رمضان،ملاوٹ اور مہنگائی 

               رمضان،ملاوٹ اور مہنگائی 
               رمضان،ملاوٹ اور مہنگائی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

رمضان کریم میں شیطان کو تو قید کر دیا جاتا ہے،مگر شیطان کے پیروکار مزید آزاد ہو جاتے ہیں  اور ہمارے جیسے ملکوں میں تو انہیں کھل کھیلنے کا ایک نادر موقع ہاتھ آ جاتا ہے،کرم  فرماؤں کی مہربانی سے مہنگائی کاجن توعرصہ سے بوتل کی قید سے آزاد ہو چکا ہے،مگر رحمتوں برکتوں اور مغفرتوں کے مہینہ رمضان المبارک میں اس میں  اضافہ  ایک طوفان بن کر آتا ہے،یہ ایسا طوفان ہے جس کے پیچھے صرف اور صرف حرص،طمع اور لالچ کی طغیانی  ہے۔ افراط و تفریط،عالمی منڈی،قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا اس مہنگائی سے کوئی تعلق نہیں،دنیا بھر میں مذہبی تہواروں اور مقدس ایام کے موقع پر تاجر حضرات ازخود قیمتوں میں کمی کر کے ہر کس و ناکس کو خوشیوں میں شریک ہونے کے اسباب اور وسائل فراہم کرتے ہیں،مگر ہمارے ہاں تاجر رمضان کی آمد سے قبل ہی اشیاء کی قلت کر کے قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں،حکومت اگر چہ مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف سخت اور کڑے اقدامات کا اعلان کرتی ہے،رمضان بازار، ان پر تعریفی نعروں اور تصویروں والے  بینرز  لگائے جاتے ہیں، مگر عملاً چین کی بانسری بجائی جاتی  ہے اور گراں فروشوں کو کھلی چھٹی دیدی جاتی ہے،یہ سلسلہ آج کی حکومت کا کارنامہ نہیں ماضی میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے اورشائد مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا،قانونی سے زیادہ یہ اخلاقی برائی ہے اور اخلاقیات کی درستی تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔

ہمارے ہاں مہنگائی کی ایک بڑی وجہ کاسٹ اینڈ اکاؤنٹس کی اہمیت کو تسلیم  نہ کرنا ہے،دنیا بھر میں اشیاء کی قیمتوں کا تعین حکومتی سطح پر کیا جاتا ہے،کاسٹ اکاؤنٹینٹ ہر قسم کی مصنوعات کی لاگت، صنعتکار، ڈسٹری بیوٹر،ریٹیلر کا منافع،فریٹ اور سٹوریج کا تخمینہ لگا کر مصنوعات کی قیمت متعین کرتے ہیں،تاجر حضرات اس قیمت پر اشیاء کی فروخت پر مجبور ہو تے ہیں، مگر پاکستان میں ابھی اس شعبہ کو انڈسٹری کا درجہ حاصل نہیں ہواء جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنی  مصنوعات کی قیمت مرضی سے متعین کرتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کا سیلاب ہر وقت رواں دواں رہتا ہے، ایک اور المیہ صنعتکاروں کا کارٹل ہے جو مل کر اپنی  مصنوعات کی قیمت متعین کرتے ہیں،ان کے نزدیک اہم ترین اپنا منافع ہوتا ہے،اور حکومتیں ہمیشہ ان کارٹلز کے سامنے بے بس رہی ہیں،شوگر مل مالکان کو ہی لے لیں وہ  کسان سے گنا بھی اپنی قیمت  پر خریدتے ہیں اور پھر اس سے تیار شدہ چینی بھی اپنی مرضی کے نرخوں پر بیچتے ہیں،کچھ عرصہ قبل انہوں نے مل ملا کر چینی کی برآمد کی اجازت لے لی اور کہا کہ وہ صرف فالتو چینی باہر بھیجیں گے،ملکی عوام اس سے متاثر نہیں ہوں گے مگر ہوا وہی جس کا خدشہ تھا اب چینی کی قیمت کو پکڑنے اور روکنے والا ہی کوئی نہیں اور اس پر رمضان المبارک کی آمد ان کے لئے لامحدود منافع خوری کا ذریعہ بن گیا ہے، اگر چہ مہنگائی پر قابو پانا کچھ زیادہ مشکل نہیں، مگر سیاسی مفادات آڑے آتے ہیں اور حکومت ان کی مرضی کے سامنے چاروں شانے چت ہو جاتی ہے،اگر سیاسی مصلحتوں کو آڑے نہ آنے دیا جائے تو کارٹلز کی اجارہ داری کو نہ صرف توڑا جا سکتا ہے بلکہ عوام کو بھی ریلیف دینا ممکن ہے۔

مہنگائی کی ایک اور بڑی وجہ خریداروں کی کوئی ایسو سی ایشن نہ ہونا ہے،دنیا بھر میں بائرز اور کسٹمرز ایسوسی  ایشنز ہیں،جیسے ہی کسی چیز کی قیمت میں مصنوعی اضافہ ہوتا ہے خریدار انجمنیں اس کا بائیکاٹ کر دیتی ہیں،خریدار ایسی اشیاء کی خریداری کم کر دیتے ہیں، جس کے نتیجہ میں تاجر حضرات کو مجبوراً قیمت کم کرنا پڑ جاتی ہے،مگر ہمارے ہاں اس کا کوئی تصور نہیں جس کی وجہ سے تاجر اور صنعتکار من مرضی کرنے کے لئے آزاد ہیں،ماضی میں حکومتیں سیاسی مصلحتوں کے سبب مہنگائی کو برداشت کر لیتی تھیں، موجودہ حکومت کو اربوں روپے کی اشتہاری کمپنیوں سے فرصت ملے تو وہ تب ہی ناجائز منافع خوری کو روکیں،اس لئے تاجر وں کو کوئی روکنے والا کوئی پوچھ گچھ کر نے والا نہیں،سچ یہ ہے کہ مہنگائی پر اگر چہ عوام الناس کی طرف سے شور بہت مچایا جاتا ہے، مگر مہنگائی کے سامنے بند باندھنے کی کوئی عملی کوشش دکھائی نہیں دیتی،اور یہ دراصل مہنگائی کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے،صاحب حیثیت اور صاحب ثروت طبقہ بھی مہنگائی کا ذمہ دار ہے جو پسندیدہ اشیاء کو من مرضی قیمت پر خریدنے کو ہر وقت تیار رہتا ہے،اگریہ طبقہ تھوڑی سی مزاحمت کرے تو مصنوعی مہنگائی کی لہر کو روکا جا سکتا ہے۔

امریکہ یورپ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے تاجرخریداروں کے حقوق کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں، صرف اپنے مذہبی تہواروں پر ہی نہیں دوسرے شہریوں کے مذہبی ایام کو اہمیت دیتے ہیں،اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں خصوصی کمی کر کے شہریوں کو خوشیاں منانے کے مواقع فراہم کرتے ہیں،رواں رمضان میں کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ  کے تاجروں نے مسلمانوں کے لئے تمام حلال اشیاء کی  قیمتوں میں  بڑے    ڈسکاؤنٹ کا اعلان کیا ہے،دیگر ممالک میں بھی یہ سہولت دی گئی ہے،مگر ہمارے ہاں ایک مسلمان معاشرے میں ان باتوں کو رتی بھر اہمیت نہیں دی جاتی،تاجر رمضان اور عید پر دونوں ہاتھوں سے منافع کماتے ہیں،ناقص اشیاء  بھی دھوکہ دہی سے فروخت کر دیتے ہیں،ایسے ایسے  بے موسمی  پھل اور سبزیاں  کولڈ سٹوریج  سے نکال کر مارکیٹ میں لے آتے ہیں،جو اس موسم میں بے فائدہ ہیں۔ان  کاموں کی موجودگی میں روزہ صرف فاقہ ہے روزہ نہیں، مگر ہمارے علماء نے ہمیں روزہ کی حقیقت سے آگاہ ہی نہیں کیا،نتیجے میں ہم فاقہ تو کر لیتے ہیں باقی معمولات زندگی کو بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی، یوں ہم اس ماہِ مبارک کی برکتوں،رحمتوں اورمغفرت سے محروم رہ جاتے ہیں۔

اسلام نے ہمیں سادگی اور کفائت شعاری کا حکم دیا ہے،کفایت شعار شخص کبھی محتاج نہیں ہوتا،سادگی معاشرہ میں آسانیاں پیدا کر کے شہریوں کی زندگی کو آسان بناتی ہے،مگر ہم صاحب حیثیت لوگوں کی نقالی میں اپنی زندگی کو خود مشکل بنا کرمحتاجی اور قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں،جو چیز ہماری قوت خرید سے باہر ہے اگر ہم وقتی طور پر اس سے اجتناب برتیں تو زندگی آسان ہو سکتی ہے،سادگی اور کفائت شعاری کا   اسلامی حکم رمضان میں بھی نافذالعمل ہے، مگر ہم رمضان میں جانتے   بوجھتے  اس حکم سے سرتابی کرتے ہیں،طبیب  اور ڈاکٹرز کہتے ہیں افطاری میں یخ پانی،ٹھنڈے مشروبات،دودھ سوڈا، ڈیپ فرائی اشیاء اور زیادہ کھانا صحت کے لئے مضر ہے، جبکہ علماء کے نزدیک سحری افطاری کے دسترخوان پر غیر ضروری اشیاء  سے روزے میں تقویٰ اور توکل کا عنصر ختم ہو جاتا ہے،  حالانکہ  روزہ نام ہی تقویٰ اور توکل کا ہے، اگر ہم پورا سال سادگی کا اہتمام کریں اور خاص طور پر ماہ رمضان میں بجائے اپنا پیٹ بھرنے کے غریب،مفلوک الحال، محروم، یتیموں،مسکینوں،بیواؤں کے سر پر دست شفقت رکھیں اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی سعی کریں توروزے کا حقیقی مقصد حاصل اور ماہِ مقدس کی رحمتوں برکتوں میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ روزہ پیٹ پوجا کا نام نہیں غریبوں کی خبر گیری کا نام ہے اور یہی روزہ کی  اصل روح ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -