فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر469

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر469
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر469

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مرزا غالب پھر یاد آگئے۔ نہ جانے کیا بات ہے کہ جس طرح غالب کو شکایت ہے کہ ۔۔۔
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
اس طرح غالب نے دوسروں کے لیے یہ مشکل پیدا کردی ہے کہ غالب کے حوالے کے بغیر بہت کم باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ اس وقت غالب صاحب کے یاد آنے کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے دنیا بھر کے موضوعات کے بارے میں شاعری کی ہے ۔ فی الحال ہمیں موسیقی کے سلسلے میں کچھ کہنا تھا تو مرزا کا حوالہ دینا لازم جانا۔ مرزا غالب نے فرمایا ہے کہ ۔۔۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے ان ہی اجزا کا پریشاں ہونا
’’سبب‘‘ کے سلسلے میں ناصر کاظمی کا یہ شعر بھی یاد آگیا
دل ڈھرکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر468پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں


سوال یہ تھا کہ موسیقی کیا ہے ۔ یعنی اس کی مختصر ترین تعریف کیا ہوسکتی ہے۔ یوں تو یہ ایک ’’علم دریا‘‘ ہے۔ اس بارے میں ماہرین اور اساتذہ نے بہت کچھ لکھا ہے اور بہت کچھ ارشاد فرمایا ہے لیکن ایک عام آدمی یا معمولی فہم رکھنے والے شخص کے سامنے آپ موسیقی کے مختصر تعریف کیسے کریں گے؟
اس پر ہمیں موسیقار رشید عطرے اور خواجہ خورشید انور صاحب کا چشم دیدد واقعہ یاد آگیا جو پہلے بھی بیان کر چکے ہیں۔ فلم ’’انتظار ‘‘ کے بے مثال کامیابی کا جشن منانے کے کیے اداکار سنتوش کمار صاحب نے اپنی مسلم ٹاؤن والی کوٹھی میں بہت بڑے پیمانے پر ایک دعوت دی تھی جس میں فلمی صنعت کے تمام قابلِ ذکر افراد موجود تھے ۔ بادہ و ساغر کا بھی اہتمام تھا کیونکہ مرزا غالب یہ نکتے کی بات بیان کر گئے ہیں کہ۔۔۔
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
چنانچہ بادہ و ساغر بلکہ بوتلوں کا بھی بندوبست تھا۔ ہر کوئی اپنی پسند کے مشروبات سے جی بہلا رہا تھا۔ ہم آئی اے رحمان صاحب کے ساتھ گھومتے پھرتے تھے اور مختلف قسم کے لوگوں سے مل رہے تھے کہ معلوم ہوا کہ خواجہ خورشید انور صاحب اور مسعود پرویز صاحب ایک علیٰحدہ کمرے میں تشریف فرما ہیں۔ (یہ 1957-58کا واقعہ ہے) ہم بھی رحمان صاحب کے ساتھ اس چھوٹے سے کمرے میں پہنچ گئے۔ یہ دونوں حضرت کافی کم گوتھے بلکہ بعض اوقات تو بولتے ہی نہیں تھے ۔
ہم رحمن صاحب کے ساتھ اندر پہنچے تو گفتگو کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ فلم ’’انتظار‘‘ اپنی موسیقی کے اعتبار سے ایک سنگ میل تصور کی گئی تھی اس لیے ہم نے موسیقی کے بارے میں ہی بات چھیڑدی۔ خواجہ صاحب سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
رحمن صاحب نے گفتگو کا آغاز انگریزی میں کیا تھا اس لیے خواجہ خورشید انور نے بھی انگریزی میں ہی جواب دینا مناسب سمجھا۔
ابھی یہ گفتگو شروع ہی ہوئی تھی کہ رشید عطرے صاحب سفید شارک اسکن کا سوٹ پہنے‘ سرخ رنگ کی ٹائی باندھے کمرے میں تشریف لے آئے اور محفل میں شریک ہونے کے بجائے انہوں نے چھوٹے سے کمرے کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر باتیں سننے کو ترجیح دی۔ عطرے صاحب اس وقت ترنگ میں تھے ۔ ہم نے ان کے مے نوشی کے جو درجے مقرر کیے تھے ان میں پہلا درجہ نشان کا تھا۔ ایک پیگ پینے کے بعد وہ کیف و نشاط کی کیفیت میں بہت اچھی ‘ دلچسپ اور معلوماتی باتیں کرتے تھے ۔ دوسرا مرحلہ دوسرے پیگ کے بعد شروع ہوتا تھا۔ اس میں وہ سنجیدگی کے ساتھ موضوع پر بات چیت کرتے تھے۔ تیسرا مرحلہ تیسرے پیگ کے بعد یہ تھا کہ وہ بحث و مباحثہ اور تکرار شروع کردیتے تھے۔ ہرفقرے کو با ربار دہراتے تھے اور یہ بھول جاتے تھے کہ یہی بات وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔ گویا بہکنے کا آغاز ہوجاتا تھا۔ ان کے دوستوں کی خواہش اور کوشش ہوا کرتی تھی کہ وہ صرف تین جام تک ہی محدود رہیں مگر عطرے صاحب کہاں باز آنے والے تھے۔ اصرار کر کے چوتھا پیگ بھی نوش جا کرلیتے تھے۔ یہ مرحلہ تھا جب وہ اردو اور پنجابی سے انگریزی بولنے لگتے تھے۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہتا تھا یہاں تک کہ انہیں نیند آجاتی تھی یادوست احباب انہیں پکڑ کر ان کی کار میں بٹھا دیتے تھے اور ڈرائیور کی ہدایت کر دیتے تھے کہ انہیں سیدھا گھر لے جائے۔ کہیں اور ہرگزنہ لے جائے۔
اس روز جب عطرے صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو چوتھے مرحلے میں تھے۔ کچھ دیر تک وہ چوکھٹ پہ کھڑے خاموشی سے خواجہ صاحب کی باتیں سنتے رہے پھر نہ جانے کیا سوجھی کہ آگے بڑھ کر چند قدم کے فاصلے پر کھڑے ہوکر انہوں نے خواجہ صاحب کو مخاطب کیا اور کہا کہ خواجہ صاحب گٹ پٹ انگریزی بولنے سے کام نہیں چلتا۔ انگریزی بولنے سے میوزک نہیں آجاتی۔

ان کے اس دخل در معقولات نے ہم سب کو حیران کردیا۔ خواجہ خورشید انور او مسعود پرویز کم گو ‘ ضلع پسند اور شائستہ لوگ تھے۔ انہوں نے عطرے صاحب کی بات کاجواب نہیں دیا بلکہ ادھر تو جہ ہی نہ دی۔
عطرے صاحب اس پر مزید تاؤ کھا گئے اور آگے بڑھ کر مزید انگریزی بولنے لگے۔ اب وہ براہِ راست خواجہ صاحب سے مخاطب تھے ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ میوزک کے بارے میں کچھ نہیں جانتے نہ سازوں اور گائیکی سے آگاہ ہیں۔ آپ کوئی ساز بجا سکتے ہیں نہ گا سکتے ہیں اور میوزک دائریکٹر بن سکتے ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)