تحریک کسی کی، مفاد کسی اور کا

تحریک کسی کی، مفاد کسی اور کا
 تحریک کسی کی، مفاد کسی اور کا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے مُلک میں کسی کا استحصال کرنا، کسی کا حق غصب کرنا ایک معمولی سی بات اور زندگی کا لازمی عنصر بن چکا ہے۔ پاکستان میں وکلاء کمیونٹی سے الیکشن کروا کر وکلاء اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب ملک میں ڈکٹیٹروں نے مارشل لاء لگا کر تمام سیاسی سرگرمیاں محدود، ایمرجنسی کا نفاذ اور یونین و ایسوسی ایشن کو بین کر کے عملی طور پر آزادی رائے کے حق کو معطل کر دیا ہوتا ہے۔ایسے حالات میں بھی اگر مُلک میں کوئی ایسوسی ایشن اپنے الیکشن ہر سال باقاعدگی سے پورے مُلک میں کراتی ہے تو وہ صرف وکلاء ہیں۔ پرویز مشرف دور میں جب وکلاء نے ججوں کی بحالی کی تحریک چلائی تو پوری دُنیا نے دیکھا۔ وکلاء دو سال تک سڑکوں پر رہے اور دو سال ایسی جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں نہ صرف تمام غیر فعال جج بحال ہوئے، بلکہ اس تحریک کے نتیجے میں مُلک میں جمہوریت بھی بحال ہوئی ۔ دو بڑی سیاسی پارٹیوں کی جلا وطن قیادت کو اپنے مُلک میں قدم رکھنے نہیں دیا جا رہا تھا، اس لازوال تحریک کی مرہون منت ان حکمرانوں کو مُلک میں داخل ہونے کا موقع ملا۔


مگر وکلاء کی اس تاریخ کو اندرونی طور پر کوئی نہیں جانتا اور نہ دُنیا یہ جانتی ہے کہ اس تحریک کی اصل جان کون لوگ تھے، کیونکہ دُنیا نے وکلاء کے ان لیڈروں کو جو اس وقت، بلکہ آج تک بڑے بڑے ٹی وی چینلوں پر آتے اور اخبارات میں بیانات دیتے سنا اور دیکھا ہے، مگر دُنیا کو اور عام لوگوں کو یہ علم نہیں ہے کہ اس تحریک کے اصل گمنام ہیرو متوسط طبقے کے نوجوان وکلاء تھے جنہوں نے اس وقت کے پی سی او ججوں کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا اور دو سال تک لگاتار سڑکوں پر احتجاج کیا۔ ان دو سال میں ان کی معاشی حالت بالکل دگر گوں و ابتر تھی۔ ان وکلاء نے یہ دو سال انتہائی کسمپرسی، تنگدستی اور اذیت میں گزارے، مگر پیچھے ہر گز نہ ہٹے، بلکہ ثابت قدم رہے اور اس لمبی تحریک کو نہ صرف زندہ رکھا، بلکہ اس میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کے لئے ہر جمعرات کو سول کورٹ سے اسمبلی ہال تک مارچ کیا اور اس میں جدت و جہت پیدا کرنے کا ہر طریقہ اپنا کر سول سوسائٹی کو بھی متحرک کر کے اپنے ساتھ ملایا اور کسی طرح کا بھی کسی کی املاک کو نقصان نہ پہنچنے دیا۔ یہ وہی غریب اور غیرت مند وکلاء ہیں، جن کو آج تک اس تحریک کا1فیصد صلہ بھی نہیں ملا، البتہ ہمارے لیڈروں نے، جن کی اپروچ تھی اور سیاسی جماعتوں سے وابستگی تھی، انہوں نے اپنے عزیزوں کو خوب مستفید کروایا۔


ان لیڈر وکلاء کے پاس کروڑوں روپے کی سینکڑوں لیگل ایڈوائزریاں ایک ایک وکیل کے پاس تھیں اور اب بھی موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی لیڈری ہمیشہ قائم رہتی ہے اور ایک معمولی واقعہ کے خلاف پورے مُلک میں ہڑتال کر کے سائیلان اور دہاڑی دار و خود دار وکلاء کا بے تحاشہ نقصان کرتے ہیں اور خود انہیں ایک روپے کا نقصان بھی نہیں ہوتا، کیونکہ ان کے پاس بے شمار لیگل ایڈوائزریاں ہوتی ہیں اور ان کی تنخواہیں تو فکس ہیں انہیں کیا معلوم کہ عام وکلاء کن مصائب سے دوچار ہیں۔ یاد رہے کہ بار میں فیصلے کرنے کے لئے ہمیشہ ان لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے، کیونکہ اب بار کا الیکشن لڑنے کے لئے بھی کروڑوں روپے درکار ہوتے ہیں، جو کہ ایک متوسط طبقے کا وکیل برداشت نہیں کر سکتا، اسی لئے اجارہ داری اور اکثریت ہمیشہ انہی امیر اور سیاسی آشیر باد حاصل ہونے والے وکلاء کی ہوتی ہے، جو برسوں سے ہمارے مقدر کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ ایک متوسط طبقے کا اور رزق حلال کمانے والا وکیل تو الیکشن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، بلکہ اکثر مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ ایک بااصول اور زندہ ضمیر وکیل جو کھانوں کی بڑی بڑی پارٹیاں نہیں دے سکتا، وہ اکثر ہار جاتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں ایک امیر اور پانی کی طرح پیسہ بہانے والا وکیل کامیاب ہو جاتا ہے۔ چاہے اسے وکالت کرتے کبھی کسی نے دیکھا ہی نہ ہو۔


وکلاء کی اس دو سالہ تحریک میں ہمارے لیڈران میں ایسے ایسے لیڈر بھی کثرت سے موجود تھے اور ہیں جو بڑے بڑے جلسے جلوسوں اور ٹی وی چینلوں میں ڈکٹیٹروں اور پی سی او ججوں کے خلاف بولتے نہیں تھکتے تھے اور شام جلسوں میں اور پریس میں پی سی او ججوں کو بُرا بھلا کہتے تھے اور صبح انہی پی سی او ججوں کی عدالتوں میں پیش ہو کر انہیں مائی لارڈ کہتے تھے، آج تک اپنے آپ کو دُنیا کے سامنے وکلاء کے حقیقی لیڈر کہلاتے ہیں۔ انہی دوغلے لیڈران میں سے بعض پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور انہی لیڈران میں سے آج پاکستان مسلم لیگ(ن)کی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ گویا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں وہی لوگ کامیاب رہتے ہیں جو اندر سے کچھ ہوں اور بظاہر کچھ ہوں، کیونکہ جو وکلاء اس وقت بھی اپنے اصول پر فائم رہتے ہوئے پی سی او ججوں کے سامنے نہ صرف پیش ہونے سے انکاری تھے، بلکہ تحریک کو زندہ رکھنے میں معاشی بدحالی کا شکار ہونے کے باوجود بھی کسی قسم کی سودا بازی سے انکاری تھے، وہ اب بھی اس بدحالی کا شکار ہیں۔


اس استحصال، ناانصافی اور بڑی بڑی فرم اور کمپنیوں کی طرف سے متوسط وکلاء کو مسلسل نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے ان وکلاء میں احساس محرومی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور بات اس نہج پر پہنچنے والی ہے کہ وکلاء کی ایک بہت بڑی تعداد ان بار کونسلوں اور ایسوسی ایشنوں سے متنفر ہو کر ایک الگ پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت محسوس کر رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب ینگ ڈاکٹروں کی طرح وکلاء بھی ایک الگ باڈی بنا لیں گے۔ اس وقت جو ینگ لائرز فورم ہے، وہ بہت محدود ہے، جبکہ اب ایک ایسی جامع اور مستقل باڈی کی ضرورت ہے، جس میں عمر،وکالت کا دورانیہ کسی قسم کی قدغن نہ ہو، بلکہ یہ صرف دو گروپوں کی اجارہ داری کو ختم کرنے اور متوسط طبقے کے وکلاء پر مشتمل حقیقی نمائندوں پر مبنی ہو گی۔بار کونسلوں پر امیر وکلاء کے چھا جانے پر آئے روز ہڑتال کی کال پر چھوٹے وکلاء کے ساتھ ساتھ سائلین، جو دور دراز کے علاقوں سے آ کر ہاتھ ملتے واپس جاتے ہیں اور ان کا کتنا نقصان ہوتا ہے اور مقدمات پر ان کا کتنا اثر پڑتا ہے۔ اس پر آئندہ تفصیل سے بات ہو گی۔

مزید :

کالم -