انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 51
تا ریخی شو اہد سے معلو م ہو تا ہے کہ 1807 ء کے بر طا نیہ میں انسانی خریدو فرو خت کا کا رو با ر بڑ ی حد تک ختم ہو چکا تھا ۔ البتہ انسانی سمگلنگ کے جرا ئم پیشہ گینگز اس عمل میں مصر و ف رہے ۔ بر طا نیہ ایک قدیم خو شحا ل اور انسا نی حقو ق کا پا سدار ملک خیا ل کیا جا تا ہے۔ ایسے امیرو ں کے لیے ایک کلا سیکل رہا ئشی اور غر یبوں کے لیے رو زی کما نے والا ملک کہا جا سکتا ہے ۔ جیسا کہ پہلے بیا ن کیا گیا ہے کہ بر طا نوی حکو مت نے انسانی سمگلنگ کے خلا ف قانو نی نفا ذ کی کو ششوں کو جا ری رکھا ۔ انسانی سمگلنگ کو 2003ء کے ’’جر ائم کے ایکٹ ‘‘ کے تحت جر م قرا ر دیا گیا ۔ جنسی مقا صد کے لیے انسانوں کوسمگل کرنے کی سز ا 14 سا ل مقر ر ہے اور جنسی زیا دتی کو اس سے بھی سنگین جر م قرا ر دیتے ہو ئے سخت سز ا تحو یز کی گئی ۔ 2007ء میں حکو مت کی طر ف سے بچوں کو استحصا ل سے بچانے اور انسانی سمگلنگ کے نیٹ ور کس تو ڑ نے کے لیے وسیع پیما نے پر ایک آ پر یشن کیا گیا ۔ اس آپریشن میں اس جر م کے خلا ف عو امی آگا ہی اور سیکو ر ٹی کے با ہمی نظام کو مزید مر بو ط بنا نا بھی شامل تھا ۔ اس سا ل (2007 ء) 330بچوں کی شنا خت کی گئی جن کو سمگل کر کے پاکستان لا یا گیا ۔ 52 مجرموں کے خلا ف قانو نی کا رروا ئی عمل میں لا ئی گئی ۔ 10مجر موں کو سزائیں دی گئیں جو ڈیڑھ سے 10 سال کی قید پر مشتمل تھیں ۔ اوسط سزا کی حد 4سال تھی ۔2008ء میں ایک مقد مہ ایسا بھی سامنے آیا جس میں ایک شخص جسم فرو شی کے لیے لڑ کیو ں کو جبراً یو کے سمگل کر نے میں ملو ث تھا ۔ اس میں ملوث شخص کو 10سال قید کی سز ادی گئی ۔ اسی طر ح اسی سال پو لیس نے 25 ارکان پر مشتمل رو ما نیہ کے ایک منظم نیٹ ور ک کو گر فتا ر کیا جو بچوں کو سمگل کر کے لاتے اور ان سے بھیک منگوانے کا کا م لیتے تھے ۔ ان بچوں میں ایک سا ل سے کم عمر کاایک بچہ بھی شامل تھا جسے انہوں نے جیب میں ڈا لا ہوا تھا ۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 50 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بر طا نیہ میں جس وا قعہ نے سب سے زیا دہ شہرت حا صل کی اور جنسی سمگلنگ کے جر م میں پہلی دفعہ سزا دی گئی وہ پا کستانی نژاد بر طا نوی شہریو ں کے کم عمر سفید فا م لڑکیوں سے جنسی زیادتی کا وا قعہ تھا ۔ اس کی تفصیل کچھ یو ں ہے کہ انگلینڈ کے بڑے شہر ما نچسٹر میں 47 ایسی لڑکیوں کو شنا خت کیا گیا جن کا جنسی استحصا ل کیا گیا ۔ اس جرم میں بر طانوی پا کستانیوں کے علاوہ ایک افغا نی بھی شامل تھا ۔ سفید فا م لڑکیوں کو اس قسم کے سنگین جر م کا نشا نہ بنانے سے پو رے ملک میں ہلچل مچ گئی ۔ شرو ع میں اس وا قعہ کی تحقیق سے اجتنا ب کیا گیا مبا د ا حکا م پر نسلی امتیا ز کا الزام نہ آئے ۔ اس وا قعہ میں 12افراد ملو ث تھے جن میں سے 9افراد کو سزا دی گئی ۔ 2کو مکمل طو ر پر بری کر دیا گیا جبکہ ایک پا کستان بھا گ آیا ۔ ان میں اکثر شا دی شدہ اور اپنی کمیو نٹی میں معزز سمجھے جا تے تھے ۔ ان میں سے ایک 5 بچوں کا با پ تھا ۔ 24سے 59سالوں کے یہ افراد ایک دو سرے کو بخو بی جا نتے تھے ۔ تفتیش کر نے والو ں نے تقریباًہر زا وئیے سے اس وا قعہ کی جزیا ت تک کو کھنگا ل کر عدا لت کے سامنے پیش کر دیا ۔ وہ ور کشا پ اور دو ایک ریسٹو رنٹ میں کام کرتے تھے ۔ کچھ پا کستا ن میں ایک ہی گاؤ ں سے تعلق رکھتے تھے ۔ یہ گینگ کم عمر لڑکیوں کو جنسی سر گر میوں کے لیے تیا ر کر تا تھا ۔ مئی 2008ء میں زیادتی کا شکا ر لڑکیوں میں سے ایک نے پو لیس کو شکایت کی لیکن پو لیس کو کر اون پراسیکیوشن سر وس نے کا رروائی سے رو ک دیا ۔ دسمبر 2009 ء کو ایک دوسری لڑکی نے بھی پہلی لڑکی کی شکا یت کو دہرا تے ہو ئے کم عمر لڑکیوں کو جنسی تر بیت دیئے جا نے کی نشاند ہی کی ۔ 2011ء میں ایک پا کستا نی نژا د بر طا نوی چیف پرا سیکیوٹر افضل نذیر کی تقرری سے اس واقعہ کے خلا ف کا رروائی عمل میں لا ئی گئی ۔ ان 9 افرادکے علا وہ ان لڑ کیوں سے کئی مر دوں نے جنسی زیادتی کی اور ان کو نشہ آور ادویا ت استعما ل کرنے کو کہا جا تا ۔ اس بھیا نک واقعہ کی تفصیلا ت نا قابل ذکر ہیں جس میں ظلم اور سنگدلی کی انتہا کر دی گئی ۔ مختصر یہ کہ عدالت نے سمگلر شبیر احمد سمیت 9 افراد کو قید کی مختلف سزائیں سنا ئیں جو ذیل میں بیان کی گئی ہیں ۔
نام سزاکی مدت جرم
1۔کبیر حسین۔۔۔۔ 9سال قید ۔۔۔۔۔ جنسی زیادتی ،بچوں کے ساتھ جنسی
سرگرمی میں ملوث ہونیکی سازش
2۔عبدالعزیز۔۔۔۔ 9سال قید۔۔۔۔ جنسی استحصال کے لئے سمگل کرنا،بچوں کے
ساتھ جنسی عمل میں شامل ہونیکی سازش
3۔عدیل خان۔۔۔۔ 8سال قید۔۔۔۔ ایضاً
4۔عبد الرؤف۔۔۔۔ 6سال۔۔۔۔ ایضاً
5۔محمد ساجد۔۔۔۔ 12سال۔۔۔۔ زنا بالجبر ،16سال سے کم عمر لڑکی سے جنسی زیادتی ،جنسی استحصال کے لئے سمگل شدہ بچوں بچوں کے ساتھ جنسی عمل میں سازش
6۔محمد امین۔۔۔۔ 5سال۔۔۔۔ جنسی حملہ، بچوں کے ساتھ جنسی عمل میں شمولیت کی سازش
7۔حامد صافی۔۔۔۔ 4سال۔۔۔۔ جنسی استحصال کیلئے انسانی سمگلنگ کا ارتکاب ،بچوں کے ساتھ جنسی عمل میں شمولیت کی سازش
8۔عبدالقیوم۔۔۔۔ 4سال۔۔۔۔ بچوں کیساتھ جنسی عمل میں شمولیت کی سازش
9۔شبیر احمد۔۔۔۔ 19سال۔۔۔۔ زنا بالجبر میں مدد کرنا اور اس کیلئے اکسانا ،جنسی حملہ ،جنسی استحصال کیلئے انسانی سمگلنگ میں ملوث، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے عمل میں شمولیت کی سازش
کچھ مجرموں نے بتایا کہ لڑکیاں اپنی مرضی سے جنسی عمل کے لئے ان کے پاس آتی تھیں اور اس عمل سے خوش تھیں۔ان کے سربراہ شبیر احمد جس کی عمر 59برس تھی نے بتایا کہ ’’لڑکیاں جسم فروش تھیں جو ایک قحبہ خانہ چلا رہی تھیں‘‘یہ ایک سفید جھوٹ تھا جو سفید فام لڑکیوں پر لگایا گیا ۔اس نے چلاتے ہوئے عدالت میں کہا کہ ’’سفید لوگ کہاں ہیں؟تم میری طرح کے لوگوں کو عدالت میں لاتے ہو۔