…………طاؤس و رباب آخر!

ایک قاری نے فون کیا کہ آپ کے کالموں کا عنوان ”شمشیروسناں اول“ ہے لیکن اقبال کے اس مصرعے کا دوسرا نصف حصہ ”طاؤس و رباب“ بھی ہے۔ وہ اگرچہ آخر ہے لیکن اول و آخر کی بحث سے قطعِ نظر زندگی کی حقیقت بھی یہی ہے کہ تیر و تفنگ اول ہی سہی، لیکن ان کو بھی دوام تو حاصل نہیں …… بانسری اور نفیری کو بھی سامانِ زیست میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں بھی سوچا اور لکھا کریں۔
میں نے ان کو بتایا کہ سوچتا تو ضرور ہوں لیکن لکھتا اس لئے نہیں کہ میری اور آپ کی قوم تو پہلے ہی عیش و عشرت اور تن آسانی کی خوگر ہے، محنت و مشقت سے اجتناب کرتی اور اسی سبب سے مبتلائے عذاب بھی رہتی ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری تو نتائج ہیں، وجوہات نہیں۔ اسلام کے زریں دور میں مسلمان آرام طلبی کو کوتاہ نصیبی گردانتے تھے۔ میں بھی اگر طاؤس و رباب کی راگنی شروع کر دوں تو جن اقوام کے ہاتھوں میں دشنہ و خنجر ہے، وہ ہمیں گھیر لیں گی۔ ترقی یافتہ اقوام کا حال ہمارے سامنے ہے اور اپنا ماضی بھی ہم سے پوشیدہ نہیں۔ اسلام کا وہی دور زریں دور کہلاتا ہے ناں کہ جس میں شمشیریں بے نیام تھیں اور نگاہِ مردِ مومن سے تقدیریں بدل جایا کرتی تھیں۔وہ صاحب میرا بھاشن سنتے رہے لیکن ٹس سے مس نہ ہوئے اور فرمایا کہ چلو اپنے برصغیر کی آزادی کے بعد اہلِ ہند اور اہلِ پاکستان نے جنگ و جدال کے علاوہ صلح و آشتی کے جو ترانے گائے تھے، ان کی یاد میں ہی ایک آدھ سفید ورق، سیاہ کر دیا کریں۔
جب اگست 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا تو میرا لڑکپن جسمانی بلوغت کی طرف بڑھ رہا تھا۔ لیکن 1950ء اور 1960ء کے دوعشرے اگر انڈیا اور پاکستان میں آدھے ”شمشیروسناں اول“ کے ناظر تھے تو آدھے طاؤس و رباب کی تانوں کے اسیر تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے محلے کے گلی کوچوں میں فلمی نغموں کی صدائیں عام سنی جایا کرتی تھیں۔ اس دور میں انڈیا کی فلم انڈسٹری مسلمان فنکاروں کے ناموں سے گونجتی رہتی تھی۔ گلوکاروں میں محمد رفیع اور طلعت محمود، اداکاروں میں دلیپ کمار اور مدھوبالا اور موسیقاروں میں موسیقارِ اعظم نوشاد علی کے نام انڈیا سے آنے والی فلموں میں گونجا کرتے تھے…… انہی ایام میں انڈیا کی ایک فلم کا نام ”دیدار“ تھا جس میں دلیپ کمار اور نرگس ہیرو اور ہیروئن تھے۔
فلم ”دیدار“ ایک ایسی داستانِ محبت (Love Story) تھی جس میں بچپن کی محبت کو جوانی کے ایک حادثاتی اور دردناک انجام سے دوچار کر دیا گیا تھا۔ہم جیسے نو عمر ناظرین اس فلم کی سٹوری سے زیادہ اس کی موسیقی کے مداح تھے۔ سارے شہر کی گلیوں میں لتا اور رفیع کے گائے نغمات کی گونج آج بھی میرے کانوں میں رس گھولتی ہے اور اس کے گیتوں کی شاعری میں جن جذبات و احساسات کا ذکر کیا گیا تھا وہ اتنے سادہ لیکن اتنے زود اثر تھے کہ چھابڑی فروش تک ان گیتوں کا مفہوم جانتے تھے اور ان کو سن سن کر رات کو سکھ کی نیند سویا کرتے تھے۔
اس فلم کا موسیقار نوشاد تھا اور نغمہ نگار شکیل بدایونی تھا۔ دونوں مسلمان تھے اور دونوں لکھنو اور بدایوں کے باسی تھے۔نوشاد تو خاص لکھنو شہر میں پیدا ہوا تھا جبکہ بدایوں نام کا قصبہ بھی لکھنو سے 250کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مردم خیز علاقہ تھا جس نے نہ صرف لکھنو اور دہلی کی اردو زبان اور روزمرہ کو فروغ دیا بلکہ اس علاقے میں بولی جانے والی زبان ”برج بھاشا“ کو تمام برصغیر میں مقبول ترین ”بولی“ (Dialect) بنا دیا۔
کسی بھی فلمی گیت کو قبولِ عام اور بقائے دوام عطا کرنے میں گلوکار، موسیقار اور نغمہ نگار کا مشترکہ کردار اہم ہوتا ہے۔ اس فلم کا گایا ہوا ایک گیت نہ صرف یہ کہ اس دور کے موسیقار اعظم کو ”اعظم“ بنانے میں ایک عظیم رول ادا کرتا ہے بلکہ نوشاد کو ایک سکہ بند شاعر ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی دیتا ہے۔ نوشاد جتنے بڑے موسیقار تھے، اتنے ہی بڑے شاعر بھی تھے (اگرچہ ان کی شاعری کی مقبولیت، ان کی موسیقی کی ہردلعزیزی میں دب کر رہ گئی تھی) لیکن اس گانے میں کہ جس کا ذکر میں کرنے لگا ہوں یہ شاعری ایک نمایاں عنصر بن کر سامنے آتی ہے۔
فلم ”دیدار“ کے گیت نگار تو شکیل بدایونی تھے لیکن نوشاد نے موسیقار ہوتے ہوئے بھی ایک گیت کی ایک ایسی دھن بنائی جس میں ان کی شاعری کا تبسم اور موسیقی کا ترنم ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ گیت لتا منگیشکر نے گایا تھا اور اس کا مکھڑا تھا:
تو کون ہے میرا کہہ دے بالم پڑوں میں تورے پیّاں
یہ بات بھلا میں کیسے کہوں، تو لاگے میرا سیّاں
تو لاگے میرا سیّاں ہووووو
بتایا جاتا ہے کہ شکیل نے نوشاد کو کہا: ”سیّاں (محبوب) اور پیّاں (پاؤں) کے ہم صدا مزید قافیے اردو زبان میں نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے میں اس گیت کی جگہ آپ کو کوئی اور گیت لکھ دیتا ہوں، آپ اس کی دھن بنا دیں“۔ نوشاد بضد رہے اور گیت کا یہ شعر موزوں کرکے شکیل کو سنایا:
بھولے من میں کب تک رکھوں چنچل بھید چھپائے
دل کی بات زباں تک آئے اور کہی نہ جائے
تو ہے دیکھ پیا، شرمائے جیا، اب ناہیں عمر لڑکھیّاں
یہ بات بھلا میں کیسے کہوں ……………………
اردو زبان میں ”لڑکھیّاں“ کا لفظ واقعی شاذ و نادر ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ”الہڑ نو عمری کیا جا سکتا ہے لیکن جب نوشاد نے ہارمونیم پر یہ دھن بجا کر اور خود درجِ بالا شعر گنگنا کر شکیل کو سنایا تو وہ نوشاد کی شاعرانہ عظمت کے پہلے سے زیادہ مداح ہو گئے۔ لیکن چونکہ کسی بھی گیت میں کم از کم دو اشعار ضرور ہوتے ہیں، اس لئے شکیل نے کہا کہ دوسرا شعر بنائیں اور سنائیں …… چنانچہ نوشاد نے دوسرا شعر یہ بنایا اور سنایا:
پیت ہے مہنگی اس دنیا میں دل کے سودے سستے
من کا رستہ ایک ہے بالم، تن کے لاکھوں رستے
کھو جائیو کہیں نہ مل کے سجن یہ جگ ہے بھول بھلیّاں
یہ بات بھلا میں کیسے کہوں تولاگے میرا سیّاں
تو لاگے مورا سیّاں …… ہوووووو
قارئین سے گزارش کروں گا کہ فلم دیدار کا یہ گیت گوگل پر جا کر ضرور سنیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ 1950-51ء کا دور ہے جب لتا کی آواز میں وہ لوچ اور وہ نکھار نہیں آیا تھا جو بعد میں آیا اور جس کی تخلیق میں دوسرے موسیقاروں کے علاوہ موسیقارِ اعظم نوشاد علی کا بڑا ہاتھ ہے۔
نوشاد کی زندگی بھی ایک عجوبہ تھی!وہ ایک مذہبی گھرانے لکھنو میں پیدا ہوئے۔صرف پرائمری تک تعلیم پائی اور موسیقی کا درس لینے کے لئے اس دور کے کلاسیکل راگوں کے اساتذہ کے ہاں آنے جانے لگے۔ باپ نے بہت روکا لیکن وہ باز نہ آئے۔ ان کا سنِ پیدائش 1919ء ہے۔ تنگ آکر والد (واحد علی) نے نوشاد کو گھر سے نکال دیا اور وہ بمبئی چلے گئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف دس گیارہ برس تھی۔ انہوں نے ممبئی کے فٹ پاتھوں پر کئی راتیں گزاریں لیکن موسیقی اور شاعری کا ذوق ان کو بالآخر فٹ پاتھ سے اٹھا کر چند ہی برسوں میں چار کنال کے ایک وسیع و عریض بنگلے میں لے گیا جس میں شکیل بدایوانی، حسرت جے پوری اور مجروح سلطان پوری بھی ان کے سایہء عاطفت میں رہنے لگے۔
نہ صرف یہ کہ 1950ء اور 1960ء کے دو عشرے، اردو زبان کی انڈین فلموں کا سنہری دور تھا بلکہ یہ پاکستانی فلم انڈسٹری کا بھی ایک یادگار زمانہ تھا۔
شمشیروسناں کی طرف تو راقم السطور فوج میں آنے کے بعد راغب ہوا لیکن اس سے پہلے شاعری اور موسیقی کا ذوق بھی لاحق تھا۔ اردو، فارسی، انگریزی اور پنجابی زبانوں کے شعر و ادب سے خوشہ چینی کے علاوہ میں نے جب ملٹری ہسٹری کی طرف توجہ دی تو معلوم ہوا کہ جنگ و جدال بھی ایک بے مثال فن ہے۔ اس میں جان کا زیاں ضرور ہے لیکن جس فرد میں بھی شمشیروسناں سے وابستگی موجود ہے وہ ایک سچا مسلمان ہے۔زندگی خداوند کریم کا ایک انمول تحفہ ہے لیکن شہادت جو مطلوب و مقصودِ مومن ہے وہ کسی مالِ غنیمت یا کشورکشائی کی مرہونِ احسان نہیں۔شہید اسی لئے تو مرکر بھی نہیں مرتا۔ حضرت اقبال نے زندگی اور موت کی حقیقت کو اس شعر میں دیکھئے کس طرح بے نقاب کر دیا ہے:
برتر از اندیشہء سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
اپنی جان کو اپنے وطن اور اپنی قوم کی خاطر ”تسلیم“ کر دینا ایک عظیم ترین انسانی وصف ہے اور اسی لئے میں نے اپنے کالم کا عنوان ”شمشیروسناں اول“ رکھا تھا!