سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 13

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 13
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 13

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

موسم گرما کے طلوع ہوتے ہی اس نے ایک گدھا خریدا اور کرک کی طرف چل پڑا ۔ جس کے رنجینا لڈ کا ظلم مسلمانوں میں طاعون کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ ابھی کرک پہاڑیوں میں گھرے ہوئے سفید مکانوں کے کنگر ے ٹھیک سے نظر بھی نہیں آرہے تھے کہ پشت سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آئی۔ اس نے اپنے گدھے کو کنارے کر لیا۔ ایک ایک عیسائی سپاہی کے نیزے پر ایک ایک مسلمان کا سر خربوزے کی طرح کھپا ہوا تھا جن کی مردہ داڑھیاں خون سے لال تھیں۔ ایک سپاہی نے اسے دیکھ کر سینے پر صلیب بنائی اور مبارکبادد ی، گانے والی آوازمیں سروں کی طرف ابروؤں کا اشارہ کر کے بولا۔
’’یہ بیچارے جنت جانا چاہتے تھے ہم نے ان کو حج کی مصیبت سے نجات دلا کر سیدھا جنت روانہ کر دیا۔ ‘‘

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پھر خود ہی اپنے مذاق پر اس زور سے ہنسا کہ دوسروں نے بھی تکرار کی اور پہاڑیاں قہقہوں سے گونج گئیں۔ ہزار سروں کو نیزوں میں پروئے ہوئے یہ چھوٹا سا لشکر کرک میں داخل ہو گیا۔ وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ گدھے کو ڈپٹتا ہوا چلا جا رہا تھا ۔ کرک کے قلعہ نما گرجا کے سامنے لشکر اتر پڑا اور میدان میں نیزوں سے سراتار کر ڈھیر کر دیئے جس پر ڈھیروں بچے اور عورتیں ٹوٹ پڑیں اور ٹھوکروں سے الٹ پلٹ کر گنگناتی مسرت کا اظہار کرنے لگیں۔ زندگی میں پہلی بار اس نے ریجینا لڈ کو دیکھا۔ وہ اونچے قد اور بھاری بدن کا جوان آدمی تھا۔ اس کی داڑھی بھوری تھی اور بال شانوں پر جھول رہے تھے اور آنکھوں میں بھیڑیوں کی سی چمک تھی۔ وہ زعفرانی عبا کی کمر پر چمڑے کی پیٹی میں تلوار باندھے ہوئے تھا۔ گلے میں سونے کی صلیب اور پیروں میں دورنگے چمڑے کے موزے تھے اور بھیڑ کی کھال کے بھدے جوتے تھے۔ وہ سروں کا ڈھیر دیکھ کر شیطانی ، ہنسی ہنسا اور بھیگے ہوئے سرخ گیندوں کو تلوار کی نوک سے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ پھراس کی نظر پادری پر اٹھی۔ اس نے مسرور آواز میں مخاطب کیا اور قریب آکر ہاتھ پر بوسہ دیا اور عبادت خانے کے خادم کو حکم دیا۔
’’آج کے جشن میں مقدس باپ کو نہ بھولنا۔ ‘‘
اور جب اس نے بتایا کہ وہ دمشق میں پیدا ہوا ہے اور اب بیت المقدس کی زیارت کو نکلا ہے تو وہ بہت خوش ہوا اور دیر تک کھڑا شام کی سیاست پر گفتگو کرتا رہا۔ پھر ایک اونچے وحشی گھوڑے کے ایال پکڑ کر ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر نکل گیا چرچ میں تیوہاروں کا ساجوش و خروش تھا۔ عورتیں اور بوڑھے اور بچے آتے اور سر کے بالوں اور داڑھیوں ، ناکوں اور کانوں اور آنکھوں کو جوتے کی نوکوں اور پنجوں سے ٹھیلتے ، حقیر ہنسی ہنستے اور واپس چلے جاتے اور ان کی جگہ نئے شائقین آتے اور یہی عمل دہراتے ۔ وہ ایک حجرے میں دمشق کی واپسی کے متعلق سوچتا رہا۔ پھر معلوم نہیں کب شام ہو گئی اور چرچ کا خادم اس کے گدھے کی لگام پکڑ کر چلا اور اسے ریجینا لڈ کے بھورے پتھر کے بے ہنگم مکان کے بدوضع دروازے کے سامنے آتار دیا اور ایک دوسرا خادم اسے اندر لے گیا۔
عجلت میں جوڑے ہوئے چوکور ستونوں کے چوڑے برآمدوں کے سامنے پتھر کے کھردرے چبوترے پر چاندی کے کام کی ساگون اور آبنوس کی بھاری بھاری کرسیاں پڑی تھیں۔ ان کے وسیع دئرے کے بیچ میں ایک اونچا ساتخت بچھا تھا۔ اس پر سنہری ریشمی چادر پڑی تھی جس کے حاشیے پر چاندی کے تاروں سے عربی اشعار کڑھے ہوئے تھے۔
کرسیوں کے بیچ میں چھوٹی چھوٹی تپائیاں رکھی ہوئی تھیں اور ادھر ادھر منبت کا رشمعدانوں میں موٹی موٹی تھوپی ہوئی شمعیں جل رہی تھیں جن کی لوؤں سے کڑوے دھوئیں کی دبیز لکیریں اٹھ رہی تھیں۔ تانبے کی انگیٹھیوں میں سلگتے ہوئے میلے عنبر سے خوشبودار چراہند پھیل رہی تھی۔ بیمار پیلی روشنی میں موصل اور حلب ، دمشق اور قاہرہ کے مخمل اور اطلس اور سنجاب کے کفتان پہنے سرخ منہ اور مضبوط ہاتھ پیروں والے آدمی بیٹھے تھے جن کی اجاڑ داڑھیوں سے بر بریت ٹپک رہی تھی اور آنکھوں میں خون کی دھاریاں تیر رہی تھیں۔ ریجینا لڈ کھڑے ہو کر اس کا استقبال کیا اور ان لوگوں کا تعارف کرایا جو طبقہ الدوایہ ارو ٹمپلرز اور ہاسپٹلرز کے نام لیوا تھے۔ وہ آپس میں فرانسیسی میں گفتگو کر رہے تھے اور اس سے کبھی کبھی لنگو فرنیکا میں مخاطب ہو جاتے ۔ پھر ریجینا لڈ نے تالی بجائی۔ تیکھے خطوط، مکالی آنکھوں‘کالے بالوں ، میانہ قدوں، گداز جسموں اور گندی اور سفید اور سرخ رنگوں کی برہنہ عورتوں کا پرانکل کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ ان کے بدن پر کہیں کہیں گلاب کی کلیوں کے چھدرے چھدرے ہار لپٹے ہوئے تھے ۔ ان کے ہاتھوں میں شربت کے جام، شراب کے مشکیزے ، نقل کی کشتیاں اور چاندی کے پھیلے پھیلے منہ والے چھوٹے چھوٹے پیالے تھے۔ انہوں نے سب کے سامنے پلیٹیں چنیں اور پیالوں کو سرخ شراب سے چھلکا لیا اور محفل کی بدمعاش نگاہوں اور شرمناک دست درازیوں کو جھیلتی رہیں۔ اس کی کرسی کے پاس جو عورت کھڑی تھی اس کی طرف اشارہ کر کے ریجینا لڈ نے ننگی آواز میں کہا۔
’’مقدس باپ یہ مسلمان امیروں کی لڑکیاں ، میں جو مسیح نے آپ پر حلال کر کے اتاری ہیں۔‘‘
اور وہ مسکراکر بہانہ کر کے اپنی پلیٹ پر جھک گیا ۔ دور چلتا رہا۔ پھر ریجینا لڈ نے دو تالیاں بجائیں۔ ایک غلام جس کی لبیں ترشی ہوئی تھیں اور داڑھی بڑی نفاست سے کتری ہوئی اور ماتھے پر سجدوں کا نشان تھامیلا کفتان پہنے حاضر ہواور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ اسے حکم ملا۔
’’ماریہ کو لاؤ۔‘‘
ایک لڑکی لائی گئی۔ اسے بیچ تخت پر کھڑا کر دیا گیا۔ اس کا لباس اتار لیا گیا۔ جیسے بکرے کی کھال کھینچ لی جاتی ہے۔ اور جیسے شمعوں کی روشنی تیز ہو گئی۔ محفل اپنے پہلوؤں میں کچلی ہوئی مجبور عورتوں کی لذت بھول گئی۔ اس کے نظارے میں کھو گئی اور ریجینا لڈ کی آواز سے بھی نہ چوکی۔
’’مقدس باپ دمشق سے آئے ہیں اس لئے عربی جانتے ہوں گے۔ یہ کمبخت سوا عربی کے کچھ گانا ہی نہیں جانتی مگر آواز ایسی پائی ہے کہ یہ منحوس زبان بھی برداشت کرنا پڑتی ہے‘‘
پھر لڑکیوں کی طرف اشارہ ہوا۔ ان میں سے ایک نے رباب بجانا شرو ع کیا۔ دوسری نے کمنجہ سنبھال لیا اور اس نے انتہائی دلگیر اور پاکیزہ لحن میں نغمہ چھیڑ دیا۔
کبھی میری آنکھوں کی آب نے عدن کے موتیوں کو آبرو عطا کی تھی لیکن اب تقدیر نالے پڑھتے پڑھتے کم نور ہو گئی ہیں اس لئے کہ میں غلام ہوں۔
میرے سیاہ بالوں کے جالوں میں گزرے زمانوں کے تمام ناکام عاشقوں اور آنے والی صدیوں کے تمام نامراد معشوقوں کے مقدر کی سیاہی تڑپ رہی ہے۔۔۔
اس لئے کہ میں غلام ہوں۔ میں۔۔۔کہ اگر پتھر پہن لوں تو ہیروں کی طرح جگمگا اٹھیں۔۔۔
اگر صوف پہن لوں تو زر بفت کی طرح جگ مگ جگ مگ کرنے لگے۔۔
۔لیکن آہ۔۔۔
مجھے اونٹ کی مینگنیوں اور گھوڑے کے چابکوں سے کہاں فرصت۔۔۔اس لئے کہ میں مسلمان ہوں۔
میرے جسم کا سونا، ناخن کے لعل، ہونٹوں کا یا قوت ، دانتوں کے گوہر آنکھوں کا نیلم اور ہیرا اگر بغداد اور قاہرہ کے خلیفہ دیکھ لیں تو قیامت تک ان کی تلواریں بے نیام رہیں مگر آہ۔۔۔میں تو مٹی کا ڈھیلا ہوں جس سے سور اپنی تجاست پاک کرتے ہیں۔۔۔ اس لئے کہ میں غلام ہوں۔

لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
میں کہ اگر شہنشاہوں کے حضور میں لاپرواہی سے ایک پیمانہ ڈھال کر رکھ دوں تو سات پشتوں کی تربیت کی ہوئی شہزادیاں مجھ سے تہذیب سیکھنے کیلئے میری جوتیوں کو سلام کریں۔
لیکن میں تو گدھوں کے چرانے والوں کے ساتھ سونے پر مجبور ہوں اس لئے کہ میں غلام ہوں
میں اس قوم کی بیٹی ہوں
جس قوم کے بیٹوں کے ہاتھ تلوار اور پاؤں رکا ب کا مزہ بھول گئے نہیں تو ہندوستان سے مصر تک اور سمر قند سے افریقہ تک کسی نہ کسی نے تو میری فریاد سنی ہو گی ۔
مگر آہ میرے بھائی تو غلام ہیں جنہوں نے اپنے باپ ’’مذہب ‘‘ کا سراتار لیا اپنی ماں ’’زبان ‘‘ کے پیٹ میں چھرابھونک دیا جس نے انہیں جنم دیا تھا
ہائے میرے بھائی تو غلام ہیں۔
مگر کیوں روؤں؟
مجھ جیسی ہزاروں نہیں مجھ سے بدتر جانوروں کی زندگی گزار رہی ہیں میرے ہاتھ تو ہیں۔ پاؤں تو ہیں، آنکھیں تو ہیں، زبان تو ہے باوجود اس کے کہ میں غلام ہوں ہائے میں غلام ہوں۔
بدنصیب مغنیہ چلی گئی۔ محفل اجڑ گئی۔ وہ اٹھ کر چلا آیا۔ گرجا کے حجرے میں لیٹ بھی رہا لیکن گیت کے الفاظ ان کی سماعت پر ہتھوڑے چلاتے رہے۔ اس کے کان بجنے لگے ۔ ایک ایک ہڈی بجنے لگی اور صبح تک کروٹیں بدلتا رہا۔ اس مظلوم مطربہ کے بھائیوں کو تلوار اور کلب کی لذب یا ددلانے کا منصوبہ بناتا رہا۔(جاری ہے)

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 14 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں