سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 11

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 11
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 11

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دور کوشکوں کے دونوں سروں پر نیزوں کے اژد ہے مشعلوں کی زبان نکالے کھڑے تھے جن کی دھندلی روشنی میں مسلح عورتیں پر چھائیوں کی طرح ستونوں سے لگی کھڑی تھیں۔ اندر آکر اس نے خود بکتر اور دستانوں کے کانٹے درست کئے۔ نیزہ اور ڈھال سنبھال کر نیچے آیا۔ وہ پہرہ داروں کی سوالیہ نگاہوں سے بے نیاز اصطبل پہنچا، اپنے گھوڑے پر اپنے ہاتھ سے ساز رکھ کر سوار ہو گیا۔ ملکہ عالم کے محافظ نائٹ کی سواری دیکھتے ہی درگیروں نے پھاٹک کھول دیا۔ حمص سے نکلتے ہی ہر قدم پر دل اس کی باگ پکڑ لیتا اور انانیت آگے دھکیل دیتی ،سورج کی پہلی کرن کے ساتھ وہ حمص کے قلعہ کی فصیل پر چڑھ رہا تھا۔
کمربستہ لشکر سارا دن یروشلم کے بادشاہ اور کرک کے ریجینا لڈ کی کمک کا انتظار کرتا رہا۔ تمام دن شہنشاہ کو نریڈ، لوئی ہفتم، ملکہ ایلنیور ، نواب ، شہزادے ، نائٹ ، پادری اور فوجی سردار دمشق پر حملے کا منصوبہ بناتے رہے اور وہ دن بھر ملکہ کے کمرہ خاص کی محراب میں ہتھیار پہنے کھڑا رہا۔ ساری رات وہ سوتے میں جاگتا رہا اور جاگنے میں سوتا رہا اور ملکہ کے چہرے کی ایک جھلک کیلئے ترستا رہا۔ دوسرے دن کے غروب ہوتے ہوتے افرنجیوں کے ڈھول گرجنے لگے، قرنا چیخنے لگے۔ پہلے وہ بھی یہی سمجھا کہ شاہ یروشلم کی پیشوائی ہو رہی ہے۔ پھر انکشاف ہوا کہ دمشق کا شامی لشکر حرکت کر رہا ہے اور پچاس ہزار سوار حمص کو تین طرف سے گھیرے ہوئے بڑھ رہے ہیں جن کے پیچھے بغدادی دیابے اور صلیبیوں سے چھینی ہوئی مِنجنیقیں ہیں۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 10 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آرام سے آراستہ فوجیں اٹھیں اور گھوڑوں کی موجوں پر سوار ہو گئیں۔ آگے آگے لوئی ہفتم خالی موزوں پر مہمیز لگائے مخمل کی قبا پہنے ، ننگے سر فرانسیسی نوابوں اور نائٹوں کے جھرمٹ میں نکلا۔ اس کے پیچھے فرانسیسی افواج تھیں۔ اس کے اور کونریڈ کے لشکر کے درمیان صلیب مقدس تھی جسے ستاروں کی طرح حسین کنواریاں اور فرشتوں کے مانند پر جلال پادری اٹھائے ہوئے تھے جو آنسو لٹا رہے تھے اور بائبل کی آیتیں پڑھ رہے تھے۔ ان کے پیچھے طلایہ کے سوار تھے جو تیرا ندازی میں شہرت رکھتے تھے ۔ ان کی کمانوں پر چمڑا چڑھا ہوا تھا اور پیٹھ پر تیروں کے گٹھر تھے ۔ وہ آج بھی ملکہ کے پہلو اور مسلح عورتوں کے جلوس میں گھوڑا کدا رہا تھا۔ انہوں نے سرعت کے ساتھ دریائے اردن پارکیا اور اس کے مغربی کنارے پر پھیل کر مور چے بنانے لگے ۔ یروشلم ، صور، عکہ اور عسقلان سے آئے ہوئے خیمے کھڑے کئے کیوں کہ محاصرہ دمشق ہی کے زمانے میں شیر کوہ نے صلیبیوں کی ساری قیام گاہ لوٹ لی تھی اور پھونک دی تھی اور یروشلم کے بار بردار اونٹوں سے اتاری ہوئی غذا تقسیم ہوئی۔ ملکہ نے لوئی سے دوبار گاہِ کی پشت کی چھولداری اسے عنایت کی۔ ہر طرف سے مطمئن ہو کر اس نے خنجر سے نمدے کی دیوار چاک کی اور اس کے پلنگ کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا جس کے پائے نیچے اور بستر کھردرا تھا۔ چھوٹے نیزے کے برابر شمع کی تیز روشنی میں ملکہ اسے خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ اس نے گھٹنوں پر جھک کر دونوں ہاتھوں میں ملکہ کا ہاتھ تھام لیا۔ گرم، ملائم، سفید ، خوشبودار ہاتھ جس کا لمس اس کی روح میں سرایت کر گیا تھا ۔ پھرا س نے بہشت کا وہ زندہ گلاب اپنی آنکھوں میں رکھ لیا۔
’’ہمارے لئے کیا حکم ہے ۔ ‘‘ملکہ نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
’’حکم یا مشورہ ۔‘‘ملکہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ لیا۔
’’ہمارا مشورہ ہے کہ تم واپس چلے جاؤ۔ دمشق پر ناکامی میں کونریڈ کو تمہارا ہاتھ نظر آیا ہے ۔ ہم نہیں چاہتے کہ تمہاری موت ہمیں کو نریڈ کے خلاف تلوار اٹھانے پر مجبور کر دے اور آپس میں لڑتے ہوئے صلیبی لشکر غلام ہو کر دمشق کے بازاروں میں بک جائیں‘‘
’’بس یا اور کچھ ؟ ‘‘
’’ہاں ہماری دعا ہے کہ تم صحیح سلامت دمشق پہنچ جاؤ ۔ کسی آہو چشم نمازی بنت عمر سے شادی کر لو۔ لڑکے پیدا کر و اور بوڑھے ہو جاؤ اور قصر دمشق کے خنک دلانوں میں مودب بیٹھے ہوئے پوتوں، نواسوں سے جب دوسری صلیبی لڑائی میں اپنے کارنامے بیان کرو تو تمہاری آواز رندھ جائے، تمہاری آنکھیں بھیگ جائیں اور تم طلائی کام سے مزین آستینوں سے آنسو پونچھ کر اٹھ جاؤ اور شہتوت کی چھاؤں اور گلاب کی جھاڑیوں کی آڑ میں بچھی ہوئی سنگِ سماق کی کرسی پر بیٹھ کر روتے رہو اور جب تمہارے بے گناہ خادم مارگیلی اور نبیذ لے کر حاضر ہو ں تو تم ان پر برس پڑو اور تمہاری تنہائی کی حفاظت پر زریں کمر خواجہ سراہلالی تلواریں علم کر کے کھڑے ہو جائیں۔ ‘‘
پھر کوئی آواز نہ آئی۔۔۔دیر تک کسی کو زبان ہلانے کا یارانہ رہا۔
’’یوسف۔۔۔اگر تمہارے ہاتھ تھک جائیں اور تلوار پر زنگ چڑھ جائے تو ہمارے پاس چلے آنا۔ مسیح کی قسم ہمارے قصر کے دروازے تمہیں خوش آمدید کہنے کیلئے عمر بھر کھلے رہیں گے۔۔۔عمر بھر کھلے رہیں گے۔‘‘
’’ہم صبح سوار ہو کر نکلیں گے اردن کے کسی سنسان گھاٹ پر کوئی بہانہ کر کے تم کو اترنے کا حکم دیں گے۔ وہ گھڑی ۔۔۔وہی گھڑی ہماری جدائی کی گھڑی ہو گی۔‘‘
باقی تمام رات ایک دوسرے کو دیکھنے میں کٹ گئی ۔ دیکھنے والی آنکھوں کے دیکھنے میں کٹ گئی۔
اور اب سامنے دریائے اردن بہہ رہا تھا ۔اس کے مشرقی کنارے پر جنگلی درختوں کا گنجان خاموش جنگل کھڑا تھا۔

ملکہ کی ذات خاص کار سالہ علموں اور بیرقوں کی چھاؤں میں پیچھے کھڑا تھا جن کے ہتھیار اور بکتر دھوپ میں جگمگارہے تھے ۔ ان کے آگے خود ملکہ کھڑی تھی جس کے خود کی کلغی کے ہیرے دھوپ میں تڑپ رہے تھے، صلیب دمک رہی تھی اور سرخ آنکھیں سفید گھوڑے کی شعلہ رنگ کلغی پر جمی ہوئی تھیں۔ ان کے بائیں دستانہ پوش ہاتھ میں گھوڑے کی سنہری زنجیر تھی۔ داہنے ننگے ہاتھوں میں سونے کا عصا تھا جس کے سر پر یا قوت کا تاج تھا اور بدن پر جواہرات جڑے تھے ۔ گھوڑا دم کی چنور کر کے گردن جھکا تا تو ملکہ کی تلوار کا زریں نیام گھوڑے کی آہنی پاکھر سے ٹکرا کر بج اٹھتا۔
’’جون دی نائٹ ۔‘‘
’’ملکہ عالم ۔‘‘
’’دریا اتر کر جاؤ اور دشمن کی خبر لے کر آؤ‘‘۔

لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔

وہ اپنے بکتر اور تلوار کو کھڑا کھڑاتا ہوا ابلق سے نیچے اترا اور مشرق کے بادشاہوں کی طرح باوقار قدم رکھتا ملکہ کی سیدھی زریں رکاب کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ سرخ بوجھل ، بغیر آنسو ؤں کے روتی آنکھوں سے ملکہ کو دیکھا ۔ نیام سے تلوار نکالی اس پر بوسہ دیا اور نیام کر لیا۔ملکہ نے جو اب میں جوگھوڑے کی کلغی دیکھ رہی تھیں اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ اس نے ننگے تھر تھراتے ہاتھ کی پشت پر ہونٹوں کے انگارے رکھ دیئے اور بے ادبی کی حد تک تاخیر کرتا رہا۔ پھر الٹے قدموں چل کر اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ نصف دستہ صفوں سے نکل کر اس کے گھوڑے کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ ملکہ نے اس کی طرف پلٹ کر دیکھا اور آخری بارسماعت کو لالہ زار کر دیا ۔
’’مسلمانوں کے ایک لشکر کیلئے جون دی نائٹ کافی ہے۔ ‘‘
سوار اپنی جگہ قائم رہے۔ وہ گھوڑے کو ترچھا چلاتا ہوا خود کے چھجے کے سائے سے ملکہ کو دیکھتا ہوا اردن میں اتر گیا ۔ کنارے پر پہنچ کر گھوڑا پھیر دیا اور اسے الٹے قدموں دھکیلتا ہوا ملکہ کو اسی جگہ، اسی طرح دیکھتا ہوا درختوں کے ہجوم میں کھو گیا۔
اس نے ابلق کی لگام ڈھیلی کر دی۔ جنگلوں اور گھاٹیوں کے چور راستوں پر وہ چکاروں کی طرح طرارے بھرنے لگا۔ (جاری ہے )

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں