شمسہ کنول کی گلوکاری کے میدان میں واپسی
حسن عباس زیدی
گلوکاری کے میدان میں 30سال کا عرصہ گزارنے والی گلوکارہ شمسہ کنول کی 9 سال کے لمبے عرصے کے بعد شوبز میں واپسی ہوئی ہے۔شمسہ کنول کے کریڈٹ پر ایک ہزار کے قریب ریڈیو ،ٹی وی اور فلمی گیت، غزلیں اور گانے ہیں۔ان کو میڈم نور جہاں کے ساتھ ڈوئٹ گانے کا اعزاز حاصل تو ہے ہی لیکن ان کو میڈم نور جہاں کے مقابلے میں فلم ’’زمانہ‘‘ کے لئے بہترین گانے پر نگار ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔شمسہ کنول آج بھی میڈم نور جہاں کو بڑے اچھے الفاظ میں یاد کرکے ان کی مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔ ان کواب تک صدارتی ایوارڈ تو نہیں ملا لیکن تمام فلمی ایوارڈز ان کے پاس ہیں۔ ایک ملاقات میں شمسہ کنول نے بتایا کہ جب میں نے شوبز کو چھوڑا تھا اس وقت بہت سے نئے لوگ آگئے تھے ۔ اور بہت سے لوگ جارہے تھے ۔میں نے سوچا کہ اس وقت شوبز کو چھوڑنا ہی بہتر ہے یہاں پر خود رو پودے درخت بن گئے۔ورسٹائل گلوکارہ ہوں پاکستان کی ہر زبان میں گانا گا سکتی ہوں اور گا چکی ہوں۔بچپن سے بچوں کے پروگرام’’گیت سہانے ‘‘ سے گانے کا آغاز کیا تھا۔جب تیرہ برس کی ہوئی تو فلم کا گانا میرے استاد موسیقار ظفر حسن نے مجھ سے گوایا۔ میں نے اپنے بل بوتے پر کام کیا ہے اور بغیر کوئی سفارش کے گایا ہے۔ میں کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہتی یہ کام ہی خود اپنی سفارش ہے۔ میں نے نثار بزمی، ماسٹر عبداللہ ،ایم اشرف، بابا جی اے چشتی،بخشی وزیر،اختر حسین اکھیاں سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ ابھی فلموں کے گانے نہیں گا رہی البتہ آج کل اپنی البم تیار کرنے پر دھیان دے رہی ہوں ۔اس البم میں دس غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ پانچ میں نے اور پانچ ترنم ناز نے گانی ہیں۔ترنم ناز میری بہت ہی اچھی دوست ہیں۔ وہ بہت باادب اور عزت دینے والی انسان ہیں اسی وجہ سے میری ان کے ساتھ بہت زیادہ دوستی ہے۔آج بھی وہ بہت سریلی ہیں۔ میں نے کبھی بھی کسی کے خلاف سازش نہیں کی۔ اور نہ ہی کسی سے حسد کیا ہے ۔میں نے صرف اپنے کام پر ہی دھیان دیا ہے۔شمسہ کنول نے بتایا کہ وہ شاعری کرتی ہیں ۔ شاعری میں کسی کی شاگردی نہیں کی۔ میرے شعری مجموعہ ’’ دھوپ کی زد میں پہلا چاند‘‘ کا نام محسن نقوی صاحب نے رکھا تھا۔ حدیقہ کیانی نے نازیہ حسن کے بعد پاپ گلوکاری میں جگہ بنائی ہے۔اس لئے میں اس کی عزت کرتی ہوں ۔ اسی طرح شبنم مجید مجھ سے جونیئر ہے ۔وہ اچھا گاتی ہے ۔ اس کی دل سے عزت ہے۔ جواچھا گائے گا۔ اس کے لئے دل سے عزت اور وہ قابل احترام ہے ۔میرا دشمن بھی اچھا گائے گا۔ میں اس کی بھی تعریف کروں گی ۔کیونکہ گانے میں منافقت نہیں ہے۔ جو سریلہ گائے گا ۔ آپ کے دل سے اس کے لئے تعریف نکلے گی۔ کبھی کسی کی برائی نہیں کی۔ شوکت علی ،غلام عباس ، افشاں،مہناز اور ناہید اختر کے ساتھ ڈوئٹ گائے ہیں۔ فلم ’’سجن دشمن‘‘ میں موسیقار ذوالفقار علی نے میڈم نور جہاں کے ساتھ مجھے ’’کراں میں پیار تینوں‘‘ گاناگوایا تھا۔میڈم نور جہاں بڑی قدآور شخصیت کی مالک تھیں۔ان کے سامنے گانا بڑا مشکل ہوتا تھا میں تو ان کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی۔ ایک سوال کے جواب میں شمسہ کنول نے کہا کہ آج کے دور میں کمپوٹر نے ان کو بھی گلوکار بنادیا ہے جن کی اپنی آواز گانے کے قابل نہیں ۔پہلے گانے کے لئے ریاض ہواکرتا تھا۔ اب کوئی ریاض نہیں کرتا۔میں نے باقاعدہ ظفر حسن اور سیلم حیدر جیسے استادوں سے سیکھا ہے ۔ جب ہم لوگ گاتے تھے تو ایک ٹریک ہوا کرتا تھا۔اور گانا ون ٹیک میں ریکارڈ ہوتا تھا۔ اب گانا ٹکڑوں میں بنتا ہے۔ اب سنگرز کی اپنی آواز ختم ہوگئی ہے۔کمپوٹر اصل سنگرز کی آواز کو تبدیل کر دیتا ہے۔گروپنگ یا لابی کا حصہ کبھی نہیں بنی اور نہ ہی کبھی بنوں گی۔ جب میں نے دیکھا کہ کام اب کم اور لابی سسٹم زیادہ ہے تو میں نے شوبز سے دور چلی گئی۔اب دوبارہ سے آئی ہوں ۔مجھے کبھی بھی سفارش کی ضرورت نہیں پڑی ۔اپنی محنت ہی کی ہے ۔