میں نے بڑی محنت سے سارے کام ایک ساتھ شروع کروا دئیے، کچھ ساتھیوں نے تعاون کیا اور کئی ایک اچھا کنٹرول آ جانے پر نالاں اور خوفزدہ تھے

میں نے بڑی محنت سے سارے کام ایک ساتھ شروع کروا دئیے، کچھ ساتھیوں نے تعاون کیا ...
میں نے بڑی محنت سے سارے کام ایک ساتھ شروع کروا دئیے، کچھ ساتھیوں نے تعاون کیا اور کئی ایک اچھا کنٹرول آ جانے پر نالاں اور خوفزدہ تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:321
ہسپتال کی اعلیٰ انتظامیہ بہت ہی قابل اور پیشہ ور ڈاکٹروں کے گروپ پر مشتمل تھی، اور ہسپتال کے عمومی معاملات پر نظر رکھنا ان کے بڑے رتبے سے لگا نہیں کھاتا تھا اور نہ ہی وہ اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے اس مقصد کے لیے صحیح طور پر وقت نکال پاتے تھے۔میں نے ہسپتال کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیا، جہاں جہاں تبدیلیوں کی گنجائش تھی ان کو جانچا اور مستقبل کا اپنا ایک لائحہ عمل ترتیب دے کر اعلیٰ انتظامیہ کو پیش کر دیا، جسے انھوں نے پسند کیا اوربڑی شفقت سے منظور کر لیا۔ بے شمار مشکلات کے باوجود میں بڑی کامیابی سے اس منصوبے کو لے کر آگے بڑھا۔ جس میں ہسپتال کی تنظیمِ نو، نظام کی درستگی، ملازمین کی تنخواہوں اور دوسرے مالی فوائد میں با قاعدگی اور ہسپتال میں کمپیوٹر کا نظام متعارف کروانا میری اولین ترجیحات تھیں۔ میں نے بڑی محنت سے یہ سارے کام ایک ساتھ شروع کروا دئیے، کچھ ساتھیوں نے تعاون کیا اور کئی ایک اچھا کنٹرول آ جانے پر نالاں اور خوفزدہ بھی تھے۔ سب سے بڑی کامیابی مجھے اس وقت ہوئی جب میں ہسپتال کے ملازمین کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو گیا کہ ہم سب ایک ٹیم کی صورت میں کام کریں گے اور ہر کوئی اپنے آپ کو آئندہ آنے والے فیصلوں میں شامل سمجھے گا۔ اس کے لیے ان کا اعتماد اور تعاون حاصل کرنا ضروری تھا۔ میں نے ان کی اپنے تک پہنچ کو اتنا سہل بنا دیا تھا کہ وہ بغیر کسی جھجک یا روک ٹوک کے مجھ تک پہنچ جاتے تھے۔ مجھے اپنے غیر ملکی اساتذہ کی بات یاد تھی کہ اگر ایک خط لکھنے سے،ٹیلی فون کی ایک کال سے، یا اپنی نشست سے اٹھ کر کسی کے ساتھ جانے سے اس کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو ضرور ایسا کردو۔ میں نے ایسا ہی کیا،نتیجہ بہت جلد سامنے آگیا، سب ہی لوگ مجھ سے بے تحاشا محبت کرنے لگے تھے، وہ عزت بھی کرتے اور میری بات بھی مانتے تھے۔ غرض ہم سب مل جل کر ہسپتال کو بلندیوں کی ابتدائی سیڑھیوں تک لے آئے۔ اس دوران حسب روایت، سازشیں اور مخالفتیں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ اوپرجا کر بتایا جاتا کہ سارا نظام بدلا جا رہا ہے جس سے ہسپتال کو بہت نقصان پہنچے گا۔ میں ہسپتال کو ایک شاندار ادارے کے طور پر اٹھتا دیکھ رہا تھا، جب کہ میرے نادان دوست اس سے صرف مالی فوائد حاصل کرنے کی وکالت کرتے تھے۔
دن رات کی مسلسل محنت رنگ لائی اور ہم اس ہسپتال کو بین الاقوامی فورم پر ایک اچھے معیار کا ہسپتال تسلیم کروانے میں کامیاب ہو گئے، قبل ازیں یہ اعزاز صرف آغا خان ہسپتال کراچی اور الشفاء ہسپتال اسلام آباد کے پاس تھا۔
دو سال میں کمپیوٹر کے میدان میں ہم نے اتنی پیش رفت کر لی تھی کہ پاکستان کی حد تک غالباً یہ پہلا یا دوسرا ہسپتال تھا جہاں تقریباً سو فیصد کام کمپیوٹر پر ہوتا تھا۔ اور وہ بھی اتنی ترقی یافتہ شکل میں کہ دوسرے ہسپتال نہ صرف رشک سے دیکھتے تھے بلکہ اپنے ہسپتال میں یہ نظام نافذ کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے جو ظاہر ہے کم از کم اس وقت ان کے لیے نا ممکن تھا۔تین سال میں الحمدللہ ڈاکٹرز ہسپتال کو پاکستان کے بہترین ہسپتالوں میں شمار کیاجانے لگا تھا۔ اعلیٰ پائے کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈاکٹروں، بہترین طبی سہولیات خصوصاً ادارہ قلب کی قابل رشک کارکردگی، اچھے انتظامی امور، اور صفائی کے اعلیٰ معیار کی بدولت اس ہسپتال کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ اونچی سوسائٹی اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مریض یکساں طور پر اس سے استفادہ کرنے لگے تھے۔ اب لوگ دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے انتہائی فخر سے اس ہسپتال میں اپنے علاج کا تذکرہ کرتے تھے، گویا یہ ان کے لیے بڑے افتخار کا باعث تھا۔اس کا معیار گو پاکستان کے معیار کے مطابق تو بہت اچھا ہو گیا تھا تاہم ابھی اس کو بین الاقوامی طور پر ایک معتبر اور عالیشان ادارہ بنانے کے لیے بڑا کچھ کرنا باقی تھا۔منزل ابھی بڑی دور تھی۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -