اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 146
حضرت فتح موصلیؒ اپنے ایک دوست کے ہاں گئے وہ گھر پر نہ تھا۔ اس کی لونڈی سے کہا کہ ذرا نقدی کا صندوقچہ تو اُٹھالاﺅ۔ وہ لے آئی تو اپنی ضرورت کے مطابق رقم اس میں سے لی اور چلے آئے۔ دوست گھر آیا اور یہ ماجرا سنا تو اس قدر خوش ہوا کہ کنیز کو آواز کردیا۔
٭٭٭
علی بن الموفقؒ جو بزرگوں میں سے ایک بزرگ گزرے ہیں، فرماتے ہیں کہ ایک سال میں نے حج کیا۔ عرفہ کی رات کو خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ دو فرشتے سبز لباس میں ملبوس آسمان سے اترے۔ ایک نے دوسرے سے کہا ”کیا تم جانتے ہو کہ اس سال کتنے حاجیوں نے فریضہ حج ادا کیا۔“
دوسرے نے جواباً کہا ”نہیں۔“
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 145 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پہلے نے کہا ”چھ لاکھ افراد نے حج ادا کیا ہے اور پھر دوسرے سے پوچھا کہ جانتے بھی ہو کہ ان میں سے کتنے افراد کا حج قبول ہوا ہے؟“
دوسرے نے پھر نفی میں جواب دیا تو پہلے نے بتایا کہ صرف چھ افراد کو شرف قبولیت حاصل ہوا ہے۔
علی بن الموفقؒ کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی مارے خوف کے میں چونک کر اٹھ بیٹھا اور رنج و اندوہ مجھ پر بری طرح طاری ہوگیا۔ رنجیدہ خاطر ہوکر میں نے دل میں کہا کہ میں تو کسی صورت میں بھی ان چھ خوش نصیبوں میں سے نہیں ہوسکتا۔
اسی اندیشے میں مستغرق شرالحرام جا پہنچا اور پھر خواب میں انہی دو فرشتوں کو دیکھا کہ وہی باتیں کررہے ہیں اور ایک نے دوسرے سے سوال کیا۔ کہ جانتے ہو کہ آج رات اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے خلق کے لیے کیا حکم نازل ہوا ہے؟“
دوسرے نے لاعلمی کا اظہار کیا تو اس نے بتایا کہ ان چھ افراد میں سے ہر ایک کی خاطر ایک ایک لاکھ افراد کو بخش دیا گیا ہے۔ یعنی ان چھ افراد میں سے ہر ایک خاطر ایک ایک لاکھ افراد کو بخش دیا گیا ہے۔ یعنی ان چھ افراد کے بدلے میں چھ لاکھ کا حج قبول کرلیا گیا ہے۔“ یہ سنتے ہی میں خوشی سے جاگ اُٹھا اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر اد اکیا۔
٭٭٭
ایک مرتبہ ملا شاہ ایک عالم و عامل ملا نعمت اللہ کے ہمراہ حضرت شاہ ابوالمعالیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ وہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور ایک تسبیح آپ کی خدمت میں پیش کی۔
وہ تسبیح دیکھ کر ملا نعمت اللہ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ آپ کی کرامت ہوگی اگر آپ ان کی خواہش سے بذریعہ کشف مطلع ہوں اور وہ تسبیح ان کو عطا کریں۔ اس کے بعدجب وہ آپ سے رخصت ہونے لگے تو آپ نے وہ تسبیح ان کو دیتے ہوئے فرمایا ”ہر روز سو مرتبہ صلوٰة پڑھا کریں۔“
٭٭٭
بصرہ کے ایک بزرگ نے بادشاہ سے مال لے کر تقسیم کردیا۔ لوگوں نے کہا ”کیا آپ اس بات سے پریشان نہیں ہوتے کہ بادشاہ کی دوستی کہیں آپ کے دل میں گھر نہ کرلے۔“ آپ نے فرمایا ”اگر کوئی شخص میر اہاتھ پکڑے اور بہشت میں پہنچا دے اور پھر گناہ کرے تو مَیں اس کو اپنا دشمن تصور کروں گا اور نہ صرف اس شخص کو بلکہ اس شخص کو بھی اپنا دشمن کہوں گا جس نے میر اہاتھ اس شخص کے ہاتھ میں دے دیا تھا کہ مجھے بہشت میں لے جائے۔ یعنی تم محض مال کی خاطر دوستی کا خدشہ ظاہرکررہے ہو، یہاں تو گناہ گار کی دی ہوئی جنت بھی قبول نہیں۔ (مطلب یہ کہ ہمارے زہد و درع کو بادشاہوں کا مال گمراہ نہیں کرسکتا)
٭٭٭
حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ فرماتے ہیں۔ توبہ کی چھ قسمیں ہیں۔ اول دل اور زبان سے توبہ کرنا، دوسرے آنکھ کیم تیسرے کان کی، چوتھے ہاتھ کی، پانچویں پاﺅں کی، چھٹے نفس کی، محبت کے سات سو مقام ہیں۔ پہلا مقام یہ ہے کہ جو بلا دوست کی جانب سے اس پر نازل ہوا اس پر صبر کرے۔ آدمیوں میں سب سے زیادہ غنی قناعت کرنے والاہے۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 147 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں