اب چین بولے گا اور دنیا سنے گی
چین نے آخر کن منصوبوں کیلئے 46ارب ڈالر کے معاہدے کیے ہیں اور یہ صرف معاہدے ہی ہیں یا ان کی حقیقت بھی ہے یا نہیں۔جی ہاں یہ حقیقت ہی نہیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں اس کے باقاعدہ شواہد بھی موجود ہیں،یہ پاک چین اقتصادی راہداری سڑکوں،توانائی منصوبوں،صنعتی پارکوں اور گوادر بندر گاہ پر مشتمل ایک شاہکار ہے،اس شاہکار کے اولین تین سالوں میں ہی اس کا پھل ملنا شروع ہوجائے گا۔
بن قاسم پورٹ کے بیس کلومیٹر فاصلے پر پاور چائنا کی طرف سے لگائے جانیوالے دو 660میگا واٹ کے جنریٹر ہرسال 1320میگا واٹ بجلی پیدا کیا کریں گے،ونڈ فارم سندھ کے ساٹھ ہزارخاندانوں کو بجلی فرہم کرے گا،ساہیوال کول پلانٹ پر ساٹھ فیصد،تھر کول پاورپلانٹ دس فیصد،بھکی تھرمل پاور پلانٹ پچیس فیصد،قصور بلوکی تھرمل پلانٹ پر پندرہ فیصد کام مکمل ہوچکا ہے،اسی طرح گوادر تھرمل سٹیشن،کراچو،رحیم یارخان کے منصوبے جلد مکمل ہوجائیں گے،جام پور ونڈ فارم اور قائداعظم چولستان سولرپارک کا سوفیصد کام مکمل ہوچکا ہے جن کا افتتاح کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان سے اندھیروں کے سیاہ بادل چھٹنے والے ہیں ،یہ بادل لوڈشیڈنگ کے ہوں یا غربت اور افلاس کے ۔تونائی منصوبوں کے ساتھ ساتھ ڈیمز پر کام زور شور سے جاری ہے،نیلم جہلم ڈیم کا ساٹھ فیصد تعمیراتی کام مکمل ہوچکا ہے اور اس پر لگایا جانے والا پاور پلانٹ 2017ءتک ایک ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرنا شروع کردے گا،کیروٹ پاور منضوبے کا بیس فیصد،تربیلا توسیعی منصوبے کا پچاس فیصد کام مکمل ہوچکا ہے،داسو ڈیم کی تعمیر کیلئے اراضی خریدی جا چکی ہے جلد کام شروع کردیا جائے گا۔
بات صرف یہیں نہیں رکی بلکہ آگے تک پہنچ چکی ہے،سڑکوں کے انیس سو کلومیٹر بچھائے جانے والے جال سے پورا پاکستان چین سے جڑ جائے گا،آپ چین کے بارڈر سے پورا پاکستان گھوم کر بائیس گھنٹے میں کراچی پہنچ جائیں گے اور چین سے گوادر جانے کیلئے آپ کو تئیس گھنٹے لگیں گے،یہ شاہرائیں یہ منصوبے پاکستان کے تمام صوبوں،چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں کے رہنے والوں کی زندگیوں کو تبدیل کردیں گے،ان منصوبوں کے مکمل ہونے پر دو کروڑ افراد کو روزگار ملے گا جس سے پاکستان میں غربت کی سطح پانچ فیصدسے بھی نیچے چلی جائے گی،مخالفت کرنیوالوں کو سوچنا پڑے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا کسی اور طاقت کے ساتھ۔ترقی پاکستان کیلئے ہے تو یہ سفر جاری رہنا چاہیے ناں!
ایک عرصے تک چینیوں کو گونگا اور بہرا سمجھا جاتا رہا ہے،مغرب کا خیال تھا کہ چینی کیڑے مکوڑوں کی طرح ہیں جو صرف فرش پر رینگنا جانتے ہیں لیکن ان کیڑے مکوڑوں نے اپنی ترقی سے دنیا پر واضح کردیا کہ ہم صرف رینگنا ہی نہیں دوڑنا بھی جانتے ہیں،چین اس وقت عالمی معاشی طاقت بن چکا ہے،دنیا انہی کیڑے مکوڑوں کی طرف دیکھ رہی ہے،دنیا بھر کے 35ممالک میں چینی زبان سیکھنے کے تین سو مراکز قائم کیے جاچکے ہیں،گواد ر میں پاک چین ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا پندرہ فیصد اور لاہور میں پاک چین نالج پارک کا پندرہ فیصد کا
مکمل ہوچکا ہے،بلوچستان میں دو نئی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں گی،رواں سال دو ہزار طلبا ءوطالبات کو سکالر شپ پر چین کی یونیورسٹیز میں بھیجا جا چکا ہے-
یہ گونگے بہرے لاکھوں غیر چینیوں کے منہ میں اپنی زبان ڈال چکے ہیں،گورے کیا کالے کیا سبھی چینی زبان بولنے لگے ہیں،یہ بونے چینی دنیا کو تسخیر کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں،صرف پاکستان میں چینی زبان سیکھنے کے درجنوں مراکز مختلف شہروں میں قائم کیے جاچکے ہیں،صرف لاہور شہر میں قائم مراکز میں ہزاروں افراد چینی زبان سیکھنے کیلئے درخواستیں جمع کرواچکے ہیں،ٹیوٹا ہیڈ کوارٹر گلبرگ میں اعظم صاحب کی سربراہی میں قائم مرکز میں بروقت آٹھ کلاسز میں پانچ سے چھ سو چینی زبان کے طلبہ زیر تعلیم ہیں،صرف ساٹھ طلبہ وطالبات کی کلاس کیلئے 12سو سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں،یہاں صرف پاکستانی اساتذہ ہی نہیں بلکہ چینی خواتین ٹیچرز پڑھا رہی ہیں،دسمبر 2016ءمیں پاکستان میں چینی زبان بولنے والوں کی تعداد دس ہزار ہوجائے گی،بتانے کا مقصد یہ تھا کہ چین اپنی زبان کو عام کرکے اپنے ترقی کا راز بتا رہا ہے کہ آﺅ دنیا والو ہم بھی اپنی پہچان اور زبان رکھتے ہیں،چینی وزیر اعظم لی کی چھیانگ(li keqiang) کا کہنا سچ ثابت ہورہا ہے کہ چین اب بولے گا اور دنیا سنے گی۔