’’فتنۂ جمہوریت‘‘
انسان حیوان ناطق ہے جو اکیلا تن تنہا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنا اس کی سرشت میں شامل ہے۔ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہر انسان دوسرے ساتھیوں کا محتاج ہے۔ اجتماعی زندگی میں انسان کی یہی سرشت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ معاشرتی زندگی بسر کرنے کے لئے ایسے قوانین وضع کرے جن میں آزادی کا تحفظ ہو۔ ہر شخص کے لئے حدود و قیود متعین ہوں۔ کوئی شخص دوسروں کے حقوق میں دخل اندازی نہ کر سکے۔ اس کے لئے کچھ قوانین ، کچھ ضابطے متعین کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے انسانوں نے ہر دور میں مختلف قوانین، اصول، ضابطے وضع کئے۔ آغاز میں قبائلی نظام وضع ہوا۔ قبیلے کا بڑا ہی سب کا سربراہ ہوتا تھا۔ اقتدار اسی کو سونپا جاتا تھا۔ فیصلوں کا اختیار بھی اسی کے پاس ہوتا۔رفتہ رفتہ اجتماعی سوچ میں تموج پیدا ہوا۔ صرف طوالت عمری ہی پیمانہ کیوں ہو! قبیلے کی سربراہی کے لیے بھی کچھ اصول و ضوابط ہونے چاہئیں، اس طرح مختلف نظام ہائے ریاست و سیاست معرض وجود میں آئے، جن میں ایک نظام کا نام جمہوریت ہے۔یہ جمہوری نظام کب پیدا ہوا، کہاں پیدا ہوا،کس کی تخلیق ہے، اس سے بحث نہیں۔ ہماری بحث کا محور صرف ایک کتاب ہے جس کا نام فتنۂ جمہوریت ہے جو پاکستان کے معروف دانشور صاحب قلم جناب حکیم محمود احمد ظفر صاحب کی فکر کا نچوڑ ہے۔
اختلاف رائے رکھنااور دلائل کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرنا ہر شخص کا حق ہے، لیکن اپنی رائے ہی کو درست قرار دے کر دوسرے کے ہونٹوں کو بند کرنے کا حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔صاحب کتاب نے دلائل کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام مکمل نظام حیات ہے ۔ مکمل دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جو شخص اسلامی جمہوریت کی اصطلاح استعمال کرتا ہے، وہ تحریف دین کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ مغربی جمہوری نظام، جس کو پاکستان جیسی نظریاتی سٹیٹ میں نافذ کیا گیا ہے، سراسر غیر اسلامی اور غیر فطری ہے۔ یہ در اصل مغرب زدہ ذہن کی اسلام کے خلاف ایک سازش ہے۔پاکستان کے ماضی اور معروضی حالات کے تناظر میں اس کتاب کا مطالعہ انتہائی اہم ہے جس سے بہت سی اجتماعی غلطیوں کی نشاندہی ہوئی ہے جو قومی سطح پر ہمارے لیڈران کرام، دانشور حضرات اور کم علم اینکرز حضرات سے سرزد ہوئیں جن کی وجہ سے ہماری پوری قوم اسلامی ہدف سے بے راہ رو ہوئی اور مسلسل غلط راستے پر گامزن ہے اور جمہوریت کے سراب کو منزل سمجھ بیٹھے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں جہلاء اور حمقاء کی اکثریت علماء اور عقلاء کی اقلیت پر حکمرانی کرتی ہے۔چنانچہ اس ضمن میں وہ مشہور ماہر سیاست Burkre کا قول پیش کرتے ہیں:’’اکثریت کے فیصلے کو قبول کرنا کوئی فطری قانون نہیں ہے۔ کم تعداد بعض اوقات زیادہ مضبوط طاقت بھی ہو سکتی ہے اور اکثریت کی حرص و آواز کے مقابلے میں اس کے اندر زیادہ مقبولیت بھی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ جمہوریت کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جمہوریت در اصل جہالت کی حکمرانی کا نام ہے۔اس کی ساری توجہ کمیت اور تعداد پر رہتی ہے، کیفیت پر نہیں‘‘۔۔۔ اس ضمن میں انہوں نے دیگر ماہرین سیاسیات کی آراء سے بھی استشہاد پیش کیا ہے، مثلاً روسو اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’حکومت کا بہترین اور سب سے فطری انتظام یہ ہے کہ عقل مند ترین انسان کو اکثریت پر حکومت کرنی چاہیے‘‘۔
اس حوالے سے انہوں نے کارلائل اور دیگرعالمی سطح کے مشہور و معروف ماہرین سیاسیات کے اقوال کو بھی نقل کیا ہے جن میں اکثریت کی نفی کی گئی ہے۔ صاحب کتاب کے مطابق موجودہ جمہوریت میں رائے شماری کی جاتی ہے۔ فیصلہ اکثریتی رائے کے مطابق ہوتا ہے۔ صاحب کتاب نے اس طریق کو اسلامی طریق سے متصادم قرار دیا ہے، اس سلسلے میں واقعاتی دلائل بھی دئیے اور ان آیات کی وضاحت بھی کی ہے جو’’وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْر‘‘ کے ذیل میں لوگ جمہوریت کے حق میں بطور دلائل پیش کرتے ہیں۔۔۔صاحب کتاب کا کہنا یہ ہے کہ :’’ جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں جہلاء اور حمقاء کی اکثریت اہل علم پر حکمرانی کرتی وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ امریکہ میں بھی پاکستان کی طرح الیکشن کے موقعہ پر باقاعدہ سودے بازی ہوتی ہے اور ووٹوں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے وہ ریمزے میور کی کتاب۔۔۔How England is governed۔۔۔
Laskiکی کتاب۔۔۔The Crises of Democracy اور Hearn Shak کی کتاب ۔۔۔Democracy on the Crossway۔۔۔پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
اسلام میں امیر ریاست کے نصب و عزل، نیز سربراہ مملکت کی صفات کا تذکرہ بھی ہے۔ اکابر علماء مثلاً شاہ ولی اللہؒ کے افکار کا ذکر ہے جن کی مدد سے امیر، خلیفہ یا سربراہ ریاست کو پرکھا جا سکتا ہے اور ان صفات کے حامل شخص کو یہ عظیم ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ موجودہ جمہوری نظام میں ان صفات کے حامل شخص کو تلاش کرنا اور اس کو کاروبار سلطنت سپرد کرنا مشکل ہی نہیں ،ناممکن بھی ہے۔ایسے جمہوریت زدہ علماء کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:’’ہمارے علمائے کرام نے سیکولرزم کی تردید کے جوش میں سیاست کو اسلامی بنانے کی بجائے اسلام کو سیاسی بنا دیا ہے‘‘۔۔۔ صاحب کتاب واضح طور پر لکھتے ہیں کہ اسلام میں جمہوریت کا کوئی وجود نہیں۔جو لوگ اسلام میں جمہوریت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اسلام کی تعلیمات سے ناآشنا ہیں،اسلام ایک فطری مذہب ہے، جمہوریت فطرت کے بھی خلاف ہے، کیونکہ جس نظام حکومت میں ملک کے چیف جسٹس اور ایک جاہل اجڈ کی سیاسی رائے کی ایک حیثیت ہو، وہ نظام فطری کیسے ہو سکتا ہے‘‘۔۔۔ کتاب میں ان علماء پر شدید تنقید کی گئی ہے جو جمہوری نظام کی تائید میں رطب اللسان ہیں وہ لکھتے ہیں:’’افسوس ان علماء پر ہے، جنہوں نے جمہوریت کی ان خرابیوں کے باوجود اس کے جواز کے فتوے دئیے ، سیکولرپارٹیوں سے صرف جمہوریت کے لئے اتحاد کیا،کیونکہ ان کا مقصد زندگی جمہوریت اور الیکشن ہے‘‘۔
وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ جمہوریت سیاسی جماعتوں کے بغیر نہیں چل سکتی اور اسلام میں سیاسی جماعتوں کا کوئی وجود نہیں ۔ اسلام سیاسی جماعتوں کو ختم کر کے وحدت ملی قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ آخر میں انہوں نے برصغیر پاک و ہند کے عظیم مفکرین میں سے علامہ اقبالؒ ، مولانا مودودیؒ ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے افکار کو اپنے نظریہ فتنہ جمہوریت کی تائید میں پیش کیا ہے، جس سے جمہوریت کی مذمت کھل کر سامنے آتی ہے اور جمہوریت کا خلاف شریعت اور خلاف فطرت ہونا ثابت ہوتا ہے۔ان کے دلائل و براہین کی روشنی میں پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میںیہ کہنا غلط نہیں کہ پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ موجودہ جمہوری نظام ہی ہے۔یہ کتاب پڑھ کر یہ احساس شدت سے ابھرتا ہے کہ ہمارے دانشور علماء صاحبان پر یہ لازم ہے کہ وہ اجتہاد کریں اور اسلام میں نظم حکومت اور رئیس حکومت کی بنیادوں کو تلاش کریں جن سے اسلام کے سیاسی نظام کا کھوج لگایا جا سکے۔ اس ضمن میں محض مغرب کی نقالی میں صرف جمہوریت کو امرت دھارا سمجھ کر بیٹھے رہنا کافی نہیں۔۔۔صاحب کتاب کے بقول:
منتظر ہے یہ جہاں آئین پیغمبر کا آج
ورنہ سب بے کار ہے جمہور ہو یا تخت و تاج