سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 17

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 17
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 17

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عسقلان پر لنگر انداز یروشلم کے جنگی بیڑے کی قوت کا اندازہ کرتا ہوا وہ ساحل بیت المقدس کی طر ف بڑھا ۔ خچر کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے اس کی کمر ٹوٹ گئی اور پنڈلیاں ٹیڑھی ہو گئی تھیں لیکن وہ اپنے عزم پر ثابت قدم رہا۔
بیت المقدس کی شہر پناہ کی سرخ دیوار نے جب اس کی نگاہ پر جلوس کیا تو خچر سے پھانڈ پڑا اور نظر آتے ہوئے حضرت ابو خیر انصاری کے گنبد کی طرف چل پڑا۔ مزار کے کبوتروں اور ابا بیلوں نے پر پھٹپھٹا کر اس کی پیشوائی کی اور وہ ان کی بیٹ کے فرش پر دوزانو بیٹھ گیا اور تنہائی کو غنیمت جا کر نماز ادا کی اور باؤلی میں نہا دھو کر مسجد اقصیٰ کی زیارت کے لئے اٹھا اور مقام قدس کی قربت کے نشے میں سرشار جھومتا ہوا چلا۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 16 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بڑی دیر تک وہ بھٹکتا رہا لیکن اس مسجد کا راستہ نہ ملا جس کے عظیم الشان گنبد پر ٹوٹا ہوا ہلال، شکست خوردہ قوم کا نشان ٹوٹے ہوئے خنجر کی طرح چمک رہا تھا۔ ہر طرف ٹمپلر ز اور ہاسپٹلرز کے سواروں اور نائٹوں کے مکانات راستہ رو کے کھڑے تھے اور راستہ سفید داڑھیوں ، بھاری صلیبوں اور نیچی عباؤں سے لبریز تھا۔ آخر اس نے ایک مسلمان غلام سے مسجد حضرت عمرؓ کا پتہ پوچھا ۔ اس نے حیرت سے دیکھا اور اس کے آگے آگے چلنے لگا۔ پھر وہ ایک محراب سے اندر داخل ہوا جس کے دالانوں میں عامیوں کے حمام تھے اور صحن میں گھوڑے بندھے تھے۔ محراب کے کڑوں میں گندی عبائیں جھول رہی تھیں۔ دیواروں پر دھوئیں کی دھاریوں کے سانپ لپٹے ہوئے تھے ۔ فرش پر غلیظ برتن بھنک رہے تھے۔ وہ ان ہیبت ناک نظاروں سے کانپتا ہوا اس مصلے پر جا کھڑا ہوا جسے حضرت عمرؓ کے نام سے نسبت تھی۔ دھوپ کی آڑی گلابی کرنوں میں اندرونی عمارت کی چھت اور اس کی دیواریں اور منطقے اور ستون اور ان کے پر کالے اور قرآن مجید کی آیتوں کے سونے کے حروف جگمگا رہے تھے جیسے ایک ایک پتھر کی مرصع سطح پر ان گنت رنگوں کی شمعیں جل رہی ہوں۔ وہ کھڑا رہا، کانپتا رہا ، روتا رہا، پھر قبلہ رو ہو کر دو زانو بیٹھ گیا اور تلاوت کرتا رہا۔ جب ہوش آیا تو بیرونی دالانوں میں روشنیاں لرزنے لگی تھیں اور بے ادب آوازوں کا بازار لگ گیا تھا۔ اور گھوڑے پاؤں پٹخ پٹخ کر منہ پر چڑھے تو بڑے ہلا ہلا کر دانہ کھا رہے تھے۔ وہ غیظ و غضب کے عالم میں اٹھا اور اس مقدس پتھر کے پاس آکر کھڑا ہو گیا جس کا نام ’’صخرا ‘‘ ہے اور جس پر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ نے قربانیاں کی تھیں اور جہاں سے حضرت رسالت مآبﷺ کو معراج ہوئی تھی، وہیں اس نے آنسوؤں کی زبان سے قسم کھائی کہ جب تک دین کے اس سنگین صحیفے کو اپنی تلوار سے پاک نہ کروں گا کوئی راحت قبول نہ کروں گا۔
وہ کئی دن وہاں پڑا رہا۔ فصیل کے دروازوں ، دمدموں ، برجوں اور مورچوں کی مضبوطی اور خندقوں کی گہرائی دیکھتا رہا۔ سپاہ کے ولولے اور سرداروں کے حوصلے پڑھتا رہا اور دیواروں کے رخنے اور دلوں کے اندیشے ٹٹو لتا رہا۔اور اب مصر سامنے تھا۔ مصر جس کے بادشاہ فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا اور جس کے سینے پر تلوار ٹیک کر اس نے بیت المقدس کی فتح کا منصوبہ بنایا تھا۔ جب نورالدین زنگی کے سپہ سالاراور اس کے چچا اسد الدین شیر کوہ نے سفر آخرت اختیار کیا اس وقت اس کی عمر ملک شاہ سلجوقی کے آئینِ حکومت کی ایک دفعہ کے مطابق چھتیس برس پورے کرچکی تھی اور اس کے سر پر فاطمی خلافت کی وزارت عظمیٰ کی دستار حکومت باندھی جا چکی تھی اور جب اس نے خلیفہ کے سوڈانی سواروں کے امیر کے سازشی ہاتھ توڑ دیئے تب کم عمر امیر المومنین کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جس کی عیاشیوں اور دربار کی سازشوں نے عیسائیوں کو یہ جرأت دلائی تھی کہ وہ مقامات مقدسہ کو تاراج کر ڈالنے کا بھیانک خواب دیکھیں۔ وہ ممالک محروسہ کے امیروں کے نام فرامین لکھوا رہا تھا کہ طبیب خلافت بار یاب ہوا ۔ وہ سبز حریری عباپر سبز چادر ڈالے، سبز عمامہ باندھے زمرد کی تسبح لئے اندر آئے پسند کے کونے پر تسبیح روکی اور گزارش کی۔
’’میں وزارتِ عظمیٰ کے حضور میں ایک ضرورت سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
’’میں ارشاد کی تعمیل کی سعادت حاصل کروں گا۔ ‘‘
’’آپ کو علم ہو گا کہ ایک عرصے سے امیر المومنین کی صحت خراب ہے۔‘‘
’’دوسرے ذرائع سے میں نے معلوم کیا ہے۔‘‘
’’آپ کو درست بتلایا گیاہے۔۔۔ان کا جگر خراب ہو چکا ہے۔۔۔ تباہ ہو چکا ہے ۔۔۔نبض کی قوت میں فرق آچکا ہے۔۔۔لیکن نہ شراب چھوٹتی ہے اور نہ عورتوں سے رغبت میں کمی آتی ہے۔ آپ کو وہ لحاظ فرماتے ہیں ؛ آپ انہیں سمجھائیں۔‘‘
’’میں کوشش کروں گا لیکن ۔۔۔‘‘
’’شادی میں معاملہ کو پوری نزاکت اور اہمیت سے بیان نہ کر سکا۔ آج جب میں نے ان کی نبض دیکھی تو مجھے یقین ہو گیا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ چند روز سے زیادہ۔۔۔‘‘
’’کیا آپ کے خیال میں مجھے ابھی باریاب ہونے کی کوشش کرنا چاہئے؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ابھی۔۔۔اسی وقت۔‘‘
’’بہتر ہے۔‘‘

لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔

طبیب کی رخصت اور ظہر کی نماز کے بعد وزیراعظم کا وہ چغہ پہنا جس کے تکمے موتیوں کے تھے اور جس کے شمسوں پر جواہرات ٹنکے ہوئے تھے۔ وہ عمامہ پہنا جس پر ایک انگل کا بیضوی ہیرا جڑا تھا اور موتیوں کا سر پیچ پڑا تھا ، زرنگار کلغی لگی تھی، جڑاؤ کمر بند میں وہ تلوار باندھی جو خلیفہ کی کمر میں کئی مہینے رہ چکی تھی اور جس کے نیام کی قیمت دس ہزار دینار سرخ تھی۔ اور اپنے مملوکوں اور ترکمانوں کے جلوس میں مشکی گھوڑے پر سوار ہوا جس کا شجرہ نسب اس شبد یز سے مل جاتا تھا جس کی پیٹھ سے شہیدِ کر بلا نے یزیدی لشکر پر یلغار کی تھی۔اور جسے خلیفہ نے بطور خاص عنایت فرمایا تھا۔ امیر المومنین کے خاص محل قصر کبیر کے سامنے میدان میں جسے ’’بین القصرین ‘‘ کہا جاتا تھا، امیر المومنین کا ذاتی محافظ لشکر کا ایک دستہ نیزے بازی کی مشق کر رہا تھا۔ باب الغرب کے نوبت خانے میں دف، نے اور ارگن سلامی دینے والی دھن میں بج رہے تھے۔ وہ اس محل میں داخل ہو گیا جس میں چار ہزار کمرے تھے اور اٹھارہ ہزار انسان قیام کئے ہوئے تھے۔ تین ہزار مر مریں ستونوں کے سامنے زربفت کے لباس اور سونے کے ہتھیار پہنے غلام ہر گھڑی کھڑے رہتے تھے۔ قصر کے اندر باب الحضرت پر پانچ سو دیوپیکر حبشی سرخ حریر کے تہبند پر سونے کی پٹی میں ایک ایک بالشت چوڑے ننگے تیغے ڈالے، کندھوں پر خاردار گرز رکھے لال لال دیدے نکالے استادہ تھے۔ ان کے سردار نے سلامی دے کر اور رکاب پکڑ کر اسے اتار لیا اور آگے بڑھ کر ٹھوس چاندی کا بھاری دروازہ کھول دیا۔
اب وہ بارہ مملوکوں کی ننگی تلواروں کی حفاظت میں چل رہا تھا۔ سارا راستہ سفید تھااور ایک ایک انگل پچی کاری تھی۔ دونوں طرف مشرق و مغرب کے مشہور پھولوں اور پھلوں کے مختلف الصورت بیلو ں اور درختوں کو اس طرح سجایا گیا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح جانور کی قامت سے مشابہ تھے۔ ان میں ہاتھی گھوڑے اونٹ اور شیر کثیر تعداد میں تھے۔ ان پر انسانی تخیل میں آنے والے ہر رنگ اور ہر صورت کے پرند ے چہچہا رہے تھے اور ہر قسم کے پھولوں کے تختے لہلہا رہے تھے۔ وہ تیسرے دروازے باب الداخلہ کے اس مشہور کمرے میں ٹھہرا دیا گیا جس میں بڑے بڑے سفیروں اور امیروں کو باریاب ہونے سے قبل ٹھہرنا پڑتا تھا ۔ اس کے فرش پر وہ قالین تھے جو سونے اور چاندی کے تاروں سے بنے گئے تھے۔ دیواریں کمخواب سے منڈھی ہوئی تھیں اور چھت سونے کی تھی ۔ جس پر ہررنگ کے جواہر سے گل بوٹے بنائے گئے تھے۔ چاندی کے دروازوں پر معجزرقم خطاطوں نے آبِ زر سے عربی میں اشعار لکھے تھے۔ کمرے کے کونوں میں پورے قد کے چار زریں شیر تھے جن کی پیٹھ پر بیضاوی سیمیں کشتیوں میں شربت نبیذاور شراب کے بلوریں قرابے اور آبگینے اور نقل کی ہر قسم ہر وقت موجود ہوا کرتی تھی۔ چھت میں وہ فانوس جھول رہا تھا جس میں ایک سوایک شمعیں روشن ہوا کرتی تھیں اور جس کے لعل شمعوں کی طرح منور تھے۔ اور جو ہر وقت سفید عنبر کے دھویں سے معطر رہا کرتا تھا۔
اس کی آنکھیں ان لوازمات کو دیکھتی رہیں اور کان ان مظلوموں کی فریاد سنتے رہے جن کے سینے صلیبوں کی تلواروں سے لال تھے پھر مشہور خواجہ سرا حریم آیا جس نے خونی ڈاکو جو سلن اور شاہ یروشلم بالڈون سے رشوتیں چاٹی تھیں اور مصر کے خزانے لوٹے تھے اور خلافت کی حرمت پر چر کے لگائے تھے۔ یہ وہ شخص تھا جس سے مصر کے خلفار ڈرتے تھے اور جو مہر خلافت کا امین تھا ۔ اس کا قد اونچا ، رنگ روشن ، آنکھیں سبز اور داڑھی مہندی سے لال تھی۔ اس کی آواز میں ولیوں کا جلال اور نگاہ میں شہنشاہ ہوں کی جبروت تھی۔ اس نے آتے ہی دست بوسی کی اور پیشوائی کی صورت بنا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ اپنے سرداروں کو چھوڑ کر اس حرم میں داخل ہوا جس نے صدیوں سے اپنے جلیل المرتبت امراء کے علاوہ کسی مرد کی صورت نہ دیکھی تھی، کسی ہتھیار کو بے غلاف نہ پایا تھا۔ یہاں حریم ٹھہر گیا۔ سنگ مرمر کے قد آدم چبوترے کے چاروں طرف اونچے اور سبز درختوں کا حلقہ تھا۔ مطلا سیڑھیوں پر بر بری کنیزیں کمر کسے تلواریں علم کئے کھڑی تھیں۔ چبوترے پر ایک طرف چاندی کے ستونوں پر سونے کے تاروں کا شامیانہ تھا ۔ زمین پر بے نظیر قالینوں کا فرش تھا۔ وسط میں مطلا و مرصع تخت تھا۔ اس کے چاروں طرف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سونے کے ہرن ، مرغ، طاؤس اور عقاب اپنے پورے قد میں کھڑے بیٹھے تھے۔ ان کی آنکھیں ہیرے اور نیلم کی تھیں۔ تخت پر مسند سے لگا نو عمر خلیفہ بیٹھا تھا۔ اس کی داڑھی ہلکی سنہری تھی۔ آنکھوں میں مستی اور چہرے پر زردی تھی۔ سر پر موتیوں کا عمامہ شانوں پر جواہرات سے نمرین طیلساں ڈالے ایک نئے متعہ کا جشن منا رہا تھا۔ پشت پر کھڑی ہوئی بے انتہا حسین کنیزیں سفید طاؤس کے پروں کے پنکھے اس ادا سے ہلا رہی تھیں کہ ان کے نیم برہنہ جسم کا ایک ایک عضو حرکت کر رہا تھا۔ تخت کے بازو میں مطلا کرسی خالی تھی۔سامنے موصل کی سرخ باریک ریشم کی حنائی قباؤں میں روحی ، ایرانی اور عربی کنیزیں اپنی عریانی سے بے نیاز، دف، چنگ، نے ، بربط، طنبورہ ، کمنجہ ، قانون، ارگن، المعزہ، سلباق، شیردو، اور انقیارہ لئے کھڑی بیٹھی اور نیم دراز تھیں۔ شامیانے کے سامنے وہ مشہور عالم باغ لگا تھا جس کی زمینیں روپہلی اور سنہری تھیں۔ کیاریاں عنبر کی ، درخت چاندی کے اور پھل پتے سونے اور جواہرات کے تھے اور روشیں مشک اور عنبر اور زعفران سے کاٹی گئی تھیں۔ ایک طرف سونے کا فوارہ عرق گلاب کی پھواریں اڑا رہا تھا۔ سارے باغ میں مدتوں کی تربیت یافتہ، حسن میں بے نظیر کنیزیں صرف کمر پر چھوٹے چھوٹے موتیوں کی لڑیاں باندھے رقص کے کمالات دکھا رہی تھی۔(جاری ہے)

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں