سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 15

اتوار کی صبح تھی اور وہ گرجا کے سامنے سبزے پر ٹہل رہا تھا ۔ پھولوں کی جھاڑیوں کے سر مئی گملے دیکھ رہا تھا کہ دروازے پر ایک آدمی آیا اور سڑک پر ادھر ادھر دیکھ کر شانے پر جھولتے کپڑے کے تھیلے سے کچھ کاغذات نکال کر بکھیر دیئے۔ وہ ٹہلتا سوا اڑتے اور اق کی طرف چلا کہ پشت سے آواز آئی۔
’’ناشتہ حاضر ہے۔‘‘
گرجے کا خادم ناشتے کی کشتی لئے کھڑا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں چلا آیااور ناشتہ کرنے لگا۔ ابھی وہ کمرے ہی میں تھا کہ گرجا کے دروازے پر تندو تیز آوازیں اچھلنے لگیں اور جب تک وہ باہر آئے چھوٹی موٹی بھیڑ جمع ہو گئی۔ گرجے کے خادم آرائش و زیبائش کو ادھورا چھوڑ کر نکل آئے۔ ایک نوجوان راہب چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔
’’کسی مسلمان نے ہماری بائبل کو پھاڑ کر جوتوں سے مسل دیا ہے۔
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 14 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’عین گرجے کے سامنے مقدس دین کی بے حرمتی کی گئی ہے ۔ ‘‘
دوسری آواز۔
’’سارے شہر کے مسلمانوں کی ایک منظم سازش ہے ۔ ‘‘
کسی منچلے نے ٹکڑا دیا۔
’’تو پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر پھینک کیوں نہیں دیتے؟ ‘‘
پھر بھیڑ مجمع بن گئی اور مجمع جلوس کی شکل آختیار کر گیا اور جلوس لشکر کی طرح نعروں کے جھنڈے اڑاتا شہر کے اس حصے میں داخل ہو گیا جہاں بیس ہزار مسلمانوں جانوروں کی زندگی گزار رہے تھے۔ ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں قربانی کے بکروں کی طرح اپنی جان کی خیر منا رہے تھے، اپنی بے نام آبرو کی حفاظت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ پھر بکتر پوش سواروں نے نیزوں میں مشعلیں باندھیں اور مکانات پھینکنے لگے جس طرح چھتے سے مکھیاں نکلتی ہیں بوڑھے ، جوان ، بچے اور عورتیں نکلنے لگیں۔ ان کے ہاتھ خالی تھے اور پیروں میں خوف کی زنجیریں پڑی تھیں۔ پھر ان پر بہادر شہسواروں اور نامی گرامی نائٹوں کی پیاسی تلواریں برسنے لگیں اور دم کے دم میں جامع عسقلان تک تمام کو چے اس خون سے جوپانی سے بھی سستا ہے غسل کرنے لگے۔ ان کی بکریاں ، بھیڑیں ، گدھے ، کھجور کی پتیوں کے پٹارے ، لکڑی کے چھوٹے بڑے صندوق ، ٹیالے بدبودار بستر، جھنگلا ، چار پائیاں ، لکڑی کے سادے پیالے اور مٹی کے برتن جلتے رہے اور جامع مسجد گھیرلی گئی۔ سواروں نے اپنے گھوڑے مسجد میں دھکیل دیئے اور دس بارہ ہزار مظلوم بے گناہ انسان اپنے خدا کو ، رسولﷺ کو اور علیؓ کو اور بغداد کے خلیفہ کو اور قاہرہ کے امیر المومنین کو آوازیں دے دے کر روتے رہے اور چھتے میں بند بھڑوں کی طرح عیسائی سورماؤں اور بہادروں کی تلواروں اور نیزوں کی آگ سے جل جل کر مرتے رہے۔ سینکڑوں جوان اور حسین لڑکیاں اور تندرست اور خوش رو لڑکے بچا کر ہانک لائے گئے ار گرجا کے میدان میں کھڑا کر کے خون میں ڈوبی تلواروں اور نیزوں کو ان عظیم الشان خدمات اور بے نظیر شجاعت کے صلے میں بطور انعام عطا کر دیئے گئے۔ اس مقدس فرض سے سبکدوش ہو کر لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے عبادت گاہ میں داخل ہوئے۔ پاک مریم کی شبیہہ کے نیچے زریں شمع دانوں میں شمعیں جلا کر گرجا کے بڑے پادری نے ارشاد کیا۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
’’ہم دین مسیح کے سچے خادم خوں ریزی کو پسند نہیں کرتے اور صلح و آتشتی پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ہم کو یادر کھنا چاہئے کہ یروشلم کی مسیحی سلطنت کی آدھی آبادی اب بھی مسلمان ہے اور یہ وہ مسلمان ہیں جن کے اجداد نے یہاں صدیوں تک حکومت کی ہے اور ان کی حکومتیں آج بھی ہندوستان سے افریقہ تک اور یمن سے سمر قند تک قائم ہیں ۔ اگر ان کے ذہن سے ان کے شاندار ماضی کو فراموش نہ کیا گیا اور انہیں تلواریں ٹیک کر کھڑے ہو جانے کا موقع دیا گیا تو یاد رکھو کہ پڑوسی مسلمان حکومتوں کی مدد پا کر یہ تمہیں بحیرہ روم میں غرق کر دیں گے۔ اس لئے ہماری ہدایت ہے کہ ایشیا کی اس مسیحی سلطنت کو اپنی مسلمان آبادی نابود کر دینی چاہئے ۔ سلطنت سے خارج کر دینا چاہئے۔ بچی کھچی آبادی کو اپنی حقیر خدمت کے لئے قبول کر کے ان کی خود اعتمادی کو اس حدک تک کچل دینا چاہئے کہ وہ اپنے مسلمان ہونے پر شرمندہ ہو جائیں ، عاجز ہو جائیں اور ترک مذہب پر آمادہ ہو جائیں۔ آج جو کچھ ہوا ہے وہ اصولی طور پر برا ہوتے ہوئے بھی مبارک ہے۔ اپنے دور رس نتائج کے اعتبار سے بہت بہتر ہے ۔ یہ بار بار ہونا چاہئے نہ صرف مسیحی سلطنت کے اندر بلکہ مسلمان حکومتوں کی سرحدی آبادیوں پر بھی اس کا تکرار ہونا چاہئے ۔ طرابلس کے ریمنڈ اور کرک کے ریجینالڈ نے یہی خدمات انجام دی ہیں جنہوں نے ان کو نہ صرف ہماری بلکہ یورپ کی نگاہ میں افتخار اور امتیاز عطا کیا ہے ۔ ‘‘
شام کو کئی ہزار کا قافلہ جن میں بوڑھے آدمیوں اور ادھیڑ عمر عورتوں کی کثرت تھی اپنے مقتولوں کو چھوڑکر، گھر وندوں کو جلتا ہوا چھوڑ کر روتا دھوتا، بھوکا پیاسا عسقلان سے نکل گیا ۔
(جاری ہے )