سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 16

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 16
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 16

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تھوڑے دن بعد قاہرہ کے فاطمی خلیفہ کاسفیر عسقلان کے گورنر سے مذہبی فسادات پر گفتگو کرنے آیا۔ وہ شام کو سفیر کی زیارت کرنے گیا جو دائی عسقلان کے سرخ محل کے ”روکار “ (سامنے ) کی عمارتوں میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اس کے گھوڑے سبز زریں مخمل کے زین اور چاندی کے زیور پہنے ہوئے تھے۔
پانچ سو سپاہیوں کے علاوہ جو اطلس کی عباﺅں زربفت کی پگڑیوں اور مرصع ہتھیاروں سے سجے ہوئے تھے، پانچ سو کنیزیں بھی تھیں جن کے کپڑوں اور زیب و زینت کے سامان کے لئے ایک ہزار خچر ساتھ تھے۔ سارا عسقلان اس بارات کے جلوس کو دیکھنے کیلئے نکل آیا۔ سلطنت یروشلم کے اس معمولی گورنر نے امیر المومنین کے اس سفیر کو جو ان کا بھانجا تھا تین دن تک ملاقات کا شرف نہ بخشا۔ آخر چوتھے دن صبح جب سورج ایک نیزہ چڑھ چکا تھا ، محفل منعقد ہوئی۔ جس میں اراکین حکومت کے علاوہ عسقلان کے پادری بھی شریک کئے گئے ۔ سفیر کبیر راستے میں خریدی ہوئی نئی نئی کنیزوں کے اجلے پنڈے کی گلابی خوشبو میں غرق بیٹھا تھا۔ جب اس نے اپنے خنجر کے مرصع قبضے پر انگوٹھیوں سے جڑا ہو انازک گلابی ہاتھ رکھ کر اور نزاکت اور نفاست سے ترشے ہوئے بالوں اور مونچھوں اور داڑھی کے پس منظر میں دمکتی ہوئی پیشانی پر حریری شکنیں ڈال کر گفتگو شروع کی تو والئی عسقلان نے گنے چنے متمول یا فارغ البال مسلمانوں کا وفد اس کے سامنے پیش کیا۔ وفد کے سربراہ نے گلے میں حمائل قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر اعلان حق کیا۔
”ہم کو مسیحی سلطنت میں وہی حقوق حاصل ہیں جو بغداد میں فاطمیوں کو اور قاہرہ میں عباسیوں کو نصیب ہیں۔ ہماری عبادت گاہیں محفوظ ہیں۔ ہماری زبان اور ہمارا تمدن زندہ ہے ۔ ہم اپنی مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں اور گھروں میں روزے رکھتے ہیں اور بازاروں اور سیر گاہوں میں مساویانہ انداز میں ٹہلتے ہیں۔اس فساد کا سبب خود مسلمان ہیں۔ چونکہ مسلمان ماضی میں کامل حاکم رہے ہیں۔ اس لئے آج بھی ان میں ایسے نوجوانوں کی کثرت ہے جو کام سے جی چراتے ہیں اور جب کام نہیں ہوتا تو شیطان کا جادو ارزاں ہو جاتا ہے ۔ جس دن یہ چھوٹا سا واقعہ ہوا اس کی شب میں ایک مسلمان نے ایک پادری کی کنواری اور کمسن بیٹی کا اغوا کر لیا۔ جب وہ برآمد ہو گئی تو اس نے پادری کے گھر میں گھس کر اس کو زدو کوب کیا۔ یہی نہیں بلکہ اس کی صبح کو اس وقت جب کہ میں نماز پڑھنے جا رہا تھا وہ گرجا پرچڑھ آیا اور بائبل کو پھاڑ کر بے گناہ عیسائیوں پر تلوار کھینچ کر حملہ آور ہوا اور کئی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ نتیجے میں کچھ چپقلش ہو گئی۔ جس کے متعلق آپ کو، ایک بیرونی حکومت کے سفیر کو پوچھ گچھ کرنے کا حق نہیں پہنچتا ۔ ہم اسے اپنی حکومت کے داخلی معاملات میں دست اندازی تصور کرتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں۔ “
سفیر جو کنیزوں کے ہجر میں عذاب بھوگ رہا تھا اس مدلل تقریر سے لاجواب ہو گیا۔ اور کمسن اور خوبصورت غلاموں کے اطلسیں کا ندھو ں پر ہاتھ رکھ کر اٹھا اور بغیر کچھ کہے ہوئے چلا گیا۔ سفیر کبیر کی رخصت کے بعد گورنر کے حاشیہ نشین اور پادری بھی اٹھ کر چلے گئے۔ لیکن وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔ پھر وفد کا سربراہ بھکاری کی طرح چہرہ لٹکا کر اور ہاتھ سینے پر باندھ کر گورنر کی کرسی کے پا انداز کے پاس گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا اور گڑ گڑایا ۔
”سرکار عالی نے غلام زادے پر توجہ نہیں کی۔ “
”کیا ؟ مجھے یادنہیں آیا ہے۔ “
”وہ آپ کے غلام کا بڑا بیٹا جو مسلمانوں سے ٹیکس وصول کرنے کی نظامت میں منشی ہے اس کے متعلق حضور عالی کے معتمد کو بہکا کر یقین دلایا گیا ہے کہ وہ عربی آشنا ہے ۔ قرآن مجید کی قسم وہ عربی کے حروف سے بھی ناواقف ہے اور خواب میں بھی کوئی زبان بولتا ہے تو فرانسیسی بولتا ہے ۔ میرے ایسے نصیب کہاںہیں ورنہ اگر حضور عالی غریب خانے پر قدم رنجہ فرمائیں تو روشن ہو جائے کہ میری لڑکیاں تک فرانسیسی میں گفتگو کرتی ہیں۔ اگر کبھی سعادت علی تو درِ دولت پر حاضر کر کے سرکارِ عالی کے گوش گزار کروں گا۔بڑے پادری صاحب قبلہ نے بڑی توجہ سے انہیں تعلیم دی ہے ۔“
یہ کہتے کہتے اس کی باچھیں مصنوعی مسرت سے کانوں تک چر گئیں اور انداز سے ایسا معلوم ہوا کہ اب گورنر کے قدموں پر سر رکھ دے گا۔
”اچھا میں معتمد کو ہدایت کر کے تمہارے بیٹے کو بحال کر ادوں گا۔ “
اور وہ پیشہ ورگداگروں کی طرح گورنر کی گزشتہ اور آنے والی تین تین نسلوں کو عمرو اقبال کی دعائیں دینے لگا۔ گورنر اس کی لجلجی صورت اور گھناﺅنی خوشامد سے اکتا کر اس سے مخاطب ہوا۔
”آپ ہمارے مہمان اور دوست جون میں جو دمشق سے آرہے ہیں اور بیت المقدس کی زیارت کو جا رہے ہیں اور آپ یہاں کے سب سے معزز خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور عسقلان کی مسلمان آبادی کے ہادی عبادہ بن عباس ہیں۔ “
”تو آپ دمشق سے آرہے ہیں۔۔۔بڑی خوشی ہوئی جناب عالی ۔۔۔فرمائیے وہاں کے مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے ۔ میں نے سنا تھا کہ نورالدین محمود زنگی نے وہاں قتل و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے اور مسلمان بھاگ بھاگ کر دوسری حکومتوں میں پناہ لے رہے ہیں۔ “
”یہ اطلاع تو مجھے یہاں پہنچ کر مل رہی ہے ۔ “
”ممکن ہے کہ جناب عالی کو مسلمانوں کے افکار و اعمال سے زیادہ دلچسپی نہ ہو۔۔۔اچھا حضور والا ایک گزارش ہے “۔
”فرمائیے۔ “
”آپ شام کو میرے ساتھ تشریف لے چلئے۔ عسقلان کی سیر کیجئے اور جو دال دلیا نصیب ہو تناول فرمائیے۔“
اس نے گورنر کی طرف دیکھا اور گورنر نے ”ضرور ضرور “ کہہ کر اپنی جان بچائی اور اس کے سینے پر بیتی ہوئی صلیب کی طرف نگاہ کئے بغیر اٹھ گیا۔
شام سے قبل ہی وہ ایک گھوڑے پر سوار دوسرے کو تل گھوڑے کی لگام تھامے وارد ہوا اور اسے سوار کر ا کے شہر کی طرف چل دیا۔ معمولی معمولی عیسائیوں کو سلام کرنے میں کبھی وہ گھوڑے کی گردن پر پیشانی رکھ دیتا اور کبھی داہنے بائیں رکابوں تک جھک جاتا ۔ وہ اس کے ان کرتبوں کو دیکھتا رہا اور چلتا رہا۔ اور جب وہ گھر پہنچا تو غلاموں نے جن کے چہروں پر مجبوری اور مظلومی کے سائے تھے انہیں گھوڑوں سے اتار ا اور پتھر کا منقش دروازہ کھول دیا۔ سبزے کے کنارے گرجے کے باغ کا ایک ایک مغربی پھول اور پودا اپنی اسی شکل اور صورت میں کھڑا تھا۔ مکعب کمرے کے بھورے پتھر کی دیواریں سفید رنگی ہوئی تھیں۔ فرش پر سیاہ قالین بچھا ہو ا تھا۔ چاندی کے چراغ دانوں اور آبنوس کی دیوار گیریوں پر پاک ماں مریم اور خدا کے بیٹے کی تصویریں کھدی ہوئی تھیں۔ اور دیواروں پر بھدے رنگوں میں بائیبل کے افسانے منقش تھے۔ پھر دروازے پر پڑا ہوا مغرب کے مناظر سے آراستہ پر دہ ہٹا کر نصرانی دوشیزاﺅں کا لباس پہنے ایک لڑکی آئی اور سینے پر صلیب بنا کر اس طرح گھوم گئی کہ کمر کے اوپر کے تمام نشیب و فراز بول اٹھے ۔ عبادہ نے اس لسان جوہری کی طرح جو اپنے معمولی موتیوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔ چہک اٹھا ۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 15

”یہ میری بڑی بیٹی ہے حضور والا ۔ “

اور بیٹی گاڑھی فرانسیسی میں گویا ہوئی۔ جس کی شدبد سے وہ بھی آشنا تھا۔
”میرا نام ایمینا ہے ۔ “
”ایمینا ؟ اچھا ، امینہ ہے ۔۔۔خوب خوب۔ “
اس نے فصیح عربی کے ٹکسالی لہجے میں لقمہ دیا ۔ اتنی دیر میں دوسری بیٹی تشریف لا چکی تھیں اور بڑی بہن کی پرجوش تقلید کر چکی تھیں۔
”میرا نام ایڈیر یسیا ہے۔ “
”یعنی ادریسہ ہے ۔“
اس نے چٹکی لی اور وہ دونوں بیٹیاں اپنے باپ کو اس طرح دیکھنے لگیں گویا اس نے ان کی بھیانک تذلیل کے لیے سازش کی ہو۔ اور عبادہ نے سمندر پار کے پادریوں کے لہجے میں ارشاد کیا۔
”مہذب انسان ہونا بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔ “
ایک بیٹی نے جل کر تندلہجے میں سوال کیا۔
”کیا مقدس باپ بالکل فرانسیسی نہیں جانتے؟“
”ہاں اسی طرح جس طرح فرانسیسی عربی سے نابلد ہیں۔ میں دمشق میں پیدا ہوا ہوں اور دنیا کی سب سے مہذب اور دولت مند زبان کو مادری زبان کہنے کا شرف رکھتا ہوں۔ “
پھر محفل بڑی خشکی کے ساتھ کھانے کا انتظار کرنے لگی۔ اسے دوسرے کمرے میں لے جایا گیا جہاں آتش دان کے سامنے ایک بدصورت میز پر ابلے ہوئے گوشت اور پھیکے شوربے کی اقسام چنی ہوئی تھیں اور پانی کے بجائے شراب چھلک رہی تھی۔ وہ تازہ پھل ٹونگتا رہا ۔
جب اصرار کی شدت بڑھ گئی تو اسنے کہا۔
”میں مغرب کے بے مزہ اور پھیکے کھانے قطعی ناپسند کرتا ہوں اور ان کی بدبو کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ اور براہ کرم اس آتش دان کی آگ بجھا کر ٹھنڈا پانی منگوا دیجئے۔“(جاری ہے)

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 17 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں