فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر468

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر468
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر468

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کے نامور گلوکاروں کے بارے میں بہت سے لوگ یہ جاننے کے خواہش مند رہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی گلوکاری کا آغاز کب اور کس فلم سے کیا تھا۔ ان کی معلومات اور ریکاڈز کے لیے ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
ملکہ ترنم نور جہاں کی بطور گلوکارہ پہلی فلم ’’پنڈ دی کڑی‘‘ تھی اس فلم میں انہوں نے ایک کم سن بچی کا کردار بھی ادا کیا تھا۔ اسکے بعد انہوں نے متعدد پنجابی فلموں میں نغمہ سرائی کی لیکن ان کی پہلی اردو فلم ’’خاندان‘‘ تھی۔
وہ اس فلم کی ہیروئن بھی تھیں۔ اور اس فلم کی نمائش کے ساتھ ہی ان کی مقبولیت اور شہرت کا دور شروع ہوا جو ان کے آخر وقت تک جاری رہا۔ میڈم نورجہاں نے بے شمار مقبول گانے اور ملی ترانے گائے اور ایک ناقابل فراموش مقام حاصل کیا۔ انہوں نے گلوکاری کا آغاز پنجابی فلم سے کیا تھا اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ آخری زمانے میں انہوں نے زیادہ پنجابی فلموں کے لیے ہی گلوکاری کی اور وہ پنجابی فلموں کی ایک ناگزیر ضرورت بن گئی تھیں۔ نورجہاں نے ایک پنجابی فلم کے لیے جو گانا صدا بند کرایا تھا وہ ان کے حسب حال ہے۔ اس گانے کے بول ہیں
میرے چرچے گلی گلی تھاں تھاں
مرے ورگی اور کوئی نئیں آں
عنایت حسین بھٹی نے نذیر صاحب کی پنجابی فلم ’’پھیرے‘‘ سے فلمی گلوکاری کا آغاز کیا تھا یہ فلم اگست ۱۹۴۹ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ جی اے چشتی اسکے موسیقار تھے۔ بعد میں وہ اداکار اور فلم ساز بھی بن گئے تھے۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر467 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
زبیدہ خانم کی پہلی فلم نذیر صاحب کی پنجابی فلم ’’شہری بابو‘‘ تھی۔ وہ ایک زمانے میں مقبول ترین گلوکاراؤں میں شمار کی جاتی تھیں۔ انہوں نے فلم ’’پاٹے خاں‘‘ میں اداکاری بھی کی تھی بعد میں عکاس ریاض شاہ بخاری سے شادی کرکے وہ فلمی دنیا سے قطعی کنارہ کش ہوگئیں۔
اقبال بانو نے بہت کم فلمی گانے گائے ہیں مگر ان میں سے بیشتر بے حد مقبول اور ناقابل فراموش ہیں۔ فلمی گلوکارہ کی حیثیت سے ان کی پہلی فلم انور کمالپاشا کی فلم ’’گمنام‘‘ تھی۔ جو ۱۹۵۴ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے۔ اس فلم کے نغمات بمبئی تک مقبول ہوئے تھے۔
فضل حسین نے بہت کم عرصے گلوکاری کی۔ ان کی پہلی فلم بھی ’’گمنام ‘‘ تھی۔
سلیم رضاکسی زمانے میں مقبول ترین گلوکاروں میں ممتاز تھے۔ انکی پہلی فلم ’’نوکر‘‘تھی جو ۱۹۵۵ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے بے شمار مقبول گیت گئے۔ مصروفیات کی کمی کے باعث ہو کینیڈا چلے گئے تھے اور وہیں انہوں نے وفات پائی۔
کوثر پروین اداکارہ آشا پوسلے کی چھوٹی بہن تھی۔ انہوں نے بھی اپنی گلوکاری کا آغاز فلم ’’نوکر‘‘ سے کیا تھا۔ کافی عرصے تک وہ بہت مقبول فلمی گلوکارہ کی حیثیت سے مصروف رہیں۔ وہ جوانی ہی میں انتقال کر گئی تھیں۔
نسیم بیگم کی پہلی فلم ’’بے گناہ‘‘ تھی جو فروری ۱۹۵۸ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے موسیقار شہریار تھے۔نسیم بیگم کا شمار صف اول کی گلوکاراؤں میں ہوتا تھا۔ وہ مختار بیگم کی شاگرد تھیں اور انتہائی مشکل گانے بھی انتہائی خوب صورتی سے گاتی تھیں۔ انہیں کلاسیکی موسیقی پر بھی عبورحاصل تھا۔ وہ جوان العمری میں ہی وفات پاگئیں۔
ناہید نیازی کا تعلق بہت ممتاز گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سرور نیازی ریڈیو کے اعلیٰ افسر رہ چکے تھے اور کئی نغمات اور نعتیں بھی انہوں نے تحریر اور کمپوزکی تھیں۔ ناہید نیازی کی پہلی فلم زہر عشق تھی۔ یہ فلم ۱۹۵۸ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ کئی سال تک وہ مقبول گلوکارہ کے طور پر مصروف رہیں۔ موسیقار مصلح الدین سے شادی کرنے کے بعد وہ انگلستان چلی گئی تھیں۔ 
اخلاق احمد کی پہلی فلم ’’بادل اور بجلی‘‘ ۱۹۷۳ء میں ریلیز ہوئی تھی جس کے موسیقار سہیل رعناتھے۔ انہوں نے بہت سے انتہائی مقبول گیت گائے اور متعدد ایوارڈ حاصل کیے پھر شاید انہیں نظر لگ گئی۔ وہ بلڈ کینسر میں مبتلا ہونے کے بعد انگلستان میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ اب ان کا انتقال ہوچکا ہے وہ اپنے دورمیں مقبول ترین گلوکاروں میں شمار ہوتے تھے۔
ناہید اختر کی پہلی فلم ’’ننھا فرشتہ‘‘ ۱۹۷۴ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے موسیقار ایم اشرف تھے۔ ناہید اختر نے طویل عرصے تک گلوکارہ کے طور پر فلمی دنیا پر حکمرانی کی پھر اچانک غائب ہوگئیں۔ چند سال بعد نمودار ہوئیں تو ایک صحافی آصف علی پوتا سے شادی کرکے گلوکاری سے کنارہ کش ہوگئیں۔ انہوں نے فلم اور ٹی وی کے لیے بہت سے ناقابل فراموش نغمے گائے ہیں۔
اے نیر کی پہلی فلم ’’بہشت‘‘ تھی۔ جس کے ہدایتکار پہلے ریاض شاہ تھے مگر ان کی وفات کے بعد حسن طارق نے اسے مکمل کرایا تھا۔ رشید عطرے اس کے موسیقار تھے۔
ایس بی جان اپنی پہلی فلم ’’سویرا‘‘ میں ایک نغمے کی وجہ سے مشہور ہوئے تھے۔ یہ فلم ۱۹۵۹ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے موسیقار منظور اور ہدایت کار رفیق رضوی تھے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ایس بی جان کا نغمہ 
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ موسم جواں ہے حسین ہے
بے انتہا مقبول ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کوئی قابل ذکر گیت نہیں گایا اور بہت جلد فلمی افق سے غائب ہوگئے۔
رونا لیلیٰ کی پہلی فلم ’’ہم دونوں‘‘ ۱۹۶۶ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے موسیقار ناشاد تھے۔ پہلی فلم ہی نے انہیں بے پناہ شہرت اور مقبولیت سے سرفراز کردیا تھا۔ انہوں نے قریب قریب سبھی ممتاز موسیقاروں کے ساتھ کام کیا اور بہت خوب صورت نغمات پیش کیے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہ پاکستان سے رخصت ہو کر ڈھاکا چلی گئی تھیں۔ انہوں نے بمبئی میں بھی گلوکاری کی مگر جمنے نہ پائیں۔ پاکستان سے جانے کے بعد انہیں پہلے جیسی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی اور رفتہ رفتہ وہ غیرمعروف ہو کر رہ گئیں۔
احمدرشدی کی پہلی فلم ’’کارنامہ‘‘ ۱۹۵۶ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ کراچی میں بنائی گئی تھی۔ اس کے موسیقار نتھو خاں اور ہدایت کار ابقال حسین تھے۔ اسکے بعد احمد رشدی نے بے مثال مقبولیت اور کامیابیاں حاصل کیں۔ وہ بہت میٹھی سریلی اور خوب صورت آواز کے مالک تھے۔ ہر قسم کے گیت گا سکتے تھے۔ سبھی موسیقاروں کے ساتھ انہوں نے کام کیا اور بے شمار یادگار نغمات پیش کیے۔ اردو فلموں کے زوال کے بعد وہ کراچی چلے گئے تھے عارضہ قلب میں مبتلا ہو کر وہ قدرے کم عمری ہی میں انتقال کر گئے۔
مسعود رانا احمد رشدی کے عبد گلوکاری کے میدان میں نمودار ہوئے مگر اپنی آواز کے حسن اور بے مثال ادائیگی کے باعث بہت جلد فلمی افق پر چھا گئے۔ ان کی پہلی فلم ’’انقلاب‘‘ کراچی میں بنائی گئی تھی۔ اس کے موسیقار نتھو خاں تھے۔ بعد میں وہ بھیا حمد رشدی کی طرح لاہور منتقل ہو گئے تھے۔ انہوں نے لاتعداد یادگار فلموں کے لیے گلوکاری کی۔ اردو فلموں کے زوال کے بعد فلموں سے کنارہ کش ہوگئے چند سال قبل انتقال کرگئے۔
ایم کلیم کی آواز منفرد اور دوسرے گلوکاروں سے مختلف تھی۔ ان کی پہلی فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ تھی جس کے موسیقار ماسٹرعبداللہ اور مصنف و ہدایت کار فضل احمد کریم فضلی تھے۔ انہوں نے بہت کم فلموں کے لیے گلوکاری کی اور جلد ہی فلمی افق سے غائب ہوگئے۔
مہدی حسن کا شمار لازوال گلوکاروں میں ہوتا ہے۔ وہ غزل کی گائیکی کے بادشاہ کہلائے۔ ہر قسم کے گانے انتہائی خوب صورتی سے گائے۔ ان جیسی آواز کسی اور کو نصیب نہ ہو سکی۔ کلاسیکی موسیقی پر بھی انہیں عبور حاصل تھا۔ فلموں میں انہوں نے ’’شکاری‘‘ سے گلوکاری کا آغاز کیا تھا جوکراچی میں بنائی گئی تھی اور ۱۹۵۶ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اصغر علی محمد حسین اور فلم کے موسیقار تھے۔ مہدی حسن بعد میں فلمی گلوکار اور کلاسیکی موسیقی اور غزل گوئی میں عالمگیر شہرت حاصل کی تھی۔ ان کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ہر قسم کے گیت گانے پر عبور حاصل تھا۔ کچھ عرصے سے فالج کے عارضے میں مبتلا تھے۔
گلوکار کی حیثیت سے عالمگیر کی پہلی فلم ’’جاگیر‘‘ تھی۔ جس کے موسیقار نثار بزمی تھے۔ عالمگیر نے بعد میں گلوکار کی حیثیت سے بہت مقبولیت حاصل کی۔ پاکستان میں انہوں نے پوپ موسیقی کا آغاز کیا تھا۔ کافی عرصے سے وہ فلمی دنیا سے دور ہیں۔
طاہرہ سید نے بہت کم فلمی نغمے گائے ہیں۔ ان کی پہلی فلم ’’محبت‘‘ تھی۔ جس کے موسیقار نثار بزی اور ہدایت کار ایس سلیمان تھے۔
حبیب ولی محمد شوقیہ غزل گو ہیں۔ ان کی ایک غزل فلم ساز اقبال شہزاد نے اپنی فلم ’’بازی‘‘ میں شامل کی تھی جسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ زیادہ تر ریڈیو سے گاتے رہے ہیں۔
ثریا ملتانیکر کی پہلی فلم اقبال شہزاد کی فلم ’’بدنام‘‘ تھی جو ۱۹۶۸ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے موسیقار دیبو بھٹا چاریہ تھے۔ ثریا ملتانیکر کی اس غزل کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی اس کے نغمہ نگار مسرور انور تھے۔ اس کے بعد انہوں نے فلم کے لیے نہیں گایا۔
نیرہ نور کی پہلی فلم ’’گھرانا‘‘ تھی جو ۱۹۷۳ء میں ریلیز ہوئی تھی اس کے موسیقار ایم اشرف تھے۔یہ معلومات حافظے کی مدد سے مرتب کی گئی ہیں جن میں غلطی کا امکان اور تصحیح کی گنجائش موجود ہے۔
ہمارے بعض فلم اسٹارز نے بھی فلموں کے لیے گلوکاری کی ہے۔ مثلا ندیم، دراصل بنیادی طور پر یہ گلوکار تھے اور وہ گلوکاری کے خیال سے ہی ڈھاکا گئے تھے۔ فردوسی بیگم ان کی سفارش تھیں انہوں نے فلم ’’چکوری‘‘ کے لیے ایک گیت ریکارڈ رکایاتھا۔ ’’چکوری‘‘ ان کی بطور اداکار بھی پہلی فلم تھی اور بے حد کامیاب ہوئی تھی۔ اس فلم کے موسیقار روبن گھوش اور ہدایت کار احتشام تھے جو ندیم کے خسر بھی بن گئے تھے۔ پچھلے دنوں یعنی فروری ۲۰۰۲ء میں ڈھاکا میں ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ ندیم سے اکثر یہ گانا سنانے کی فرمائش کیجاتی ہے اور یہ فرمائش پوری بھی کرتے ہیں لیکن ریاض نہ ہونے کی وجہ سے کانپتی ہوئی آواز میں گاتے ہیں اور گانے کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ چکوری مئی ۶۷ ۱۹ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم نے ندیم اور ہیروئن شبانہ کو راتوں رات سپراسٹار بنا دیاتھا۔
وحید مراد نے فلم ’’اشارہ‘‘ بنائی تو اس کی ہدایت کاری کے فرائض بھی خود ہی سر انجام دیئے تھے۔ اس فلم میں انہوں نے ایک گانابھی گایا تھا جس کے بول تھے۔
جیسے تیسے بیت گیا دن
یہ فلم ۱۹۶۹ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ دیبا اور روزینہ نے ان کے ساتھ رومانی کردار ادا کیے تھے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )