اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 147

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 147
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 147

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حضرت ابراہیم بن یشارؒ نے ایک دن حضرت ابراہیم ادھمؒ سے کہا کہ ”میں آج مٹی کے کام پر جارہا ہوں۔“
آپ نے فرمایا ”اے ابن یشاءؒ ! تو مٹی ڈھونڈ رہا ہے اور ادھر خود مٹی (موت) تیری تلاش میں ہے ۔ تم اس سے چھوٹ نہیں سکتے لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ جس چیز کے تم متلاشی ہو، وہ بھی تم سے یہ چھوٹ سکے۔ شاید یہ بات تمہارے مشاہدے سے نہیں گزری کہ حریض کو محرومی سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اور کاہلوں کو صاحب رزق بنادیا کرتے ہیں۔“
انہوں نے جواب دیا کہ اس وقت میرے پاس صرف ایک درہم ہے اور وہ بھی ایک بقال سے وصول کرنا ہے۔
حضرت ابراہیم ادہمؒ نے کہا کہ افسوس ہے تیری مسلمانی پر کہ ایک درہم رکھتے بھی ہو اور پھر بھی مٹی کے کام پر چلے جارہے ہو۔“
٭٭٭

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 146 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مادھو ایک ہند و لڑکا تھا جس سے شاہ حسینؒ کو پیار تھا اور خود مادھو بھی ان کو چاہتا تھا۔ مادھو دریائے راوی کے پار شاہدرہ میں رہتا تھا اور شاہ حسینؒ کسی صورت اپنے سے جوا نہ ہونے دیتے تھے۔ ایک بار اس کے والدین گنگا اشنان کے لیے جانے لگے تو انہوں نے مادھو سے کہا ”تم ہمارے بعد آنا۔“
مادھو شاہ حسینؒ کے پاس گیا اور اجازت چاہی لیکن شاہ حسینؒ کو اس کی جدائی منظور نہ ت ھی چنانچہ آپ نے کہا ”تم اس قدر دور دراز سفر کی تکلیف نہ اُٹھاﺅ، گنگا خود تمہارے پاس چلی آئے گی۔“
پھر آپ نے مادھو کو آنکھیں بند کرنے کو کہا۔ مادھو نے اپنی آنکھیں بند کیں تو دیکھا کہ دریائے گنگا کے کنارے کھڑا ہے اور اس کے والدین بھی وہاں موجود ہیں۔ اس نے اپنے باپ کے ساتھ گنگا میں اشنان کیا اور اس کے بعد آنکھیں کھول لیں اور اپنے آپ کو شاہ حسین کے قریب پایا۔
بعد میں جب اس کے والدین گنگا اشنان سے واپس لاہور آئے تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مادھو نے اس کے ساتھ گنگا میں اشنان کیا تھا۔
کہا جاتاہے کہ اس کرامت کا مادھو پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہوگیا اور مادھو سے شیخ مادھو بن گیا۔ ادھر اس کے پیار میں شاہ حسین مادھو لال حسینؒ بن گئے۔
٭٭٭
ایک عورت کسی شیخ کے پاس گئی اور کہا کہ میرے لڑکے کو اہل روم نے گرفتار کرلیا ہے میرے پاس ایک جھونپڑے کے سوا کچھ نہیں ہے، میں اس جھونپڑے کو بیچ نہیں سکتی، نقد مال بھی میرے پاس نہیں ہے۔ اگر آپ کسی سے کہہ دیتے تو وہ فدیہ ادا کرکے اسے چھڑا لاتا۔ کیونکہ مجھے اس کے بغیر کسی پل بھی چین نہیں ہے۔
انہوں نے کہا ”اچھا تم جاﺅ۔ میں اس کے متعلق سوچوں گا۔“ اتنا کہنے کے بعد زمین کی طرف نظر کرکے لب مبارک کو حرکت دی۔
پھر ایک مدت کے بعد وہ عورت بیٹے کو لیے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی اور دعائیں دینے لگی اور کہا کہ میرا بیٹا سلامتی سے آگیا ہے۔ اور اسے ایک عجیب واقعہ پیش آیا ہے جس کو وہ خود آپ کے سامنے بیان کرے گا۔
لڑکے نے کہا ”میں بادشاہ روم کے پاس بہت سے قیدیوں کے ہمراہ تھا۔ بادشاہ کا ایک مقرب ہم سے خدمت لیتا تھا۔ وہ ہر روز ہمین جنگل میں لے جاتا تھا اور ہم سے کام لیتا تھا اور شام کو واپس لوٹا لاتاتھا۔ ہمیں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ایک دن ایک محافظ کے ساتھ لوٹ کر آرہا تھا۔ ناگاہ بیڑی میرے پاﺅں سے کھل کر گر پڑی جب لڑکے ے دن اور گھری تبلائی تو یہ وہی وقت تھا جبکہ شیخ نے دعا کی تھی جب بیڑی کھلی تو میرا محافظ مجھ پر چلایا کہ تو نے بیڑیاں کھول لیں۔
میں نے کہا وہ اپنے آپ کھل گئیں۔ اس نے افسر سے کہا او راسی وقت لوہار کو بلا کر اس سے سخت بیڑیاں پہنائیں۔ چند قدم چلا تھا کہ وہ بھی کھل کر گر پڑیں۔
یہ دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی۔ انہوں نے اپنے ایک راہب کو بلایا۔ راہب نے مجھ سے پوچھا ”کیا تیری ماں ہے؟“
میں نے کہا ”ہاں۔“ اس نے کہا ”اس کی دعا مقبول ہوئی ہے۔ تجھے اللہ نے آزاد کر دیا ہے۔ اس لیے اب ہم تمہیں قید نہیں کرسکتے۔“
٭٭٭
ایک بزرگ نکاح سے گریزان رہتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک رات کو خواب میں کیا دیکھتے ہیں، کہ میدان قیامت میں کھڑے ہیں اور ہر طرف لوگ پیاس کے باعث خستہ حال ہورہے ہیں اور بچوں کا ایک گروہ ہے کہ ان میں سے ہر بچہ سونے چاندی کے پیالے میں پانی لیے ہوئے ہے اور پیاسوں کے ایک گروہ کو پانی پلایا جارہاہے۔
انہوں نے بھی پانی مانگا لیکن کسی بچے نے انہیں پانی نہ دیا اور کہا کہ تیرا کوئی بچہ ہمارے درمیان ہے ہی نہیں تو پھر تجھے پانی کون دے گا؟“ پس اُن بزرگ نے خواب سے بیدار ہوتے ہی نکاح کرلیا۔
٭٭٭
ساقی نے شہنشاہ جہانگیر کو جام پیش کیا۔ اس وقت حضرت سیدنا شاہ امیر ابو العلٰی ؒ بادشاہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے وہ جام آپ کو دے دیا۔
آپ نے بہ پاس ادب جام لے تو لیا لیکن وہیں پھینک دیا۔ جہانگیر نے دوسر اجام آپ کو پیش کیا۔ آپ نے لے کر پھر پہلے کی طرح پھینک دیا۔
جہانگیر تاب نہ لاسکا۔ نشہ کی حالت میں آپ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا ”کیا تم غضب سلطانی سے نہیں ڈرتے۔“
آپ نے جواب دیا ”غضب سلطانی سے نہیں ڈرتا، قہر ربانی سے ڈرتا ہوں۔“
اس کے بعد آپ اپنے مکان پر تشریف لائے۔ اپنا مال و متاع تقسیم کیا۔ نقد و جنس میں سے اپنے پا س کچھ نہ رکھا۔ جہانگیر نے ہر چند آپ کو بلایا لیکن آپ نہیں گئے۔(جاری ہے)

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 148 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں