سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 10

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 10
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 10

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اب اس نے تلوار بے نیام کر دی جس کی جھنکار سے قبہ گونج گیا اور نائٹوں کی طرح گھٹنوں پر گر کر تلوار کے پھل کو بیچ سے چوم کر دونوں ہتھیلیوں پر رکھی اور اسی طرح بیٹھا رہا۔ ملکہ اس کا چہرہ پڑھتی رہیں اور آنسوؤں کے دو قطرے ان کے رخساروں پر لرزنے لگے۔
’’ملکہ عالیہ مسلمان اپنے دین کے بعد اپنی تلوار کی ناموس کے لئے جیتا اور مرتا ہے۔ ‘‘
ملکہ نے تلوار اس کے ہاتھوں سے اٹھا کر نیام کر دی اور جانے کیلئے مڑیں۔ اس نے اٹھ کر بازو پکڑ لیا اوراس نے دیکھا کہ جنت کی سب سے حسین حور زرد مخمل لباس پہن کر اس کے سینے سے لگ گئی ہے ۔ وہ اسی طرح کھڑے رہے ۔ کئی لمحے بیت گئے، کئی صدیاں بیت گئیں جس کے پاس جتنے آنسو تھے اس نے لٹا دیئے۔ جب آنکھیں سوکھ گئیں اور ملکہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ دونوں مسکرا دیئے۔ معصوم بچوں کی سی بے لوث ، بے ساختہ مسکراہٹ بھی کتنی مہنگی ہوگی ہے ۔ کسی کسی کو اور کبھی کبھی نصیب ہوتی ہے۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 9 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شام قریب تھی اور وہ دمشق سے دور تھے کہ ایک لشکر طلوع ہوا جس کے سر پر فرانس کا پرچم سایہ کئے ہوئے تھا۔ سپہ سالار ملکہ کو سلامی دے کر گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔
ہمارے لشکر نے محاصرہ اٹھا لیا ہے اور حمص تک پیچھے ہٹ گیا ہے ۔ آپ ہماری رہنمائی میں تشریف لے چلیں۔‘‘
ملکہ نے داہنے ہاتھ پر چھلبل کرتے گھوڑے پر سوار اور دھوپ میں جگمگاتے بکتر میں ملبوس جون دی نائٹ کو دیکھا اور اس نے آنکھیں جھکالیں۔ جب وہ حمص کے نیچے صلیبوں کی قیام گاہ میں پہنچا تو معلوم ہوتا تھا مردے قبر سے نکل آئے ہیں۔ اجڑے ہوئے تاریک خیموں میں سپاہی غلے کی بوریوں کی طرح دھنسے پڑے تھے۔ دھندلی دھندلی آگ کی روشنی میں ۔۔۔وحشت ناک ٹمٹماتی آنکھیں پھاڑے ایک دوسرے کے دل میں جھانک رہے تھے ایک ایک تلوار کے بدلے ایک ایک روٹی مانگ رہے تھے اور مردہ گھوڑوں کا گوشت بھون رہے تھے ۔ ننگے جسموں سے تیر نکالے جا رہے تھے جیسے مچھلی کے قتلوں سے کانٹے کھینچے جاتے ہیں۔ ایک آدمی ایک زخمی کی چھاگل کھول رہا تھا اور وہ مسیح کا واسطہ دے کر ایک گھونٹ پانی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ اس کے آگے پیچھے چلنے والے سوار اپنے گھوڑوں سے کچلے جانے والوں کی فریادوں کے لیے بہرے ہو گئے تھے۔ کونیرڈا اور لوئی ہفتم حمص کے قلعے میں مقیم تھے۔ بیرونی حصہ کو نریڈ کے قبضہ میں تھا اور اندرونی عمارتوں پر لوئی ہفتم کا عمل دخل تھا۔ تیسری منزل کا ایک ہشت پہلی برج اس کی حفاظت میں دیا گیا ۔ خبر گرم تھی کہ مسلمانوں کا تازہ دم لشکر رات کو دھاوا کرے گا۔ اس لئے بھوکے پیاسے زخمی شکست خوردہ ایک لاکھ کے لشکر کو کمر بستہ رہنے کا حکم تھا۔ وہ سوکھے گوشت کے ٹکڑے اور لکڑی کے مانند سخت بسکٹ پانی کے ساتھ نگل کر اور دیوار سے ڈھال لگ کر نیم دراز ہو گیا اور اپنے اس خوف کو بھٹکا نے کی کوشش کرنے لگا جو اس کے دل پر منڈلا رہا تھا۔
اور اس رات جب وہ تیسری منزل کی تمام برجیوں کا چکر کاٹ کر اپنے خیمے میں بچھی ہوئی شام کی جوان چاندنی پر بیٹھا تھا اور سنسان صحن کے اس پار نیم روشن دالانوں میں پہرہ دیتی ہوئی عورتوں کے سائے انسانی ستونوں کی طرح ساکت ہو گئے تھے۔اسی وقت اس نے ایک پر چھائیں دیکھی جو اپنے ساہ لبادے کے دامنوں کو زمین پر ڈالے ہوئے وقار کے ساتھ اس کے برج کی طر ف آرہی تھی۔ ان کے آتے ہی اس نے ان تمام دروازوں پر پردے ڈال دیئے جو عمارت کے دوسرے حصوں سے نظر آتے تھے۔ صرف ایک درجہ جو نیچے چوڑی چکلی خندق کے سامنے تھا، برہنہ رہا۔ اس کے راستے سے برج کے فرش پر چاندنی کا پتلا سا بستر بچھا رہا پھر اس نے اپنے دستانہ پوش ہاتھوں سے سینے پر ڈھیر ریشم کے لچھوں کو اٹھایا تو ملکہ کی آنکھوں اور رخساروں اور صلیب کے ہیروں نے سارے برج کو منور کر دیا۔ پھر ان کی آواز کے ترنم سے سارا برج کھنکنے لگا۔
’’تم کون ہو۔۔۔کہاں کے ہو۔۔۔کیا ہو۔۔۔اپنے خدا کی قسم ہم کو بتلاؤ۔‘‘
’’ہمارا نام یوسف ہے ‘‘۔
’’اور؟‘‘
’’ہم والی دمشق کے ولی عہد ہیں۔‘‘
’’اور ؟‘‘
’’اور ؟ ۔۔۔اور یورپ کی ایک عظیم الشان ملکہ کے ناچیز ۔۔۔‘‘
ملکہ کے ہاتھوں نے اس کے ہونٹوں کو جملہ مکمل کرنے کی اجازت نہ دی۔
’’تم مشرق کے کس شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہو؟‘‘
’’مشرق کے شاہی خاندانوں کی ماں تلوار ہوتی ہے جو ہماری کمر میں موجود ہے اور جس پر ہمارا حق محفوظ ہے۔‘‘
’’نہیں، تم عرب ہو یا سلجوتی۔۔۔عباسی ہو یا فاطمی؟‘‘
’’ہم کُرد ہیں جنہوں نے عرب پر گھوڑے اٹھائے ہیں اور عجم پر جھنڈے اڑائے ہیں۔‘‘
’’تم جانتے ہو کہ ہم کون ہیں؟ ‘‘
’’آپ کے لئے یہی سب سے بڑا شرف ہے کہ ہم آپ کو ۔۔۔‘‘
دمشق کے مشہور عالم گلابوں سے کہیں نازک ہاتھ نے اس کو روک دیا۔
’’ہماری ذاتی ریاست ’’اینٹیک ‘‘ فرانس کی سلطنت سے کہیں بڑی ہے ، زرخیز ہے اور آباد ہے۔ فرانس کا تخت ’’اینٹیک ‘‘ کا محتاج ہے ۔ ’’اینٹیک ‘‘ کا تخت فرانس سے بے نیاز ہے ۔ ہم چاہتے ہیں۔۔۔اس تاریکی میں کوئی ستون ہماری جاسوسی تونہیں کر رہا ہے؟‘‘
اس نے ملکہ کو سینے سے الگ کیا ۔ تلوار کھینچ کر باہر نکالا، ہر طرف سے اطمینان کر کے واپس آیا۔
’’ہماری آرزو ہے کہ تمہارے سوا کوئی آرزو نہ کریں۔‘‘
’’کیا اچھا ہوتا کہ تمہارے سر پر ’’اینٹیک ‘‘ کا تاج ہوتا اور تمہارے قدموں میں ’’اینٹیک ‘‘ کا تخت ۔ ‘‘
’’لیکن ملکہ عالم ۔‘‘
’’مذہب تمہاری ذاتی چیز ہے جسے تم اپنی ذات کی تنہائی تک محدود رکھ سکتے ہو۔‘‘
’’یہ کیسے ممکن ہے ؟‘‘
’’بادشاہت کے دوسرے ناگوار لوازمات کی طرح چند مذہبی رسوم کی ظاہری بجا آوری بھی برداشت کی جا سکتی ہے۔‘‘
’’لوئی ؟۔۔۔لوئی کو پرانے تاج کی طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔‘‘
’’لیکن تم چپ ہو ۔
’’تم بولتے کیوں نہیں؟
’’بولو۔۔۔تمہاری بھیانک خاموشی سے ہماری ہڈیاں پگھلی جاتی ہیں۔‘‘
’’تم خاموش ہو۔۔۔محبت ایک لفظ ہے جسے زبان کی ایک حقیر سی لغزش ادا کر دیتی ہے لیکن اس پر ثابت قدم رہنا بڑے بڑے بادشاہوں کے لئے بھی دشوار ہے ۔‘‘
’’یوسف ۔۔۔اگر تم مشرق میں ایک سلطنت پیدا کر سکو اور ہم کو مذہب کی ذاتی آزادی دینے کا عدہ کرو تو ہم مغرب کا ایک جلیل المرتبت تاج اتار کر ایشیائی گورنر کے چھوٹے سے ولی عہد کی سوتی پگڑی قبول کر سکتے ہیں۔‘‘

لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
’’تم اسی طرح ساکت ہو ۔۔۔لوئی کا خیال تھا کہ ہم آدمیوں کو پرکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔۔۔لیکن آخر کار اس کی بہت سی باتوں کی طرح یہ بات بھی ناقابل قبول ہوئی۔ ہم نے جب تم کو دیکھا تو محسوس کیا کہ ہم نے جس چیز کے لئے ایشیا میں نزول فرمایا تھا وہ میسر آگئی۔ جب تم نے ہمارے ذاتی رسالہ داروں کا شاندار لباس زیب تن کیا تو اس خیال کو اور تقویت ہوئی اور اجب تم نے خالص ایشیائی شہزادوں کی جلادت کا اظہار کر کے ہماری زندگی کا سب سے بڑا شیر گیدڑ کی طرح شکار کیا تو ہمیں لوئی کے قول پر الہام کا دھوکا ہوا اور اپنی نگاہ پر ناز لیکن۔۔۔
’’لیکن اس وقت انکشاف ہوا کہ ہم نے چاندنی سے قباتراشتے کی کوشش کی تھی۔ ہم نے سنگین مجسموں سے رقص کی فرمائش کی تھی۔ ہم نے ایشیا ئی افسانوں کو حقیقت میں بدل دینے کا خواب دیکھا تھا ۔‘‘
’’ملکہ عالم ‘‘۔
’’مشرق کے گورنر کے ولی عہد ہمارے دیس کی کنواریاں دغا باز عاشقوں کا خون پی لیا کرتی ہیں لیکن تم ۔‘‘
’’ملکہ عالم ۔۔۔ تاج بادشاہوں کے لئے اتارے گئے ہیں۔ اگر کوئی بیوقوف سپاہی اپنے سر پر رکھ لیتا ہے تو تاج کا کچھ نہیں بگڑتا ہے۔ سپاہی کی گردن تلوار کا غلاف ہو جاتی ہے۔‘‘
’’تمہاری صورت کی طرح تمہاری زبان میں بھی جادو ہے ۔ کاش۔۔۔‘‘
جملہ مکمل ہونے سے قبل برج ان کی خوشبودار روشنی سے خالی ہو گیا اور پہلی بار اسے اپنی غربت کا احساس ہوا۔ ایسی غربت جو بادشاہت سے کم پر رضا مندنہیں ہو سکتی۔ پہلی بار اسے اپنے سینے میں خنجر سا تیرتا محسوس ہوا ور وہ درد کی شدت سے بلبلا اٹھا اور برج کے باہر نکل آیا۔(جاری ہے)

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 11 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں