سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 14
اب وہ عسقلان کے راستے پر چل رہا تھا جس کے دونوں طرف سیب ، انجیر اور خوبانی کے باغ تھے۔ ایک باغ کے سائے میں چشمے کے کنارے پڑاؤ ڈالے ہوئے آدمیوں کے سوکھے جسم، روکھے چہرے اور خالی نظریں اور پرانی عبائیں چلا چلا کر کہہ رہی تھیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ ہم مسلمان ہیں۔ اس کے گدھے سے اترتے ہی ان مجبوروں نے اپنا آرام تہہ کیا اور کھڑے ہو گئے۔سینوں پر صلیب بنائی اور سارا باغ اس ایک متنفس کیلئے چھوڑ کر ننگی زمین اور چمکیلی دھوپ میں بکھر گئے۔ اور وہ اپنے گدھے کے پاس چشمے کے کنارے بیٹھا ہوا میٹھی کھجوریں چباتا رہا اور نمکین آنسو پیتا رہا۔
وہ عسقلان کے اس محلے سے گزر رہا تھا جس کے مکان بوسیدہ ، دیواریں شکستہ، دروازے میلے اور دن کے وقت بند تھے اور گلیاں سنسان اور گندی تھیں۔ جیسے یہاں کوئی وبا ڈیرے ڈالے پڑی ہو۔ پھر ایک لمبی چوڑی میلی کچیلی عمارت کے کھلے ہوئے دروازے کی پیشانی پر نگاہ پڑی۔
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 13 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’مدرسۂ علوم اسلامیہ ‘‘
اس نے اپنے گدھے کی لگام دہلیز کی کنڈی سے باندھی اور اندر چلا گیا۔ غلام گردش میں کھڑے ہو کر اپنے چہرے کا پسینہ خشک کیا اور پانی کے لئے ادھر اُدھر دیکھ کر اس کشادہ کمرے میں داخل ہو گیا جس سے زندگی کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ ان گنت ستون اس وسیع کمرے کی اونچی چھت کو سنبھالے ہوئے تھے ۔ چاروں طرف کی اندرونی محرابوں پر قرآن مجید کی آیتوں کے کتبے دھندلا گئے تھے۔ چھت کا روغن اڑ گیا تھا ۔ فرش کے میلے میلے نقش و نگار پر کہیں کہیں پرانی چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ان پر بوڑھے ، جوان اور بچے دوزانو بیٹھے ہوئے فرانسیسی زبان کی کتابیں پڑھ رہے تھے، تختیاں لکھ رہے تھے۔ سامنے اونچی سی کرسی پر ایک پادری بیٹھا بازو میں کھڑے ایک لڑکے کی تختی دیکھ رہا تھا جیسے ظالم عدالت مجرم کی فرد جرم ملاحظہ کر رہی ہو۔ کر سی کے پیچھے ایک جلاد نما سپاہی اونٹ کے بالوں کا کوڑا لئے سامنے بیٹھے ہوئے آدمیوں کو گھو ر رہا تھا جیسے قصائی جانوروں کے گلے میں کھڑا ہوا راس ٹٹول رہا ہو۔
اس نے پادری کی نگاہ اٹھتے ہی رسمی گفتگو کی اور اسے کرسی پر بٹھا کر باہر نکل آیا۔ وہ محراب ہی میں تھا کہ جیسے اس کی پیٹھ پر کوڑے برسنے لگے۔ بھیڑیوں کو شکار مل چکا تھا ۔ قبروں کی طرح پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے مکانوں کے قبرستان سے نکل کر وہ عسقلان کے دوسرے محلوں میں آگیا جہاں سفید اور بھورے پتھر کے صاف ستھرے بلند و بالا مکانات تھے جن میں پچی کاری کے گرانڈیل خوبصورت دروازے لگے ہوئے تھے جن پر سبک نقشے اور سڈول ہاتھ پیروں اور گندمی رنگ کے مسلمان غلاموں کا ہجوم تھا۔ راستوں پر مسلمان جھاڑو دے رہے تھے، مشکیں لادے پانی چھڑک رہے تھے۔ گدھوں کی لگا میں اور گھوڑوں کی رکابیں تھامے ملنے جلنے والوں کو دیکھ کر سینے پر صلیب بناتے گزر رہے تھے۔ بازار میں مسلمانوں کا انبوہ کھجور کے پتوں کے ٹوکروں میں بیٹھا ہوا مزدوری دینے والی آسمانی آوازوں کا انتظار کر رہا تھا ۔ پھول سی عورتیں بوروں کی سی عبائیں پہنے گھاس اور ایندھن کی ڈھیریوں ، سستے سوکھے پھلوں کی ٹوکریوں کے پیچھے بیٹھی ہوئی کالی آنکھوں سے گاہکوں کی بھیک مانگ رہی تھیں۔
سونے چاندی کی دوکان کے پاس ایک مسلمان جو ان آدمی گدھے کی لگام تھامے کھڑا تھا جس پر ایک عورت سیاہ سوتی گفتان پہنے آدھے چہرے پر نقاب ڈالے بیٹھی تھی ۔ اور اسے دو تین نوجوان عیسائی اپنے گھیرے میں لئے نوچ گھسوٹ رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے۔ سب اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک آدمی سے کہا کہ میں اپنا گدھا بیچنا چاہتا ہوں۔ اس نے ایک گلی میں چھوڑ کر گدھا ہانک دیا جو ان گنت آدمیوں سے بجا رہی تھی اور ان کے پسینے اور گدھوں کی لید سے بھیگ رہی تھی ۔ اس نے جیسے تیسے اپنے گدھے کے چار دینار (سفید ) کھرے کئے اور اجلے بازار کے کشادہ کوچے میں آگیا ۔ اب اسے بھوک لگی اور ایک آدمی سے پتا پوچھ کر دوسری گلی میں گھس گیا۔ گلی کے موڑ پر لمبا چوڑا میدان تھا۔ اس کے چاروں طرف دالان در دالان حجرے اور کمرے تھے جن کے پتھر مختلف رنگوں سے رنگے ہوئے تھے اور جو ریشمی قباؤں ، چمکیلی چادروں اور قیمتی ہتھیاروں اور چمڑے کے موزوں سے آراستہ ، تندرست اور خوبصورت انسانوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میدان میں چھوٹے بڑے سنگین چبوترے بنے ہوئے تھے جن پر قلمکار نمگیرے لگے تھے، کرسیاں بچھی تھیں اور تختوں پر قالینوں کا فرش تھا۔ ان پر عیسائیوں کے گروہ نارگیلی سے شغل کر رہے تھے، جام لنڈھار ہے تھے اور رانیں کھجا کھجا کر قہقہے لگا رہے تھے۔ پھر ایک چبوترے پر آفتاب اتر آیا۔ ایک کمسن لڑکی مہین حریر کی چادر پر ستر پوشی کی تہمت لگائے کھڑی تھی۔ اس کی آنکھیں پیروں کے پنجوں پر گڑی ہوئی تھیں اور سفید چہرہ تمتما کر سرخ ہو گیا تھا اور آنکھوں میں خشک آنسوؤں کے زخم تھے ۔ کمر میں بندھی ہوئی رسی ایک دلال کے ہاتھ میں تھی اور وہ ننگی آواز میں چلا رہا تھا۔
’’صاحبان ہارون الرشید کے بغداد کا سورج ہے ۔ ‘‘
’’صاحبان !
’’عبدالملک کے دمشق کا چاند ہے ۔
’’صاحبان یہ وہ چیز ہے جس پر سوسو دربانوں کی تلواریں پہرہ دیا کرتی تھیں۔
’’صاحبان یہ قاہرہ کے امیر المومنین کا لختِ جگر ہے۔
’’اور صاحبان اس کے دام ہیں پانچ دینار ۔۔۔پانچ دینار۔
’’پانچ دینار میں ایک حور۔ صاحبان صرف پانچ دینار ۔
’’پانچ دینار میں سمور کی ایک قباملتی ہے جو دو برس میں بیکار ہو جاتی ہے۔
’’صاحبان پانچ دینار میں یہ ریشمی قبا لیجئے اور ہارون الرشید کی طرح بیس برس عیش کیجئے۔ نہیں ساری عمر عیش کیجئے۔‘‘
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
ایک ادھیڑ عیسائی نے اپنے گندے پیلے دانت نکوس کر اسے دیکھا اور قبا کی پیٹی میں جھولتے بٹوے سے پانچ دینار نکال کر دلال کی ہتھیلی پر ڈال دیئے اور اس کی کمر پکڑ کر اپنے کندھے پر لاد لیا جیسے مزدور آٹے کی بوری لادتا ہے۔ اس کی بھوک اڑ گئی اور پیروں میں پر لگ گئے دوڑتا ہوا آیا اور گرجے کے دالان میں بچھی ہوئی سنگ سرخ کی تپائی پر ڈھیر ہو گیا ۔ پھر گرجے کا خادم آیا۔ ادب سے سلام کر کے بازو میں بنے ہوئے مہمان خانے کے ایک کمرے میں ٹھہرا دیا جس میں ایک آراستہ پلنگ ، دو کرسیاں ، ایک تپائی، ایک شمعدان ، ایک عوددان ، ایک انگیٹھی اور ایک بائیبل موجود تھی۔ وہ کٹے ہوئے کھجوروں کی طرح اس پر پڑ ارہا۔(جاری ہے )
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 15 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں