سیاحت کا شوق شاید گھٹی میں تھا،جیب نے اجازت دی اللہ کی بنائی دنیا دیکھنے نکل پڑا، جب بھی کوئی حسین چہرہ نظر آ یا انکھوں سے ہو تا دل میں اتر آیا

سیاحت کا شوق شاید گھٹی میں تھا،جیب نے اجازت دی اللہ کی بنائی دنیا دیکھنے نکل ...
سیاحت کا شوق شاید گھٹی میں تھا،جیب نے اجازت دی اللہ کی بنائی دنیا دیکھنے نکل پڑا، جب بھی کوئی حسین چہرہ نظر آ یا انکھوں سے ہو تا دل میں اتر آیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:7
 سیاحت؛
سیاحت کا شوق شاید میری گھٹی میں تھا۔جب بھی موقع ملا اور جیب نے اجازت دی میں اللہ کی بنائی دنیا دیکھنے نکل پڑا۔ اونچے پہاڑوں، گونجتے آبشاروں،چاند ستاروں سے دوستی کی، موجیں مارتے سمندروں پر جا پہنچا، جھاگ اڑاتے نالوں کی تانیں سنیں، مچلتے جھرنوں کی کتھا کا مزا لیا، دریاؤں کے سنگ سنگ چلا، گنگناتی ہوا کے دوش پر لہرایا، ریگ زاروں میں ہوا کی سائیں سائیں سنی، فطرت کی رعنا ئیوں میں کھویا اور قدرت کے ہر نظارے کو دیکھ کر جھوم اٹھا اور سبحان اللہ کے ذکر سے اس کا شکر بجا لایا۔
دوستی؛
مجھے ہمیشہ اس لفظ سے محبت اور اس کے مطلب سے گہری واقفیت رہی ہے۔بچپن میں کسی سیانے کا قول پڑھا تھا؛”اپنے گل دان میں ایسے پھول سجاؤ جو خوشبو بھی دیتے ہوں۔“دوستوں کے چناؤ میں بڑا محدود رہا۔ اللہ نے کرم کیا سبھی پھولوں کا ایسا گلدستہ ہیں جن کی مہک دورسے آ تی اور دور تک جاتی ہے۔ تھوڑے ہیں مگر جان نثار۔ ارشد سے لے کر آج تک رنگ رنگ کے یہ دوست،دوستی کے ”ایفل ٹاور“ ہیں۔ عرصہ دراز ابا جی ہی میرے دوست تھے اور آخری دم تک رہے۔ لاہور میں بابر، خرم، عتیق، اکبر، شعیب، حبیب، فیصل، آغا سعید، کس کس کا ذکر کروں۔ یہ بچپن کے یار تھے۔ نوکری میں کچھ گلاب کے پھول اور چند چنبیلیاں بھی اس گلدستہ کا حصہ بنیں۔ قاری ضیاء،باس(ریاض صاحب)، مشہود شورش، نعیم دھوریہ، ملک مشتاق،ذوالفقار حیدر،عافیہ، کا فیہ، سدرہ خاں، سبین وغیرہ جیسے کو لیگ تھے مگر دل کا ہار ہو گئے۔خوشبو کی یہ ایسی کاک ٹیل تھی جس کی خوشبو سحر طاری کر تی تھی۔ ان کی محفلوں میں بیتا وقت دل و دماغ کو ترو تازہ کر جاتا تھا۔ آج بھی یاروں کی محفلیں تازگی، ٹھنڈک اور سکون دل کا سب سے آزمودہ ٹانک ہے۔ 
شیوہئ عشق؛
یہ بھی اللہ نے قسمت میں لکھ دیا۔ جب بھی کوئی حسین چہرہ نظر آ یا انکھوں سے ہو تا دل میں اتر آیا۔ یوں سمجھ لیں اچھی صورتیں مجھے اپنی طرف کھینچ لیتی تھیں۔ بقول استاد جوش؛”عشق فطرت کا بڑا فریب ہے۔“ ایک یونانی کہاوت ہے؛”شاعری جھوٹ کی انتہا ہے۔عمر کے اس حصے میں عشق وشق کے چکر میں خود پر ہنسا بھی اور پشیمان بھی ہوا مگر وہ کیا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔قسم ہے آ ج تک کوئی بھی نوکیلا چہرے نظر آ جائے تو وہ مکھڑا میرے سینے میں چبھ جاتا ہے۔ ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ سر کے بال کم اور سارے سفید ہیں لیکن اعمال نامہ سیاہ ہی ہے۔ کبھی غرور نہیں کیا، کسی پر آ وازہ نہیں کسا، بہت سی مہہ جبینوں کو یک طرفہ طور پر ہی دل میں بسایا لیکن آفرین دل نے ہمیشہ حسین چہروں کو دیکھ کر ہی چین پایا۔ 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -