مُجھ سے ملیئے۔۔۔فقط ایک مجبور پاکستانی
مُجھ سے ملیئے۔۔۔
میں اُن 22 کروڑ بدنصیبوں میں سے ایک ہوں۔ جس پر حیات تنگ کی جارہی ہے۔ میری حب الوطنی کا مزید امتحان لیا جارہا ہے۔ مجھ سے کہا جارہا ہے کہ تمہارے وطن پہ قرضہ ہے اُس کی ادائیگی کرنی ہے۔
اِن لوگوں سے کوئی پوچھے کہ باہر کے ملکوں اور اداروں سے قرضہ میں نے یا مجھ جیسے غریبوں نے لیا۔ یا کیا وہ قرضہ مجھ پر یا میرے جیسوں پر خرچ کیا گیا؟
ستر پچھتر سال سے جن لوگوں نے لیا اور اپنے محل بنائے ۔۔ اُن کے پیٹ پھاڑ کر وصول کریں۔ اگر وہ مرگئے ہیں تو ان کی نسلوں سے وصول کریں مگر یہ کیا ۔۔۔ ؟
اس ملک کے غریب کا جینا کیوں تنگ کیا جارہا ہے۔
اُس کا گلا کیوں دبایا جارہا ہے۔
کوٸی ہے ہمارا حمایتی۔۔۔۔؟
کوئی ہے ان 22 کروڑ بدنصیبوں کا وکیل جو جاکے بین الاقوامی اداروں سے بات کرے کہ ہم نے قرضہ نہیں لیا۔۔۔
نہ ہم پر خرچ ہوا۔
اس ملک پر جو اشرافیہ حکومت کرتی رہی ہے۔ اسی نے قرضہ لیا ہے۔
اُسی نے کھایا۔
ان سے وصول کرو۔
ان کی نسلوں سے وصول کرو۔
اس وصولی میں ہم بھی تمہارا ساتھ دیں گے۔ ان کے محلات کی۔۔ ان کی گاڑیوں کی۔۔۔ ملوں کی فیکٹریوں کی نیلامی کرو۔۔۔
ہم تالیاں بجائیں گے۔
ہم عوام کچھ نہیں کہیں گے بلکہ تمہارے حق میں نعرے لگائیں گے۔
لیکن ہمیں تو مت پِیسو ۔۔۔
ہمیں تو مت مارو۔
ہم تو بے گناہ ہیں۔۔۔
بے قصور ہیں۔۔
مظلوم ہیں۔
ہاں ہمارا اتنا قصور ضرور ہے کہ ہم وقتاً قوقتاً انہیں خود پر مسلط کرتے رہے۔ یہ ہمیں لوٹتے رہے مگر ہم ان کے نام کے ساتھ ”جیئے“ کے نعرے لگاتے رہے۔ ان کے جلسوں کو بھرتے رہے۔ اتنی خطا ہے ہماری۔
اس خطا کی جتنی سزا ہمیں ملنی چاہیئے ۔۔
اُس سے زیادہ مل گئی ہے۔
بس اب اور نہیں۔
فقط
ایک مجبور پاکستانی
نوٹ :لکھاری نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا ، ادارے کا آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں