آبروئے ماز نامِ مصطفی است
12ربیع الاول کو صرف ظہور قدسیؐ نہیں ہوا، بلکہ عالم نو طلوع ہوا، اس تاریخ کو نہ صرف یہ کہ حضوراکرمﷺ نے جہان خاکی میں قدم رکھا، بلکہ تاریخ عالم نے نئے سفر کا آغاز کیا، اس روز ایک ماں نے سعادت مند بیٹے کو ہی جنم نہیں دیا، بلکہ مادر گیتی نے ایک انقلاب کو جنم دیا، اس دن محض آمنہ کا گھر منور نہیں ہوا، بلکہ تیرہ و تار خاکدان ہستی روشن ہوا، جس کے قدم رنجہ فرمانے سے زندگی پر شباب آ گیا اور صدیوں سے دیکھے جانے والے خواب کو تعبیر مل گئی، اس کی بارگاہ کی نسبت سے زمین ارجمند اور اس کی پائیگاہ کے بوسے سے آسمان بلند ہو گیا، اس کی تاب رو سے شش جہت کائنات کو روشنی ملی اور اس کے حلقہ ء مو میں حیات منتشر کو آسودگی نصیب ہوئی۔آپؐ کی تشریف آوری سے دنیا کو شرف انسانی کا حقیقی اندازہ ہوا، ورنہ اس سے پہلے حضرت انسان کو دوسری ہر چیز کی عظمت و شوکت کا احساس تھا، لیکن وہ اپنی حرمت اور اپنے مقام سے بے خبر تھا، اسی بے خبری کے نتیجے میں وہ سورج، چاند اور ستاروں کی چمک سے مرعوب ہو کر انہیں معبود بنائے ہوئے تھا، پہاڑوں کی بلندی اور غاروں کی گہرائی سے متاثر ہو کر انہیں خدا کا درجہ دیئے ہوئے تھا، راجوں، مہاراجوں، نوابوں، سرداروں، شاہوں اور رہبانوں کی جلالت و حشمت سے مسحور ہو کر انہیں خدا کا اوتار مانے ہوئے تھا۔
انسان اتنا دبا ہوا تھا کہ ہر ابھرتی چیز کے سامنے جھک جاتا تھا، اتنا ڈرا ہوا تھا کہ ہر ڈراؤنی شے کی بندگی پر آمادہ ہو جاتا تھا، اتنا سہما ہوا تھا کہ ہر ایک کا زور اس پر چلتا تھا، اتنا سمٹا ہوا تھا کہ اسے اپنی وسعت کا ادراک ہی نہ ہو سکا، اتنا مبہوت تھا کہ جن بھوت اس کے سجدوں کے حقدار قرار پائے، اتنا گھٹا ہوا تھا کہ اس بے کراں کائنات میں سانس لیتے ڈرتا تھا اور اتنا جکڑا ہوا تھا کہ ہر نئی زنجیر کو اپنے لئے تقدیر سمجھتا تھا۔ حضوراکرمﷺ نے آکر اسے بتایا کہ تیری حرمت کعبے سے افضل ہے، تیری ذات راز الٰہی ہے، تیری تخلیق حرف ’’کن‘‘ سے نہیں، خاص دست قدرت سے ہوئی ہے، تو امانت الٰہی کا حامل ہے، تجھے ارادہ و اختیار کا وصف عطا کیا گیا ہے، تو اپنے ذرہ ہستی میں صحرا ہے اور قطرۂ وجود میں قلزم ہے، حضوراکرمﷺ کی اس تعلیم اور خود آگہی کے اس درس کا یہ نتیجہ نکلا کہ جو انسان پہلے مٹی کے مادھو(بت) کے سامنے سمٹا ہوا ہوتا تھا، آج اس کی ہیبت سے پہاڑ سمٹ کر رائی بنے ہوئے ہیں جو انسان مورتیوں، بھوت، پریتوں اور واہموں کے خوف سے نیم جان تھا، اب صحرا و دریا اس کی ٹھوکر سے دو نیم ہوئے جا رہے ہیں، جو انسان دیوی دیوتا کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا رہتا تھا، آج وہ ’’یزدان بکمند آور‘‘ کا نعرۂ مستانہ لگاتا نظر آتا ہے، سچی بات یہ ہے کہ کائنات کا اعتبار ہو کہ انسانیت کا وقار یہ سب کچھ صاحب لولاکؐ کے دم قدم سے ہے:
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
آپ کی ولادت باسعات اور بعثت باکرامت سے پہلے یہی معمورۂ ہستی جہان خراب کا منظر پیش کررہا تھا، یونان اپنی عظیم الشان تہذیب کے کھنڈر پر یکہ و تنہا کھڑا آنسو بہا رہا تھا اور اہل یونان اس کھنڈر کے ملبے تلے دبے ہوئے کراہ رہے تھے، یونانی حکماء نے اپنے فلسفے کے زور پرہر مسئلہ حل کرنا چاہا، اس دور کا یونان فلسفیوں سے بھرا پڑا تھا، یہ ارشمیدس، یہ اقلیدس، یہ بطلیموس، یہ سقراط، یہ بقراط، یہ ارسطو، یہ افلاطون جس طرف نگاہ اٹھتی ، فلسفیوں کی قطار بندھی نظر آتی، مگر بات پھر وہی ہے جو حکیم الامت اقبالؒ نے کہی ہے:
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
یونان کی چمکتی دمکتی اکیڈمیوں نے اندھیرا اور گہراکر دیا، یہ دنیا منور ہوئی تو غار حرا کے گوشے سے طلوع ہونے والے آفتاب نبوت سے ہوئی۔رومۃالکبریٰ کے قیصر اور فارس کے کسریٰ بھی انسانیت کی پیٹھ پر بوجھ ہی رہے، اگر کسی نے آکر انسان کو سبکدوش کیا تو آغوش آمنہ کے پروردہ نے کیا، یہ فغفور و خاقان انسانیت کے لئے تاوان ثابت ہوئے، دنیا کو امان ملی تو پیغمبرؐ کے گوشہ ء داماں میں نصیب ہوئی، شاہی قبا و عبا انسانی آبادی کے لئے وبا نکلی، وہ کالی کملی تھی جو گرفتار ان بلا کے لئے نسخہ ء شفا بنی، بادشاہوں کی وسیع سلطنتیں اپنے باشندوں کے لئے سخت اور تنگ شکنجے تھے جبکہ یتیم مکہ کی چھوٹی سی کوٹھڑی دنیا بھر کے مظلوموں کے لئے اپنے اندر افلاکی وسعتیں رکھتی تھی، حبش سے آنے والے، روم سے آنے والے ، فارس سے آنے والے اور نجد سے آنے والے آتے گئے اور سماتے گئے، ارقم کے چھوٹے سے گھر میں بحر و برسمٹ گئے۔
آج ہرآن پھیلتی ہوئی کائنات میں پھر سے تنگی کا احساس ہونے لگا ہے، سائنس کی بے کرانی میں دم گھٹنے لگا ہے، سیٹلائٹ مریخ و مشتری کو گرفتار کرنے کے مشن پر ہیں، مگر بدقسمت انسان ہوائے نفس کا اسیرہو رہا ہے ، نیو ورلڈ آرڈر کے پردے میں قبائے انسانی چاک ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ’’انٹرنیشنل ویلیوز‘‘ کے چکر میں انسان اپنی رہی سہی قدر کھو رہا ہے۔مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے بڑی خوبصورت بات کی ہے:
ٹھوکریں کھاتے پھرو گے، ان کے در پر پڑ رہو
قافلہ تو اے رضا اول گیا آخر گیا
واقعہ یہ ہے کہ آج کا ’’بو علی ‘‘غبار ناقہ میں گم ہو کر رہ گیا ہے، کوئی ’’مجنوں‘‘ ڈھونڈا جائے جو ’’محمل لیلیٰ‘‘ کو پا سکے، یہ مجنوں یورپ کی دانش گاہوں میں نہیں ملیں گے، غبار رہ حجاز کو آنکھوں کا سرمہ بنا کر دیکھا جائے تو شاید کہیں مجنوں نظر آ جائیں۔وہ کون سا نظام ہے جو دنیانے آزما کر نہیں دیکھا اور وہ کون سا طرز حیات ہے جو اہل دنیا نے اپنا کر نہیں د یکھا، مگر حاصل کیا ہے؟ انسانیت کی بے قدری، ایک دوسرے سے بیگانگی، نری خشکی اور محض برہمی، انسانی دنیا اگر فی الواقع خلوص دل سے یہ چاہتی ہے کہ وہ مزید ٹھوکروں سے بچ جائے تو اس کا واحد حل یہی ہے کہ وہ اپنا بستر اس گلی میں لگا دے، جس کوچے کا ہر گدا شکوہ قیصری رکھتا ہے، اس گلی کے پھیری لگانے والے اپنے سر میں سکندری کا سودا سمائے رکھتے ہیں، یہ بند اور اندھی گلی نہیں، اس کا ایک سرا دنیا اور دوسرا عقبیٰ ہے، دربار شہی میں وہ عزت نہیں ملتی، جس قدر اس گلی میں عزت نفس کا احساس نصیب ہوتا ہے، کیونکہ حضورؐ انسانیت کی آبرو بڑھانے تشریف لائے تھے، جو آبرو حضرت انسان کو ملی وہ بھی ان کے کرم سے ملی اور جو آبرو آج بھی ملے گی ان کے دم سے ملے گی، غالب نے تو کہا تھا۔۔۔’’جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں‘‘؟۔۔۔یہ تو غالب کے عشوہ طراز معشوق کا شیوہ تھا، مگر محبوب خداؐ کا عالم تو یہ ہے:’’ جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی سے جائے کیوں‘‘؟
(’’میں‘‘ اور ’’سے‘‘ کے فرق کو اہل نظر خوب جانتے ہیں؟)