فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر442

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر442
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر442

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دنیا کی فلمی تاریخ میں غالباً صرف دو فنکارائیں ایسی ہیں جنہوں نے بلا ضرورت لوگوں کے سامنے آنا ‘ تقاریب میں شرکت کرنا اور اپنی تصاویر اور خبریں اخبارات میں شائع کرانا پسند نہیں کیا ورنہ عام طور پر فلم ایکٹریس خودنمائی کی ولدادہ ہوتی ہیں اور ریٹائر ہوجانے اور گمنامی کی زندگی بسر کرنے کے باوجود ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ انہیں پبلسٹی ملتی رہے خواہ اس کا طریقہ یا ذریعہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ 

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر441 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

ہالی وڈ کی معروف ترین ہیروئن گریٹا گاربو گزشتہ صدی کی تیسری دہائی میں ہالی وڈ کی ہیروئن ذاتی پبلسٹی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھیں اور تقاریب میں شریک ہو کر اپنی تصاویر بنوانا اور شائع کرانا اپنا حق سمجھتی تھیں ۔اس زمانے میں بھی گریٹاگاربو ایک الگ تھلگ رہنے والی گوشہ نشین ہیروئن تھیں ۔ فلم کی شوٹنگ کے بعد وہ کہیں نظر نہیں آتی تھیں ۔ اوّل تو خریداری کے لیے جاتی ہی نہ تھیں لیکن اگر شاپنگ سینٹریا ہوٹل میں جاناپڑتا تھا تو سیاہ شیشوں کا چشمہ پہن کر سرپر بڑا ساہیٹ رکھ لیا کرتی تھیں تاکہ پہنچانی نہ جا سکیں۔ لوگوں کے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ ا گر وہ کسی ساہ چشمے والی عورت کے ہیٹ پہنے دیکھتے تو گریٹاگاربو سمجھ کر اس کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش ضرور کرتے تھے ۔ گریٹا گاربو عروج کے زمانے میں ہی فلموں سے کنارہ کش ہوگئی تھیں اور اس کے بعد ایسی غائب ہوئیں کہ لوگ اور اخبار نویس بس ان کے بارے میں اندازے ہی لگایا کرتے تھے ۔ وہ گھر کی چار دیواری میں محدود ہو کر رہ گئی تھیں ۔اگر کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنا پڑتا تھا تو پھر گہرا سیاہ چشمہ اور بڑا سا ہیٹ ضرور استعمال کرتی تھیں۔ وہ اس عادت کی وجہ سے فلمی دنیا کی ایک پر اسرار ہستی بن کر رہ گئی تھیں۔ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا نہ ہی ان کی نقل و حرکت کا علم ہوتا تھا۔ اس طرح انہوں نے ایک طویل پر اسرار زندگی بسر کی ۔ انہوں نے بہت طویل عمر پائی تھی مگر اپنی روشں کبھی ترک نہیں کی حتیٰ کہ جب ان کا انتقال ہوا تو دنیا کو صرف اتنا معلوم ہوا کہ گریٹا گاربو کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس سے زیادہ صرف قیاس آرائیوں پر ہی مبنی تھا۔ 
ہندوستان کی فلمی صنعت میں ایک ایسی ہی پر اسرار ہستی اداکارہ اور گلوکارہ ثریا رہی ہیں ۔ انہوں نے اپنی فلمی زندگی کاآغاز ایک کم سن اداکارہ کی حیثیت سے فلم ’’تاج محل‘‘ سے کیا تھا۔ یہ فلم 1941ء میں بنائی گئی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایس ڈی برمن جو آگے چل کر برصغیر کے نامور موسیقار بنے وہ اس وقت گلوکار تھے اور عموماً بنگالی نغمے گایا کرتے تھے ۔ انہوں نے فلم ’’تاج محل‘‘ میں پہلی مرتبہ اردو گانا گایا تھا۔ اس فلم کے موسیقار مدھولال ماسٹر تھے ۔ اس فلم میں ایس ‘ ڈی ‘ برمن کے گائے ہوئے نغمے کے بول یہ تھے ۔ 
پریم کی ساری نشانی ۔ 
ثریا نے اس فلم میں ایک چھوٹی بچی کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کی دوسری فلم ’’تمنا ‘‘ تھی جو 1942ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔ اس فلم میں انہوں نے کم سنی کے باوجود ایک نغمہ بھی گایا تھا جوا ن کا پہلا فلمی نغمہ تھا۔ اس کے بول تھے ۔ 
جاگو آئی آشا ۔ 
ٍ دراصل یہ ایک دو گانا تھا جس میں ان کے ساتھ مناڈے کی آواز تھی۔ مناڈے اس زمانے میں گمنام اور نووارد تھے۔ بعد میں وہ بہت مقبول گلوگار بن گئے تھے ۔ مناڈے کے چچا کے ’سی ‘ ڈے اس فلم کے موسیقار تھے ۔ یہ بنگلہ اوراردو فلموں کے بتہ مامور موسیقار اور گلوکار تھے ۔ نیو تھیٹرز او ربمبئی ٹاکیز کی معروف فلموں میں وہ موسیقاری اور گلوکاری کرتے رہے ہیں۔ 
یہ فلمی دنیامیں ثریا کا آغاز تھا جس کو بہت سے لوگ بھول بھی گئے ہوں گے کیونکہ ان کے یہ گانے قابل ذکر نہ تھے اور نہ ہی انہوں نے مقبولیت حاصل کی تھی۔ گلوکارہ کی حیثیت سے ثریا کی پہلی مشہور فلم ’’شاردا‘‘ تھی ۔ اس کے موسیقار نوشاد تھے اور ہیروئن مہتاب کی گلوکارہ کے طور پر منتخب کیا تھا۔ نوشاد جیسے موسیقار نے انہیں اپنے زمانے کی مشہور معروف ہیروئن مہتاب کی گلوکارہ کے طور پر منتخب کیا تھا۔ نوشاد کا نام جادو اثر تھا۔ یہ فلم بھی 1942ء میں ریلیز ہوئی تھی اور سچ پوچھئے تو یہی ثریا کی شہرت کا سبب مل گئی ۔ ’’شادرا ‘‘ کی موسیقی اتنی اچھی تھی کہ عرصہ دراز گزرنے کے باوجود آج بھی اس کے گیت مقبول ہیں۔ مثلاً یہ وہ نغمات ہیں جو آج بھی سننے والوں کو مسحور کردیتے ہیں۔ 
پنچھی جا 
پیچھے رہا ہے بچپن میرا
اس کو جاکے لا 
اور ..... میرے دل کو سجن سمجھا دو۔
اس فلم کی موسیقی کیا ہٹ ہوئی کہ ثریا کو گلوکارہ کی حیثیت سے اونچا مقام مل گیا۔ انہوں نے مہتاب کے لیے تین فلموں میں پلے بیک نغمات گائے تھے جو شاردا۔ قانون اور سنجوگ تھیں۔ 
ثریا کی آواز میں ایک عجیب سی نغمگی ‘ پختگی ۔ گہرائی اور چھپی ہوئی سیکس اپیل تھی ۔ سننے والے کو محسوس ہوتا تھا جیسے گانے والی اپنے دل کی گہرائیوں اور جذبات کی شدت کے ساتھ گا رہی ہے۔ ان کی آواز دوسری گلوکاراؤں سے مختلف تھی اور الگ سے پہچانی جاتی تھی ۔ ویسی آواز پھر کبھی برصغیر کی فلمی دنیا میں سننے میں نہیں آئی ۔ وہ بولوں کے ساتھ پورا انصار کرتی تھیں۔ ہر بول کو اس کے تقاضوں کے مطابق سادگی سے لیکن انتہائی پر اثرانداز میں ادا کرتی تھیں اور گائے ہوئے خود بھی نغمے میں ڈوب جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے گائے ہوئے نغمات آج بھی اتنے ہی پر اثراور مسحور کن ہیں جیسے کے پچاس سال پہلے تھے ۔ ان کی آواز کی انفرادیت اور جادو وقت گزرنے کے باوجود آج بھی سب سے الگ تھلگ محسوس ہوتاہے۔ 
ثریا کا تذکرہ پہلے بھی ہوچکا ہے۔ ثریا نے بمبئی مین ایک خوش حال گھر میں آنکھیں کھولی تھیں۔ حالانکہ ان کے خاندان کا تعلق پنجاب (لاہور) سے تھا۔ ان کی والدہ اور ماموں ظہور نے فلمی دنیا کو اپنا ہدف بنایا تھا۔ طہور فلموں میں ولن اور دوسرے معاون کردار کرتے تھے۔ ان ہی کے سر ثریا کو فلموں میں متعارف کرانے کا سہرا ہے۔ 
جیسا کہ پہلے بیان کر چکے ہیں ثریا ہمیشہ ایک پر اسرار شخصیت رہی ہیں۔ جب وہ فلموں میں اداکاری کرتی تھیں اس وقت بھی عام محفلوں اور فلمی تقاریب سے دور ہی رہا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ غالباً وہ اپنی نانی اور والدہ کی عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے فلم والوں سے گھلنا ملنا پسند نہیں کرتیں۔ فلم اسٹوڈیو اور گھر کے سوا وہ کہیں اور نہیں دیکھی گئیں۔ البتہ ان کے بارے میں چند اسکیڈلز ضرور بننے ۔ ان میں فہرست دیو آنند کا نام ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دیوآنند کے سوا کسی اور کے ساتھ ان کا نام کبھی منسلک نہیں کیا گیا تو غلط نہ ہوگا۔ یہ داستان بھی کافی تفصیل سے فلمی الف لیلہ میں بیان کی جا چکی ہے۔ ثریا کا کوئی ہم راز اور دوست نہ تھا ۔ یہاں تک کہ کسی فلمی اداکارہ سے بھی ان کی گہری اور بے تکلف دوستی نہیں تھی اس لیے اس بات کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی جا سکی تھی کہ کیا واقعی ثریا اور ویو آنند ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور شادی کے رشتے میں بندھنا چاہتے تھے ۔ ایسی باتوں کی تصدیق ہم راز ہی کر سکتے ہیں لیکن مشکل یہ تھی کہ ثریا کی طرح دیو آنند بھی سب سے الگ تھلگ رہنے والے اور اپنا راز اپنی ذات تک محدود رکھنے والے کم گو ہیرو تھے ۔
ایک زمانے میں دیوآنند بھارتی فلمی صنعت کے ’’تین بڑوں ‘‘ میں شمار کیے جاتے تھے جن میں دلیپ کمار اور راج کپور بھی شامل تھے ۔ ان کے پرستاروں کی تعداد لاکھوں کرڑوں میں تھی لیکن وہ بہت کم آمیز انسان تھے۔ فلمی تقاریب اور محفلوں سے وہ دور ہی رہنا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی اپنی مقبولیت سے فائدہ اٹھا کر صنف مخالف سے میل جول کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی فلرٹ کیا حالانکہ ان کی باقی دوہم عصر تو اس معاملے میں بہت آگے تھے۔ دلیپ کمار کم آمیز ہونے کے باوجود چھپے رستم تھے۔ ان کی قریبی دوست انہیں خاموش کارکن کہا کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ وہ رومان پسند تھے لیکن بہت منتخب لڑکیاں ہی ان کی توجہ کا مرکز بنتی تھیں۔ ان کے ساتھ دلیپ کمار کی ملاقاتیں اس قدر پر اسرار ہوتی تھیں کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی تھی۔ ان میں کامنی کوشل ‘ مدھو بالا اور جنتی مالا کا نام سر فہرست ہے۔ 
جہاں تک راج کپور کا تعلق ہے تو وہ عشق کیے رہ نہیں سکتے تھے اور ان کا عشق پوشیدہ اور ڈھکا چھپا بھی نہیں رہتا تھا۔ ان کی رومان پسندی کا ہر ایک کو علم تھا اور وہ اپنی رنگین مزاجی اور رنگین داستانوں کی وجہ سے ساری فلمی دنیا میں بلکہ باہر کی دنیا میں بھی مشہور تھے ۔ 
ان دونوں کے مقابلے میں دیو آنند ایک مختلف مزاج کے اداکار تھے ۔ اول تو ان کا حلقہ احباب ہی بہت محدود تھا ۔ دوسرے وہ کام اور صرف کام سے واسطہ رکھتے تھے۔ اس کے سوا ان کی زندگی میں کوئی اور دلچسپی نہیں تھی۔ صنف مخالف کے ساتھ انہیں خاص دلچسپی نہ تھی اور نہ ہی وہ فلرٹ کے قائل تھے۔ ان سے پہلے ہندوستان کے ایک اور سپراسٹار اشوک کمار بھی اس مزاج کے آدمی تھے۔ ان کی بیوی کے سوا شاید کبھی ان کی زندگی میں کوئی اور لڑکی ہی داخل نہیں ہوئی ۔ وہ دوسری لڑکیوں سے صرف کام کی حدتک واسطہ رکھتے تھے ۔ ان کے اس مزاج کی وجہ سے فلمی ہیروئنیں انہیں ’’دادا منی‘‘ یعنی بڑا بھائی کہا کرتی تھیں۔ (جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر443 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں