دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ آخری قسط
سائرہ بانو اور میں بہت خوش تھے۔منزل بہ منزل جیون آگے بڑھتا رہا ۔فلمیں بن رہی تھیں ۔اور سیر سپاٹے ہورہے تھے ۔اس دوران کئی ناقابل فراموش واقعات نے بھی جنم لیا جو میرے دل کا داغ بن گئے لیکن سائرہ بانو نے اپنی پُرخلوص محبت سے ان داغوں کو دھو دیا ۔
ایک دن مجھے مدھو بالا کا پیغام ملا کہ وہ مجھ سے فوری ملنا چاہتی ہے ۔یہ سچ بھی ہے کہ میں نے کبھی اسے سے محبت کی تھی ۔اب نہیں ملنا چاہتا تھا ۔سائرہ بانو سے بات کی اور اسے بتایا کہ مدھو بالا ملنا چاہتی ہے تو اس نے اصرار کیا ہمیں ان سے ملنا چاہئے ۔ممکن ہے اسکو ہماری ضرورت ہو۔وہ میرے ساتھ ہی مدھو کے گھر گئی اور اسے دیکھ کر دل کو ٹیس پہنچی ۔مدھو کا یہ حال دیکھا نہ جائے تھا ۔بدن سوکھ گیا تھا ،نیم جان تھی۔دیکھتے ہی بولی
” ہمارے شہزادے کو اسکی شہزادی مل ہی گئی آخر “
مدھو بالا کو اپنی زندگی کے کچھ معاملات بارے خلوص نیت سے مشورہ چاہئے تھا ۔ہم نے اسکو مشورے دیکر مسائل کی دلدل سے نکالنا چاہا اور تسلیاں دیکر آگئے مگر چند دنوں بعد ہی وہ دنیا سے چلی گئی ۔تئیس فروری 1969 کو خبر ملی کہ اب مدھو نہیں رہی۔
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر55
ایک بار کومنی کوشل بھی مجھ سے ملنے کے لئے بے تاب ہوئی ۔ان دنوں میرا دل کا آپریشن ہوا تھا ۔سائرہ بانو سے مل کر اسے بہت اچھا لگا ۔کومنی نے ہمیں بچوں کی فلموں کی کچھ ٹیپس دیں کہ ہمیں یہ فلمیں دیکھنی چاہئےں کیونکہ اس میں نیچر نظر آتی ہے ۔
زندگی کا پڑاو بڑا لمبا ہے ۔لوگ اکثر سوال کرتے ہیں کہ میں نے کون سی فاش غلطی کی ۔غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں لیکن ایک غلطی مجھ سے جو ہوئی وہ بہت بڑی تھی۔یہ عاصمہ رحمان سے میری دوسری شادی تھی۔وہ میری بہنوں کی دوست تھی ۔یہ شادی بڑے دباو میں ہوئی تھی۔میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں کبھی بھی عورتوں سے تعلقات پر فخر نہیں کرنے والا تھا حالانکہ میرے اردگرد بڑے فنکار موجود تھے جو اس پر اتراتے تھے کہ ان کے فلاں عورت سے تعلقات ہیں لیکن مجھے یہ سب کہنا زیب نہیں دیتا تھا ۔
ان دنوں جب عاصمہ سے ملاقات ہوئی وہ اپنے شوہر کے ساتھ آندھرا پردیش میں کرکٹ میچ دیکھنے آئی تھی ۔اسکے اپنے تین بچے تھے ۔میرے پرستار کے طور پر دونوں میرے ساتھ ایک طرح سے چپکے سے رہتے تھے ،اسکانتیجہ یہ ہوا کہ عاصمہ نے طلاق لے لی۔میری بہنوں کا اس سے تعلق ایسا مضبوط تھا کہ مجھ پر دباو ڈال کر1982میں اس سے نکاح کرادیا گیا ۔
میںعاصمہ سے نکاح کرکے رنجیدہ تھا ۔ پھر جب یہ خبر باہر نکلی اور سائرہ بانو کے کانوں تک پہنچی تو اسکو یقین ہی نہیں آیا کہ اسکا یوسف اسکے پیار کے شیش محل کو چکنا چور بھی کردے گا ۔
سائرہ بانو کو سمجھانے میں مجھے بہت ٹائم لگا ۔اس موقع پر سلطان ا ور آپا نسیم نے تحمل اور بردباری سے میرا مقدمہ لڑا اور حالات کو سمجھانے میں سائرہ بانو کی مدد کی ۔میں بے حد شرمندہ تھا ۔لوگ کہتے تھے کہ یوسف نے شادی بچوں کی خاطر کی ۔کیونکہ سائرہ بانو ماں نہیں بن سکتی تھی ۔یہ تہمت تھی کہ میں اس وجہ سے شادی پر مجبور ہوگیا تھا کہ سائرہ بانو بچے پیدا نہیں کرسکتی تھی ۔ہماری شادی کو سولہ سال بیت چکے تھے ۔لامحالہ دل میں بچوں کے لئے امنگ پیدا ہوتی ہے ،ہر کوئی سوچتا ہے۔ لیکن سائرہ بانو کی لازوال محبت نے مجھے کبھی سنجیدگی سے اس بارے سوچنے نہیں دیا تھا ۔
بات نکلی ہے تو بتا دوں ۔1972میں سائرہ ماں بننے والی تھی اور آٹھ ماہ کے حمل سے تھی مگر اسکو بلڈ پریشر نے آلیا جس سے بچہ کوکھ میں اللہ کو پیارا ہوگیا ۔وہ بیٹا تھا جو دنیا میں آنے سے پہلے دنیا سے چلا گیا تھا ۔سائرہ پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے ۔وہ کئی مہینے غم میں گری پڑی رہی ۔اب یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ماں بن ہی نہ سکتی تھی۔جو اللہ کو منظور تھا ۔ہم نے اپنے بھتیجوں اور بھانجوں کے ساتھ زندگی کے بہت خوبصورت دن بتائے ہیں ۔
عاصمہ رحمان کا مسئلہ جب بڑھ گیا تو میں نے دوستوں کے مشورے پر اسے طلاق دے دی ۔سائرہ بانو پرسوتن بیٹھانا میرے نزدیک پاپ تھا ۔یہ پاپ تو کیا میں نے مگر اسکا کفارہ جلد ہی ادا کردیا ۔ اب میں سائرہ کے ساتھ ہی ساری زندگی بیتانا چاہتا ہوں ۔ (ختم شد )