‘‘شبیر احمد کے دھمکی آمیز رویے اور جج جیرالڈ کلفٹن کو ’’نسل پرست حرامزادہ ‘‘کہنے پر سزا کی سماعت کے دوران عدالت سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی گئی ۔ جج نے اسے نان سینس کہا اور ان کی موجودہ حالت کو لالچ اور لذت کا نتیجہ قرار دیا۔جج نے سزا سنانے کے بعد گینگ کے تمام ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’تم تمام نے اپنے شکار افراد کے ساتھ اس طرح سلوک کیا کہ ان کی کوئی قدرو قیمت اور عزت نہیں ، وہ تمہارے طبقے یا مذہب سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔‘‘یہ ملک کے اندر مقامی باشندوں کی سمگلنگ اور جنسی استحصال کا ایک واقعہ ہی نہ تھا بلکہ پورے ملک میں اس پرتندوتیز بحث و مباحثے شروع ہو گئے۔مغربی میڈیا خصوصاً امریکی اور مغربی پو رپی ممالک کے ٹی وی چینلز اور پیپر میڈیا نے اس واقعہ کو خوب رنگین اور مصالحہ دار بنا کر پیش کیا۔برطانیہ میں حکومت نے سرکاری و نیم سرکاری اداروں اور شہریوں کو اس واقعہ کو نسلی امتیاز کے طور پر زیر بحث لانے سے منع کر دیا۔اس کے بعد مئی 2012ء میں ایک دوسرا گینگ گرفتار کیا گیا۔9افراد پر مشتمل اس گینگ میں بھی ایشیائی باشندے ملوث تھے جو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے شک میں گرفتار کیا گیا۔شمالی انگلینڈ میں ایک درجن سے زائد مقدمات ایشیائی مسلمانوں کے ملوث ہونے سے متعلق ہیں جو زیر تفتیش ہیں۔5جنوری 2011ء کو ’’دی ٹائمز‘‘ میں شائع ہونیوالی ایک سٹوری کے مطابق 1997ء سے لے کر 2011ء تک 11سے16سال کی عمر کی لڑکیوں کو گلیوں اور محلوں میں جنسی تربیت کے جرم میں56مجرمان کو سزا دی گئی جن میں تین گورے اور 53ایشیائی باشندے تھے۔ان کی اکثریت کا تعلق برطانوی پاکستانی کمیونٹی سے تھا۔مقامی سیاسی اور سماجی گروپوں کی طرف سے اس واقعہ کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا اور ایک سو نوجوانوں نے مجرمان پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانیہ میں جبری مشقت اور انسانی سمگلنگ برائے جسم فروشی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔حال ہی میں حکومتی اعدادو شمار میں جبری مشقت اور گھریلو خدمت کے لئے برطانیہ میں غلاموں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے۔ان میں بہت سے کم عمر ہیں اور وہ آنے والے خطرات سے بالکل بے خبر ہیں۔محکمہ داخلہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011ء میں ایک ہزار افراد سمگلنگ کا شکار ہوئے جن میں234بچے تھے ۔یہی تعداد2010ء میں710تھی ۔ان میں سب سے زیادہ تعداد نائیجیرین باشندوں کی تھی۔اس کے بعد ویتنام اور رومانیہ کے باشندے برطانیہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے۔برطانیہ پہنچنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ ان کو سمگل کر کے یہاں لایا گیا ہے۔بعض اوقات پولیس بھی ایسے افراد کی شناخت نہیں کر سکتی۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں