فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر467
’’سات لاکھ‘‘ کا نغمہ رشید عطرے نے مرتب کیا تھا’’عشق پر زور نہیں‘‘ کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین اور نغمہ نگار قتیل شفائی تھے۔ ایسے ہنر مند اور ممتاز لوگوں نے یہ نغمے تخلیق کیے تھے جن کی مثال اب شاید ہی پیدا ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فلم ساز و اداکار الیاس کاشمیری کے اصرار پر ماسٹر عنایت نے یہ نغمہ بنایا تھا کیونکہ اس سے پہلے راگ پہاڑی میں عطرے صاحبا یک تہلکہ خیز نغمہ تخلیق کر چکے تھے۔ یہ ایک لحاظ سے ماسٹر عنایت ہی کے لیے نہیں بلکہ گیت نویس اور گلوکارہ کے لیے بھی ایک چیلنج تھا۔ یہ دونوں ہی نغمے بے حد مقبول ہوئے اور آج بھی یاد گارہیں۔
مالا اور زبیدہ خانم کی آوازوں کا اگر موازانہ کیا جائے تو مالا کی آواز میں مٹھاس زیادہ تھی مگر زبیدہ خانم کی آواز میں ٹھہراؤ، تاثر اور سوز کی کیفیت تھی۔ مالا کے ساتھ ایک المیہ یہ تھا کہ اونچے سروں پر گاتے ہوئے ان کی آواز کا معیار برقرار نہیں رہتا تھا یہی ان کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔ زبیدہ خانم کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جن موسیقاروں نے مالا کی آواز کے ساتھ ان کے سر کی آخری حد کو مد نظر رکھ کر موسیقی مرتب کی وہ تمام گانے بے عیب اور خوب صورت ہیں۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر466قسط نمبر پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مثال کے طور پر ’’نائلہ‘‘ کے گانوں کو پیش کیا جا سکتا ہے جو سب کے سب ہٹ تھے۔ ماسٹر عنایت اس فلم کے موسیقار اور قتیل شفائی نغمہ نگار تھے۔ ماسٹر عنایت نے مالا کی آواز کے اسکیل اور رسائی کو فراموش نہیں کیا اور یادگار نغمات تخلیق کئے۔ جن موسیقاروں نے محض ایک نغمہ بنا کر اسے گانے کے لیے مالا کی خدمات حاصل کیں انہوں نے خود اپنے ساتھ بھی اور مالا کے ساتھ بھی نا انصافی اور زیادتی کی۔ بہرحال یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔
مالا کی آمد ہنگامہ خیز تھی اور ان کی رخصت رقت آمیز۔ انہوں نے ۱۹۶۲ء سے ۸۲۔۱۹۸۰ تک گلوکاری کی اور بیس سال طویل عرصے میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی لیکن آخری سالوں میں کچھ تو صحت کی خرابی اور زیادہ تر موسیقاروں کی بھیڑ چال کی وجہ سے ان کے گانوں کی تعداد بتدریج کم کرنے لگی۔ اب ناہید اختر، رونا لیلیٰ اور نیرہ نور جیسی آوازیں ھی فلمی صنعت کو میسر آچکی تھیںَ یہ ترو تازہ اور ہر لحاظ سے بہت خوب صورت کھنک دار اور سریلی آوازیں تھیں۔ وقت بہت بے رحم اور بے مروت ہوتا ہے۔ کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتا تو مالا کیساتھ کیا نبھاتا۔ رفتہ رفتہ مالا پس منظر میں چلی گئیں۔ اس پر ستم یہ کہ انہوں نے اپنی جمع پونجی فلم سازی کی نذر کر دی۔ جب برا وقت آتا ہے تو ہر طرف سے آتا ہے۔ فلموں میں مانگ کی کمی، صحت کی خرابی، گھریلو حالات اور ازدواجی الجھنوں نے انہیں بری طرح الجھا کر رکھ دیا تھا۔ شمیم آرا، زمرد جیسی سہیلیاں اور شمیم نازلی جیسی بہن ہی اب ان کی دم ساز اور غم گسار، باقی رہ گئی تھیں۔
مالا کا بہترین دور ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۱ء کا زمانہ تھا جب انہوں نے پے درپے کئی فلموں کے لیے بہت خوبصورت گانے گائے۔ احمد رشدی کے ساتھ گائے ہوئے ان کے دو گانے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے اپنی فلمی کیرئیر میں قریب قریب دو سو فلموں کے لیے ایک ہزار کے لگ بھگ گانے صدا بند کرائے جن میں سے بہت سے سپرہٹ اور یادگار نغمات ہیں اور فلموں کی کامیابی میں مالا کی آواز اور نغموں کا بھی نمایا ہاتھ ہے۔ ان کی یادگار اور قابل ذکر فلموں میں انیلا۔ نائلہ، صاعقہ، ارمان، کنیز، تاج محل، احسان، افشاں، دل لگی ، دل میرا دھڑکن تیری، بہاریں پھر بھی آئیں گی، انسانیت، دو راہا، سرحد، سورج مکھی، عشق پر زور نہیں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی فلموں میں مالا نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور ان کی مقبولیت میں حصہ لیا۔ مالا کی بعض فلمیں تو ان کی گلوکاری کے باعث بہت مقبول ہوئیں اور ان کے گائے ہوئے گیت امر ہوگئے۔ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جگنوں میں مالا نے بھی بہت اچھے ملی ترانے گائے۔ جنہوں نے قوم کا اور خصوصاً فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے میں اہم کردار سر انجام دیا۔ مالا نے ہر قسم کے نغمات گائے ہیں۔ اور سب کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ شوخ و شنگ ، طربیہ، خزنتیہ ، مزاحیہ، رومانی ہر طرح کے گانے وہ یکساں مہارت کے ساتھ گاتی تھیں۔
پہلے تو نئی گلوکاراؤں کی آمد کی وجہ سے ان کی مانگ میں کمی ہوئی۔ اس کے بعد ان پر فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث وہ کافی عرصے تک نغمہ سرائی کے قابل نہیں رہیں۔ مالی حالات پہلے ہی ابتر ہو چکے تھے۔ سمن آباد میں کرائے کا ایک مکان ان کا آخری ٹھکانا تھا جہاں صرف ان کے انتہائی قریبی لوگ ہی ملاقات کے لیے جاتے تھے۔ کہاں تو فلم سازوں، موسیقاروِں، گلوکارہ کا یہ المناک انجام عبرت انگیز ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہ علاج معالجے کے اخراجات بھی برداشت کرنے کے قابل نہ رہیں تھیں کہتے ہیں کہ ایک ہمدرد اور ان کے مداح ڈاکٹر نے ان کا بلا معاوضہ علاج کیا اور انہیں مفت ادویات بھی فراہم کرتے رہے۔اگر یہ سہولت حاصل نہ ہوتی تو شاید وہ علاج معالجے سے بھی محروم رہتیں۔ اس قدر عروج دیکھنے کے بعد ایسا زوال خدا کسی کو نہ دکھائے۔ مالا کی ہمت اور اعلیٰ ظرفی تھی کہ ان تمام مصائب و آلام کے باوجود وہ مسکرانے کی کوشش کرتی رہتی تھی۔ اسی زمانے میں ہم بھی چند بار ان کے سمن آباد والے مکان میں گئے۔ کچھ اورپرانے ساتھی بھی اکٹھے ہو جاتے تھے تو ان کا دل بہل جاتا تھا اور وقت اچھا گزر جاتا تھا مگر اس یک بعد پھر وہی تنہائی کا زہر اور محرومیوں اور مایوسیوں کا ہجوم۔
وہ ہمیشہ ایک خوش مزاج، خوش اخلاق ، ملنسار، شائستہ اور خوش اطوار گلوکارہ رہیں۔ کبھی کسی کو شکایت کاموقع نہیں دیا۔ ہمیشہ مروت اور رواداری کا مظاہرہ کیا۔ اپنے دور عروج میں بھی کبھی غرور یا تکبرنہیں کیا۔ اتنی خوبیوں کے باوجود ان کے ستارے جب گردش میں آئے تو سبھی کچھ اجڑ کر رہ گیا۔ ہم نے فلمی زندگی میں ایسے اور بھی کئی عبرت انگیز واقعات دیکھے ہیں اور زمانے کی بے وفائیوں اور کج ادائیوں کا نظارہ کیا ہے خدا کسی کو اچھے دن دکھانے کے بعد برے وقت سے دوچار نہ کرے۔ ہر ایک کے لیے یہی دعا کرنی چاہئے۔ وہی جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہئے ذلت بلاشبہ وہی مختار مطلق ہے۔
اس طرح ایک دن چپکے سے مالا نے غم زندگی سے نجات حاصل کرلی۔ دیکھا جائے تو وہ اس سے پہلے بھی کب زندہ تھیں۔ اگر سانس لینے کا نام زندگی ہے تو وہ زندہ تھیں ورنہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھی کیا زندگی ہے ! مالا نے دوبارہ شادی کی اور دونوں شادیاں ناکام ہوئیں۔ اس بات نے بھی انہیں بہت دکھی اور مایوس کر دیاتھا۔ مالا کی وفات کے بعد بہت جلد فلمی صنعت اور فلم بینوں نے انہیں بھلا دیا۔ وفات سے کئی سال پہلے ہی انہیں بھلا دیا گیاتھا۔ کبھی کبھی ریڈیو سے ان کا کوئی نغمہ پیش کر دیا جاتا ہے ٹیلی ویژن پر تو جیسے ان کا داخلہ ہی ممنوع ہے۔ اب تو نئی نسل کی اکثریت مالا کے نام سے بھی واقف نہیں ہے۔ مالا کا گایا ہوا ایک نغمہ اس المیے کی حرف بحرف عکاسی کرتا ہے۔
بھولی ہوئی ہوں داستاں
گزرا ہوا خیال ہوں
واقعی اب وہ ایک بھولی ہوئی داستاں اور گزرا ہوا خیال ہی بن کر رہ گئی ہیں۔
مالا نے اپنے دور کے سبھی ممتاز موسیقاروں کے ساتھ کام کیا اور قریباً تمام مرد گلوکاروں کیساتھ مل کر دو گانے گائے تھے۔ ان کے گائے ہوئے بعض نغمات واقعی نا قابل فراموش ہیں لیکن خود انہیں زمانہ فراموش کر چکا ہے۔(جاری ہے)
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر468 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں