لاہور میں متوقع احتجاج کے پیش نظر پولیس ہائی الرٹ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بدھ کے روز پنجاب کے شہروں فیصل آباد، میانوالی اور بہاولپور میں احتجاج کی کال دے رکھی تھی جبکہ صوبائی حکومت نے مختلف اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کر کے جلسے جلسوں اور احتجاج پر پابندی عائد کردی ہے۔پنجاب حکومت کی جانب سے جن اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کی گئی ان میں فیصل آباد، بہاولپور، ٹوبہ ٹیک سنگھ، میانوالی، چنیوٹ اور جھنگ شامل ہیں جبکہ میانوالی میں پولیس کیساتھ رینجرز بھی تعینات کر دی گئی۔دفعہ 144 کے تحت ہر قسم کے سیاسی اجتماعات، دھرنوں، جلسوں اور مظاہروں سمیت احتجاجی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ مختلف شہروں میں کنٹینرز بھی کھڑے کر دیئے گئے۔میانوالی میں تحریک انصاف کی جانب سے جلسے کے اعلان پر موبا ئل فون اور انٹر نیٹ سروس بند رہی۔بہاولپور پولیس کے مطابق دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر پی ٹی آئی کے 100 سے زائد کارکنوں کیخلاف مقدمہ درج کرکے پانچ کارکنوں کو گرفتا ر کیا جاچکا ہے۔ فیصل آباد میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے چوک گھنٹہ گھر کے اطراف ٹرک اور روکاوٹیں لگا کر آنے اور جانے کے راستے بند کیے گئے تھے جس کے باوجوود مختلف علاقوں سے مقامی ارکام صوبائی اسمبلی کی قیادت میں کارکناں چوک گھنٹہ گھر پہنچے،اس دوران کارکنوں کو روکنے کی کوشش کی گئی تو مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں شر و ع ہو گئیں،کارکنوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا اورجوابی طور پر پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شلینگ کی۔پولیس نے اس موقع پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے الزام میں پی ٹی آئی کے 9 ارکان صوبائی اسمبلی اور 500سے زائد کارکنان کو حرا ست میں لے کر قانونی کارروائی کا عمل شروع کر دیا،حراست میں لئے جانیوالے ممبران پنجاب اسمبلی میں خیال کاسترو اوراسد محمود بھی شامل ہیں۔بانی پی ٹی آئی احتجاجی سیاست سے پسپائی کیلئے تیار نہیں اور اب وہ خود اپنی جماعت کے اکابرین کو یہ کہتے نظر آرہے ہیں جو احتجاج کیلئے تیار نہیں وہ آرام سے گھر بیٹھے اور موجودہ حالات میں احتجاج ہی ہماری ترجیح ہے۔پی ٹی آئی کے لائحہ عمل سے ظاہر ہوتا ہے وہ اب کسی ڈائیلاگ کے بجائے احتجاج اور احتجاجی تحریک پر مصر ہے اور سمجھتے ہیں ان کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ان حالات میں پنجاب حکومت،اداروں بالخصوص پنجاب پولیس کو یہ حکم دیتی نظر آرہی ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے ایجنڈ ے کو ملیا میٹ کرنے میں اپناکردار ادا کریں۔پولیس حکومتی احکامات کی بجاآوری کیلئے مصروف عمل ہے21ستمبر کو لاہور میں پی ٹی آئی کے جلسے کو ناکام بنانے کیلئے بھی لاہور پولیس کو ذمہ داری سونپی گئی اور ساتھ یہ ہدایت کی گئی کہ راستے بھی بند نہ کیے جائیں۔وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کے حوالے سے بھی پولیس کو ہدایات جاری کی گئیں کہ انہیں کسی صورت بھی جلسہ گاہ نہ جانے دیا جائیگا،اس جلسے کے حوالے سے پنجاب حکومت نے لاہور پولیس سے جو توقعات باندھ رکھی تھیں وہ حکومت کی سوچ سے بھی زیادہ بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کرتی دکھائی دی، لاہور جہاں بانی پی ٹی آئی کا اپنا گھر موجود ہے اور ان کے کارکنوں کی تعداد بھی اس قدر زیادہ ہے کہ انہیں روکنا یا قابو کرنا آسان نہیں لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کی قیادت مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکی، اس کی وجہ صرف لاہور پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنزکی منظم اور مربوط حکمت عملی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی جا نب سے لاہور پولیس کواس کا کریڈٹ نہیں دیا گیا،انہیں صرف اسلئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کو لاہور میں داخل کیوں ہونے دیا گیا اسی روز عدلیہ کی اعلیٰ شخصیت کے بیٹے کو روکنے پر آپ نے اپنے تین افسروں کی قربانی دیدی وہاں تو کوئی مزاحمت کرتا نظر نہیں آیا اگر وزیر اعلیٰ کے پی کے جو اپنے ساتھ پولیس کی بھاری نفری لیے آ گے بڑھ رہا تھا، کو زبردستی روکنے کے دورا ن مزاحمت کا امکان تھا۔خدانخواستہ اگرایسے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتاتولینے کے دینے پڑھ جانے تھے،جس پوائنٹ سے وہ د اخل ہوئے وہاں پر موجود ایس پی ڈولفن اوردیگرڈیوٹی پرموجودافسران کو توگالیاں تک دی گئیں جو ان کیساتھ ناانصافی ہے یہ تو بھلا ہو ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کا جو اپنی فور س کیساتھ کھڑے نظر آئے اور انہوں نے سب کو پولیس لائن میں اکھٹا کرکے بہترین ڈیوٹی سرانجام دینے پر انہیں شاباش دی اور 5 اکتوبر کو لاہور میں ہونیوالے احتجاج کی پیش قد می کو روکنے کیلئے انہیں تازہ دم ہو کرآئی جی پولیس اور سی سی پی او لاہور کی جانب سے ملنے والی ہدایات پر عملدرآمد کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ پانچ اکتوبر کو لاہور پولیس پھر آز ما ئش میں ہوگی۔