’چائے والا جی، چائے پیسٹری جی‘ (3)
چالیس سال پہلے بی بی سی میں سب کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور میلان کے مطابق کام لینا ڈیوڈ پیج کی عادت تھی۔ اُن کی غیر موجودگی میں اطہر علی سربراہ ہوتے جن کی قوتِ تحریر، پُر اعتماد لہجے اور ادارتی پرکھ کا ایک زمانہ قائل ہے، پر تھے سیف زبان آدمی۔ مجھے پائپ پیتا دیکھا تو مشترکہ دوست خالد حسن کا نام لے کر چھیڑخوانی کی:”پائپ پینے والوں کی وفاداری مشکوک ہوتی ہے۔ یہ خالد کہتا ہے، مَیں نہیں کہہ رہا۔“ اِس کے برعکس، شیعہ کالج لکھنؤ، علی گڑھ اور لندن یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور ماضی میں جامعہ کراچی میں یورپین ہسٹری کے استاد وقار احمد، بس یوں لگتا کہ شہد کا دریا ہے اور دھیرے دھیرے بہہ رہا ہے۔ فلیگ شپ پروگرام ’سیربین‘ عام طور پر وہی کرتے۔ پہلے روز البتہ میرے واحد آئٹم کی ریکارڈنگ اطہر صاحب نے کی جس پر وقار بھائی نے مائیک پر کہا کہ ”نِکولس چائلڈز کا لکھا ہوا تبصرہ شاہد ملک پیش کر رہے تھے، جو اردو سروس میں ہمارے نئے ساتھی ہیں۔“
سینئرز کا یہ سرپرستانہ خلوص میرے دل پر نقش ہے۔ سرپرستانہ اِس لیے کہ بقول مُنو بھائی، تب میرا بچپن ختم ہو رہا تھا اور اُن میں سب سے ’نوجوان‘ کا پچپن شروع ہو رہا تھا۔ پھر بھی اپنی اولین لائیو ٹرانسمیشن اگر نہیں بھولتی تو اُس کا سبب مجیب صدیقی سے ہونے والا ایک مکالمہ ہے۔ مجیب آل انڈیا ریڈیو سے دو سال کے لیے بی بی سی میں مامور ایک منجھے ہوئے مگر حددرجہ خوش مزاج صدا کار تھے جو ڈیوڈ پیج کے ایما پر ابتدائی دو، تین دن بطور تربیت کار اسٹوڈیو میں میرے ساتھ رہے۔ پون گھنٹے والی مجلس اختتام کو پہنچی اور مَیں ریکارڈنگ ٹیپ اور مسودے سنبھالتا ہوا دفتر کی طرف بڑھا تو ڈیوڈ کے سامنے مجیب میری تعریف کر رہے تھے۔ ”مجیب صاحب، میری آواز ٹھیک نہیں۔“ ”کیوں، کیا ہے تمہاری آواز کو؟“ ’’پتلی ہے۔“ ”کون کہتا ہے بھاری آواز اچھی ہوتی ہے؟“ پھر میرے گلے کو ذرا سا دبایا ”سِینے سے نہیں، یہاں سے بولو۔ پتلا پن ختم ہو جائے گا۔“ ”مگر تلفظ کا مسئلہ بھی ہے۔ مَیں ’نہیں‘ کو ’نئیں‘ کہتا ہوں۔“ ”یہ تلفظ نہیں، علاقائی لہجہ ہے جو عین انسانی صفت ہے۔“
اِس سے پہلے پی ٹی وی لاہور سے پروگرام کیے تو تھے، لیکن یہ ہے بی بی سی میں صداکاری کا پہلا۔ دوسرا سبق ضیا محی الدین نے ڈرامہ کرتے ہوئے دیا کہ مائیک یا کیمرے کے سامنے جو کریں اُس سے مزہ لیں، کارکردگی کو چار چاند لگ جائیں گے۔ اب اگر تحریری متن کو شامل کر لوں تو سید راشد اشرف میرے لیے براڈ کاسٹ جرنلزم کا پروٹو ٹائپ تھے اور ہیں۔ آصف جیلانی کی یہ ترجیحات کمال تھیں کہ خبر تازہ ترین ہو، جسے وہ ہمیشہ دو، دو بار ’لیٹسٹ لیٹسٹ‘ کہتے، پھر زبان اِتنی سلیس کہ پان والا بھی سمجھ سکے۔ یہ خوش قسمتی تھی تھی کہ ڈیوڈ نے ایسٹرن سروس کی زیادہ ’آباد‘ پانچویں منزل کی بجائے مجھے ساتویں فلور پر ایک ہال نما کمرے میں رضا علی عابدی کی ہم نشینی کا اعزاز بخشا۔ عابدی صاحب کے انسانی اوصاف، ’کتب خانہ‘،’جرنیلی سڑک‘، ’شیر دریا‘ جیسے زندہ سلسلے وار پروگرام اور لسانی مشکل کشائیاں۔۔۔ ترجمہ نگاری کا یہ اصول جاتے ہی سمجھا دیا تھا کہ ”محاورے کو محاورے سے ماریں۔“
ہفتہ وار اوقات نامہ میں ڈیوڈ پیج نے نوزائیدہ کارکن کی ڈیوٹی خبریں پڑھنے پر لگائی جنہیں نیوز روم میں بیٹھ کر اردو کے قالب میں ڈھالا جاتا۔ دوسرے نمبر پر ’سیربین‘ کی تیاری میں پاکستانی آٹو ورکشاپوں والے ایک ’چھوٹے‘ کا کردار تھا جس کی اہمیت چند سال ہوئے بی بی سی اردو کے سابق نگران اور پھر روزنامہ ’ڈان‘ کے ایڈیٹر عباس ناصر نے یہ کہہ کر بیان کی:”جب مَیں اوّل اوّل بی بی سی سے وابستہ ہوا تو وقار احمد (ریٹائر ہو جانے پر) ہفتہ کے دن سیربین کِیا کرتے اور مَیں کنٹی نیوٹی کے اعلانات اور دیگر فرائض ادا کرنے میں اُن کی مدد کرتا۔“ دیگر فرائض کا مطلب تھا دنیا بھر میں متعین نامہ نگاروں کی رپورٹوں کا ترجمہ اور پیشکاری۔ علاوہ ازیں ایسٹرن سروس یا کسی اور علاقائی یونٹ کے تحریر کردہ جائزے یا تجزیے۔ مَیں نے یہ بھی دیکھا کہ ڈیوڈ پیج یا اطہر علی اِن تحریروں کو ایڈٹ کر کے چھتیس سے اٹھائیس، تیس لائنوں تک لے آتے اور یوں صوتی دورانیہ تین سے کم ہو کر ڈھائی منٹ رہ جاتا۔
یہ ہیں یومیہ خبرنامے اور حالاتِ حاضرہ۔ ہر ہفتے ایک ایک کر کے پیشگی ریکارڈ شدہ پروگراموں کی تیاری بھی کسی نہ کسی کارکن کی ذمہ داری ہوتی۔ تدریسی تجربے کے پیشِ نظر ڈیوڈ نے وِیک اینڈ پہ تاریخ، جغرافیہ، ادب، اور معلوماتِ عامہ پر مبنی سوال و جواب کا پروگرام اور دوران ِہفتہ اردو انگریزی بول چال کے دو اسباق کی ترتیب و پیشکش مجھے سونپ دی۔ تو کیا بی بی سی میں محض ’ہینڈز آن‘ ٹریننگ ہوئی، باضابطہ تربیت کوئی نہیں؟ جواب نفی میں ہے، کیونکہ نیوز رائٹنگ اینڈ پریزنٹیشن، کرنٹ افیئرز اور میگزین پروڈکشن، اور پھر براڈکاسٹ جرنلزم کی فائنل ٹریننگ، یہ سب ہوا۔ لیکن ن۔م۔ راشد کی ’ایران میں اجنبی‘ جیسا ’برطانیہ میں جیون‘ نام کا اوّلین کورس، جو وورسٹرشائر کاؤنٹی کے ووڈ نورٹن ہال میں ہوا، تعلیمی کم اور تفریحی زیادہ تھا بلکہ فُل عیاشی پروگرام۔ تربیت گاہ میں یہ بھید بھی کھُلا کہ میرے جاب انٹرویو اور جاب مِلنے کے درمیان غیرمعمولی تاخیر کی اصل و جہ کیا تھی۔
ایوشم قصبہ کے شمال مغرب میں چھوٹی سی پہاڑی پر درختوں میں گھری یہ پُرشکوہ عمارت کسی مرحلے پر فرانس کی بادشاہت کے دعویدار ایک برطانوی ڈیوک کی قیامگاہ رہی۔ البتہ بی بی سی نے ووڈ نورٹن ہال اور ملحقہ اراضی جنگِ عظیم دوم سے کچھ ہی پہلے شہری مراکز پر جرمن طیاروں کے امکانی حملوں کے پیشِ نظر خرید لی تاکہ عمارتیں کھڑی کر کے ایک متبادل نشریاتی مرکز کے لیے درجن بھر اسٹوڈیو کھولے جا سکیں۔ منصوبے پر عمل درآمد ہوا اور دورانِ جنگ ووڈ نورٹن یورپ کی ایسی بڑی نشرگاہ بن گئی جس کی اوسط آؤٹ پُٹ کئی زبانوں میں عالمی سروس کی بدولت تیرہ سو پروگرام فی ہفتہ بتائی جاتی ہے۔ اب مرکزی عمارت میں ہوٹل کھُل چکا، مگر کہتے ہیں کہ متعلقہ نشریاتی سہولیات سے لیس زمین دوز جوہری پناہ گاہ آج بھی بی بی سی کی دسترس میں ہے۔ ضرور ہوگی، لیکن پہلے مَیں خوب چھپا کر رکھا ہوا ذاتی انکشاف کا بم چلا دوں۔
ووڈ نورٹن ہال پہنچتے ہی مَیں ڈیوڈ پیج کے پیچھے پیچھے مائیکروبس سے اُترا تو درمیانی عمر کے ایک خوش پوش ہم سفر نے مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ ”شاہد ملک آپ ہی ہیں نا؟“ ”جی ہاں۔“ ”مَیں بی بی سی اوورسیز کا چیف پرسونل آفیسر ہوں اور ایک راز بتانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ جب ہم نے اطلاع دی کہ ہزار امیدواروں میں سے ایک مخصوص سیِٹ کے لیے آپ کامیاب نہیں ہوئے تو دراصل آپ کا چناؤ ہو چکا تھا، لیکن سرکاری ڈپارٹمنٹ آف ایمپلائمنٹ نے یہ کہہ کر ورک پرمٹ دینے سے انکار کر دیا کہ مطلوبہ کوالیفکیشن کے لوگ تو یہاں برطانیہ میں بھی مِل سکتے ہیں۔“ ”اچھا تو پھر کیا ہوا؟“ ”ہم نے تین برطانوی اخبارات میں اِس اسامی کے لیے اشتہار دیے۔ کُل چودہ درخواستیں موصول ہوئیں جو سب کی سب رد کر دی گئیں۔ ایمپلائمنٹ ڈپارٹمنٹ پھر بھی پس و پیش کر رہا تھا کہ اِتنے میں یکم نومبر کو وزیر اعظم اندرا گاندھی کا سانحہ رونما ہو گیا۔ مجھے متعلقہ سول سرونٹ کا فون آیا کہ آج مَیں نے بی بی سی ورلڈ سروس پر اِس واقعے کی کوریج سُنی ہے۔ It's superb.You really need to hire the very best people ہم نے آپ کو فوری ٹیلکس بھیج دی۔“ (جاری ہے)