۔ وہاں انہوں نے نواب ناطق دہلوی کا تذکرہ سنا تو ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ ان سے ملے اور لطف لیا۔ بعد میں انہوں نے جب سنا کہ ناطق دہلوی سروس سے نکل چکے ہیں اور آج کل ضرورت مند ہیں تو وہ کہنے لگے کہ میں ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ وہ ایک کریک آدمی ہیں۔ اگر آپ نے مدد کا لفظ استعمال کیا تو وہ آپ سے لڑ پڑیں گے۔ اور پیسے بھی نہیں لیں گے۔ اگر ان کی امداد کرنی ہے تو ہم دوسرے طریقے سے کر دیتے ہیں۔ چنانچہ میں نے سوچا اور اس کے بعد ناطق صاحب سے بات کی۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 113
میں نے ان سے کہا کہ نواب ناطق ! فضلی صاحب ایک بہت بڑے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ایک فلم بنا رہے ہیں۔ انہوں نے اس کے گانے مجھ سے لکھوائے ہیں۔ باقی گانے تو میں نے لکھ لیے ہیں لیکن ایک جگہ آکر میں رک گیا ہوں۔ مجھ سے آگے بڑھا نہیں جا رہا ۔ سب دوستوں کا خیال ہے کہ اس طرح کی سیچوئیشن پر آپ بہتر لکھ سکتے ہیں۔ اب فضلی صاحب خود اس معاملے پر آپ سے بات نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ یہ بہت چھوٹا کام ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو ہم جیسے فلمی شاعروں کا کام ہے جبکہ آپ کا تو ادب میں بڑا مقام ہے۔ اور وہ آپ کی سطح پر نہیں آتے۔ لیکن میں نے فضلی صاحب سے کہا ہے کہ جب ایک بڑا شاعر فلم کے لیے لکھے گا تو وہ یہاں بھی بڑی شاعری کرے گا۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ فضلی صاحب تو میری باتوں سے قائل ہو گئے ہیں۔ اور اگر آپ کہیں تو میں ان سے آپ کی بات کروا دوں۔
ناطق دہلوی کہنے لگے کہ صاحب وہ ہم سے کیا لکھوائیں گے۔وہ ہمارا معاوضہ دے سکتے ہیں؟ میں نے کہاکہ کیا ہے آپ کا معاوضہ؟ تو کہنے لگے کہ ایک لاکھ روپے فی گانا ۔ میں نے کہا کہ ایک لاکھ روپے میں تو پوری فلم بنتی ہے جس میں اداکاروں کے پیسے اور سٹوڈیو وغیرہ کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کیجئے۔ کہنے لگے کہ اچھا وہ پچاس ہزار روپے دے دیں گے۔ میں نے کہا کہ یہ بھی زیادہ ہیں۔ کہنے لگے کہ اچھا وہ پچاس ہزار روپے دے دیں گے۔ میں نے کہا کہ یہ بھی زیادہ ہیں۔ آپ کم سے کم کتنا لے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دس ہزارروپے فی گانا سے کم نہیں لیں گے۔ میں نے کہا کہ ہم دس ہزار روپے دو گانوں کے دیتے ہیں۔ کہنے لگے ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ میں جا کر فضلی صاحب کو خوشخبری سناتا ہوں کہ آپ مان گئے ہیں۔
فضلی صاحب اس وقت دوسرے ٹیبل پر بیٹھے تھے۔ میں نے کہا کہ فضلی صاحب! آجائیے ۔ آپ کو مبارک ہو۔ آپ کا کام ہو گیا ہے اور نواب صاحب مان گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ دس ہزار روپے میں دو گانے لکھ کر دیں گے آپ فی الفور پانچ سو روپے نکال کر انہیں ٹوکن منی کے طور پر دے دیجئے ورنہ شاعروں کا تو موڈ ہوتا ہے ۔ نجانے بعد میں ان کا موڈ کیا ہو جائے ۔ چنانچہ فضلی صاحب نے پانچ سو روپے نکال کر نواب صاحب کو دیئے اور اس طرح ان کی مدد کی۔