سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 12
وہ اس دمشق میں داخل ہوا جو ایک لمبے چوڑے بیمار ستان (شفا خانہ ) کی طرح کراہ رہا تھا۔ دواؤں کی بدبو مریض زخمیوں کی طرح گلی گلی اور کوچہ کوچہ لنگڑاتی پھر رہی تھی گنجان بازاروں کی چہل پہل قبرستانوں میں بیٹھی عود اور لوبان سلگا رہی تھی ۔ مکانوں میں مکینوں کے بجائے شہیدوں کی یادیں آباد تھیں۔ کوئی چھت ایسی نہ تھی جہاں سے فاتحوں اور نیازوں کا سیہ پوش دھواں نہ اٹھ رہا ہو۔ وہ اپنوں اور بیگانوں سے مل کر قصر دمشق کے سامنے دور تک پھیلے ہوئے میدان کی طرف چلا جہاں عیسائی زخمیوں کا ملبہ اور قیدیوں کا انبار پڑا تھا اور جن کا مقدر جنگی مجلس کے احکام کے انتظار میں سر بمہر تھا ۔ انہیں کے قریب فرانس کے دبابے ، آسٹریا کی منجنیقیں اور جرمانیہ کے ہتھیار ڈھیر تھے۔ اس نے کسی نہ کسی طرح وہ زرد خیمہ جس کے سائے میں ایلینور نے چارہ گری کی تھی حاصل کیا۔ وہ نمگیرہ مانگ لیا جس کے نیچے اسے نائٹ بنایا گیا تھا۔ وہ سامان خرید لیا جو ایلینور کے جسم کے لمس کا امین اور اس کی پہلی محبت کا راز دار تھا۔ لیکن کسی چیز نے اس کے زخموں پر مرہم کا کام نہ کیا۔
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 11 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دل کی ویرانی اور بے قراری اسے اس غم کے حضور میں لے گئی جو اپنی ذات کی شکست سے پھوٹتا ہے ۔ لیکن آہنی شخصیتوں کے آسمانی حوصلوں سے نمو پاکر ساری کائنات پر چھا جاتا ہے ۔ اور اس عظیم الشان میلے میں انسان اپنی ذات کو ٹوٹے کھلونے کی طرح بھول جاتا ہے اور ستاروں کا شکار کھیلتا ہے۔ ماہتا بوں پر کمند ڈالتا ہے اور آفتابوں پر گھوڑے اٹھاتا ہے۔
جب اسلامی سلطنت کے سرحدی شہروں سے آنے والے بدنصیبوں کی تعداد بڑھتی گئی اور ان کے ساتھ آئے ہوئے خونی افسانوں کی سفا کی نے یقین کو زخمی کر دیا۔ تب اس نے غنیمت میں آئے ہوئے ایک جرمن گھوڑے پر سوتی چار جامہ رکھا اور خودرومانیہ کے راہب کا زعفران چغہ پہنا اور آبنوس کی صلیب گلے میں ڈال کر شابک کی طرف کوچ کیا۔
شابک کو سیراب کرنے والی تین نیزوں کے برابر چوڑی نہر زبیدہ کا چمکیلا پانی دیکھتے ہی گھوڑا اچھلنے لگا اور ہنہنانے لگا اور شہر کی سفید، بھوری اور سرخ عمارتوں کا سلسلہ نظرآنے لگاجیسے کھجور کے درختوں کے نیچے مصری قالین ٹانگ دیئے گئے ہوں۔ وہ پانی سے آسودہ تھا لیکن جانور کی دلداری کی خاطر اتر پڑا۔ نہر کے کنارے دس پندرہ شامی مسلمان زرد دھاری کی پرانی میلی عبائیں پہنے بچے کھچے عمامے باندھے ہاتھ منہ دھو رہے تھے ، پانی پی رہے تھے ۔اس نے گھوڑے کو چھوڑا اور ہرے بھرے کنیر کے درخت سے مسواک توڑنے لگا۔ گھوڑے نے لپک کر منہ پانی میں ڈال دیا کہ ایک طرف سے ہتھیاروں کے کھڑ کھڑانے اور گنگنانے کی آوز آئی۔ ایک نائٹ زرہ بکتر پہنے (جس کے سینے پر سرخ عقاب بائیں شانے پر جھولتی ہوئی بھاری ڈھال پر سیاہ صلیب کا نقش تھا۔ ) نیزہ باندھے گھوڑے پر سوار مسیح کے گیت کا قصیدہ گاتا چلا آرہا تھا ۔ نائٹ نے اس کودیکھ کر سینے پر صلیب بنائی۔ اسی وقت نہر کے کنارے آدمیوں اور گھوڑے پر نظر پڑی۔ نائٹ اپنا راستہ چھوڑ کر نہر کے پشتے پر چڑ ھ گیا اور مسلمانوں پر گھوڑا ریل دیا اور تلوار کھینچ کر ان پر ٹوٹ پڑا۔ وہ ذبح ہوتی ہوئی بھیڑوں کی طرح چلانے لگے۔ اچھے خاصے ہاتھ پیروں کے دس بارہ آدمیوں سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ بھاگ کر ہی اپنی جان بچالیں۔ وہ چار چھ کو قتل کر کے بقیہ کو زخمی کر کے ان کے پاس آیا۔
’’مقدس باپ ان پلید مسلمانوں نے بہاؤ پر بیٹھ کر اپنا نجس پانی آپ کے گھوڑے کو پلایا۔ اس کیلئے طبقہ داؤ دیہ کا نائٹ آپ سے معافی مانگتا ہے۔ ‘‘
اس نے پھر سینے پر صلیب بنائی اور بائیبل کی آیتیں پڑھتا چلا گیا۔ اور وہ اسی طرح منہ میں مسواک دبائے مجسم حیرت بنا کھڑا رہا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے زخمی ، سنگین زخمیوں اور مردوں کو رو دھو کر لا دلے گئے ۔
جب وہ ہوش میں آیا تو رات بڑھنے لگی تھی اور ہوا خنک ہو چلی تھی اور گھوڑا اس کے سامنے کھڑا منہ کا لوہا چبا رہا تھا۔ اس نے اٹھ کر گردن پر تھپکی دی اور سوار ہو کر شہر کی طرف چلا جس کے چراغوں سے جگنوں چمکتے نظرآرہے تھے ۔ وہ بستی کی تنگ تاریک پتھریلی گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک مکان کے دروازے سے چراغ کی روشنی کی تھر تھراتی دھاری نظر آئی۔ اس نے گھوڑا روک لیا اور سیڑھیوں پر چڑھ کر دیکھا ۔ ایک آدمی تھر تھراتی دھندلی روشنی میں مٹی کے ڈھیر کی طرح بیٹھا بکری دھو رہا تھا۔ چپ پردہ کھڑا ہو گیا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے راہب کو دیکھ کر سینے پر صلیب بنانے لگا۔ اس نے مطمئن ہو کر مسیح کی رحمت کا یقین دلایا۔
’’تم پر مسیح کی رحمتیں نازل ہوں۔۔۔مجھے آج کی رات اتنی جگہ دے دو کہ کمر سیدھی کر لوں۔ ‘‘
’’یہ ۔۔۔یہ تو ہماری نجات کا سبب ہو گا مقدس باپ ۔‘‘
لیکن اس کی آواز پر بد حواسی کا عکس تھا اور چہرے پر مصیبت ٹوٹ پڑی تھی۔ اس کو بڑی حیرت ہوئی ۔ پھر وہ اس کے ساتھ مکان میں داخل ہو گیا۔ صحن کے ایک طرف دالان میں چراغ جل رہا تھا۔ پلنگ پر ایک نسوانی سایہ دو بچوں کی پر چھائیاں سمیٹے بیٹھا تھا۔ وہ دوسری سمت کے دالان کے اس تخت پر بیٹھ گیا جس میں ایک پائے کی جگہ پتھر لگے تھے اور بیچ کے تختے کے نیچے جھک گئے تھے۔ پھر اس گھر میں بھونچال مچ گیا۔ اکلوتا چراغ لکڑی کا چراغ دان سمیت اس کے دالان میں آگیا۔ دالان کے پردے کھول کر اس کے دالان کے دروں پر ڈال گئے ۔ پلنگ پر کھجور کی چھال سے بھر اکپڑے کا گدا بچھایا گیا۔ گرم پانی سے اس کے ہاتھ دھلوائے گئے اور بکری کا دودھ ، جو کی تازی روٹی اور خشک کھجوریں کھانے میں رکھی گئیں۔ اور پھر اس کے گھوڑے کو اندر کے کوشک میں باندھ کر دروازے پر چٹائیاں ڈال دی گئیں اور وہ لیٹ کر ، کمبلوں میں لپٹ کر آج کے مقتولوں کی تقدیر کے متعلق سوچتا رہا کہ جب ان کی لاشیں گھر پہنچی ہوں گی تو بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں پر کیا کچھ گزر گیا ہو گا اور اس کے گھوڑے کوکیسی بددعائیں دی ہوں گی۔
دوسرے دالان سے بچے کے رونے کی آواز آئی اور اس کے بستر کے قریب ایک جوان عورت آکر کھڑی ہو گئی ۔ مدہم روشنی میں بھی اس کی آنکھوں سے بیچارگی اور چہرے سے نامرادی ٹپک رہی تھی۔ اس نے اپنے کالے، لانبے ، کثیف کرتے کی کمر پر بندھی ہوئی بالوں کی رسی کھولی اور سرکا رومال اتار کر کھونٹی پر ٹانگ دیا اور کرتے کے دامن پکڑ لئے جس سے اس کے گندمی گداز گھٹنے چمک اٹھے۔
’’کیا کرتااتاروں ؟‘‘
’’کیوں؟ ‘‘ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔
’’میں۔۔۔میں آپ کی خدمت کے لئے ۔ ‘‘ اس کی آواز کا گلا گھٹ گیا۔
’’خدمت؟‘‘
اور پردہ اٹھا کر وہ ادھیڑ آدمی اندر آگیا جس کی گود میں دو تین برس کا ایک مرگھلا لڑکا بلک رہا تھا۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
’’ قسم میرے گھر میں یہی ایک بیٹی ہے ۔۔۔جسے میں نے مقدس باپ کی خدمت کے لئے بھیج دیا ہے۔ آپ اس بچے کی فکر نہ کریں۔یہ اس کے پاس بھی روتا ہے ۔ یہ تو اس دن سے روئے جاتا ہے جس دن اس کا باپ اپنے آقا سے گستاخی کے جرم میں قتل ہوا ہے۔ یہ تو یوں بھی میرے پاس سوتا ہے ۔ آپ سکینہ کے ساتھ آرام کریں سو جائیں۔۔۔میں ، میں اسے لئے جاتا ہوں۔‘‘
اور وہ بلکتے ہوئے مری مری آواز میں روتے ہوئے بچے کو کندھے سے لگا کر باہر چلا گیا۔ وہ عورت اپنی کالی آنکھوں سے اس ہرنی کی طرح پردے کی دراز سے جھانکتی رہی جس کا بچہ گرفتار کر لیا گیا ہو ۔ وہ بڑی دیر تک اپنے کمبلوں میں لپٹا ساکت بیٹھا رہا۔ سکینہ اسی طرح کھڑی رہی۔ پھر اس نے اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کیا اور نماز کیلئے کھڑا ہو گیا۔ سلام پھیرا تو دیکھا کہ سکینہ کے پاس اس کا باپ کھڑا ہوا ہے اور اسے گھور رہا ہے۔ اس نے اشارے سے ان دونوں کو رخصت کر دیا۔ رات لیٹے لیٹے کاٹ کر اندھیرے میں فجر کی نماز پڑھی اور اس گھر سے نکل بھاگا جس کے درودیوار اسے کھائے جاتے تھے ۔ جب وہ شابک کے گرجا کی چمکیلی غلام گردش میں بچھی ہوئی ساگون کی کرسی پر بیٹھا ہوا گرجا کے نگہبان سے پادری کے گھر کا پتہ پوچھ رہا تھا تب ایک مسلح سوار دروازے پر گھوڑے سے اترا اور اسے غور سے دیکھ کر اپنے ساتھ چلنے کی گزارش کی۔ شابک کا عیسائی عامل بھورے پتھر کے شاندار محل کے مخملیں سبزے پر کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ اس کی پشت پر ہتھیار بند سپاہیوں کا ایک دستہ کھڑا تھا اور قدموں میں سکینہ کا باپ دوزانو بیٹھا ہوا تھا ۔ وائی شابک نے کھڑے ہو کر تعظم دی اور کرسی پیش کر کے بولا۔
’’مقدس باپ اس کافر کو جانتے ہیں؟ ‘‘
’’ہاں میں اسی کی تلاش میں دمشق سے نکلا تھا۔ مجھے پتا چلا تھا کہ میری مسلمان کنیز جو شام کے ایک مجاہد کی بیٹی ہے اس کے یہاں روپوش ہے ۔ جب وہ مجھے اس کے گھر میں نظر نہ آئی تو میں نے مسلمانوں کے طریقے پر نماز پڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے اور اس کنیز کو عیسائی ثابت کرکے سراغ لگانا چاہا لیکن شاید مجھے غلط اطلاع ملی تھی۔
اس نے گردن ہلائی اور مڑ کر سپاہیوں کو حکم دیا۔
’’مقدس باپ پر مسلمان ہونے کا پلید الزام لگانے کے جرم میں اس کی زبان کھینچ لو۔‘‘
سپاہی اس کی طرف جھپٹے لیکن وہ بیچ میں آگیا اور والی سے درخواست کی۔
’’چونکہ اس آدمی نے میری خدمت کی ہے اور کھانا کھلایا ہے اس لئے میری خاطر اس کی خطا بخش دی جائے۔ ‘‘ اور مقدس باپ کے سفارشی کلمات پر اس نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا اور سینے پر صلیب بناتا بد حواس ہو کر بھاگا ۔
’’ان کتوں کو ہم نے اسی خدمت کے لئے زندہ رکھا ہے۔ ان کا فرض ہے کہ ہماری چاکری کریں۔ خیر آپ فرماتے ہیں تو درگزر کی جاتی ہے ۔ ‘‘
شابک ہی میں اس نے اپنے اس گھوڑے کو بیچ دیا جس پر کئی مسلمانوں کا خون تھا، جو کئی خاندانوں کی بربادی کا سبب بنا تھا اور جاڑے کا موسم شابک کے قلعے اور مضافات کی چوکیوں کے استحکام کی دیکھ بھال میں گزرا ۔(جاری ہے)
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 13 پڑھنےکیلئے یہاں کلک کریں