کراچی میں سیلابی پانی کی تباہ کاریوں کوبا آسانی کم کیا جا جا سکتا ہے، لیکن اس کیلئے کچھ مضبوط اور پائیدار سیاسی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے 

 کراچی میں سیلابی پانی کی تباہ کاریوں کوبا آسانی کم کیا جا جا سکتا ہے، لیکن ...
 کراچی میں سیلابی پانی کی تباہ کاریوں کوبا آسانی کم کیا جا جا سکتا ہے، لیکن اس کیلئے کچھ مضبوط اور پائیدار سیاسی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:152
پاکستان کے معاشی مرکز آئی آئی چندریگر روڈ میں بھی یہی حالات تھے۔لیکن اس کے باوجود کراچی کے ناظم کے نزدیک ابھی تک یہ ایک معمولی مسئلہ تھا۔ عام طور پر ان دنوں بلدیاتی اداروں کے سربراہ بڑے بڑے منصوبوں پر ہاتھ ڈالنا زیادہ پسند کرتے ہیں کیوں کہ ایسے منصوبوں میں حکومت اور عوام کو دکھانے کے لیے بڑا کچھ ہوتا ہے اور کچھ نا گفتہ وجوہات بھی ہوتی ہیں اگر ان کا مرکز نگا ہ لوگوں کی مشکلات کا حل ہو جائے تو کم خرچ میں بھی وہ ایسے منصوبے بنا سکتے ہیں یا کچھ ایسے اقدام اٹھا سکتے ہیں جس سے عوام کا بھلا ہو۔ مصطفیٰ کمال کے ساتھ میری ملاقات کو 20 برس گزر گئے مگر کراچی شہر آج بھی اسی طرح سیلابوں کی زد میں ہے بلکہ حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق سے علم ہوا کہ شہری علاقوں میں ایسے سیلاب آنے کی دو  بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ پانی کا اخراج کرنے والے نالوں کے راستوں میں وسیع پیمانے پر غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کی گئی ہیں۔ ان نالوں کی باقاعدہ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بھی پانی کے بہاؤ پر منفی اثر پڑتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ شہر میں کوئی مؤثر ویسٹ مینجمنٹ سسٹم نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے اکثر شہر کا کوڑا کرکٹ ان نالوں میں ہی پھینکا جاتا ہے۔ جس سے نکاسیِ آب کا عمل بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اگر ان دو مشکلات پر قابو پا لیا جائے تو کراچی میں سیلابی پانی کی تباہ کاریوں کوبا آسانی کم کیا جا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے حکومت کی طرف سے کچھ مضبوط اور پائیدار سیاسی فیصلے کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس سارے کھیل میں بہت اثر و رسوخ  والے سیاسی لوگ اور مافیا کے کارندے شامل ہیں۔ دوسرے شہروں میں بھی صورتحال ایسی ہی ہے گو کچھ کم سطح پر لیکن بنیادی طور پر اس کی وجوہات وہی ہیں جوپہلے بیان کی گئی ہیں۔
کراچی چیمبرز کے افسران کے ساتھ گفتگو کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ چیمبرز اور کراچی سٹی گورنمنٹ کے درمیان شہر کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم و اصلاح کے لیے کوئی تعاون ہی نہیں ہے۔ جب اس سلسلے میں تفصیل پوچھی گئی تو چیمبرز کے ذمہ داروں نے بتایا کہ سٹی گورنمنٹ والوں نے ان سے کبھی اس سلسلے میں کبھی کوئی رابطہ ہی نہیں کیا۔ تب میں نے اپنی خدمات پیش کیں کہ اگر وہ مناسب سمجھیں تو میں دونوں  اداروں کے درمیان رابطہ کروانے کے لیے  تیار ہوں۔ مجھے نہیں علم کہ بعد میں ان دونوں اداروں کے درمیان کوئی با معنی اشتراک ہو سکا یا نہیں، کیوں کہ جو کام مجھے تفویض کیا گیا تھا میں مکمل کرکے واپس چلا گیا اور اس کے بعد کبھی کراچی جانا نہیں ہوا۔ بہر حال شہر کی انتظامیہ کے لیے یہ ایک سبق ہے کہ وہ شہر کے کسی بھی بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی سے لے کر اس کی ترقی اور پھر اس کی تکمیل کے ہر مرحلے پر نجی شعبے کو شامل کرے۔ اس طرح حکومت پر مالیاتی اور انتظامی طور پر کم سے کم بوجھ پڑے گا جیسا کہ سیالکوٹ میں کیا گیا تھا۔  
یہ ایک بہت ہی دلچسپ ذمہ داری تھی جس کی ادائیگی کے دوران مجھے پاکستان کے دو بڑے شہروں کی مشکلات کو کریدنے اور اُنھیں سمجھنے کا موقع ملا۔ اس سے مجھے شہر کی انتظامیہ کو نچلی سطح تک لے جانے کے فوائد  اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کے طریقہ کار نے بہت متاثر کیا۔ اس سے حاصل ہونے والا پیغام بہت واضح تھا کہ اچھی انتظامیہ کا ہونا بھی اگر زیادہ نہیں تو اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ترقی اور تکمیل کا سفر۔ اس منصوبے کے دوران میں دو مرتبہ منیلا بھی گیا، جہاں مجھے ایشیئن بینک کے نمائندوں سے بات کرنے کے علاوہ بینک کی طرف سے دوسرے ملکوں کے لیے نامزد کئے گئے ماہرین کے ساتھ ملنے اور ان سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع بھی ملا۔ میری تیار کی گئی یہ تفصیلی رپورٹ”مینجنگ ایشین سٹیز“کے عنوان سے 2006 ء میں شائع ہوئی۔
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -