ملتان میں افغانی گورنرکی شکست، پنجاب پرافغانستان کےقبضے کااختتام
خطہ پنجاب کاشمار اس سرزمین میں ہوتا ہے جسے دنیاکی قدیم ترین تہذیب ہونے کا اعزاز حاصل ہے ، ہڑپہ جیسی قدیم تہذیب نے بھی یہاں ہی جنم لیا اور ٹیکسلا جیسا قدیم علاقہ بھی یہیں واقع ہے ہندووں کی مذہبی کتابیں بھی یہیں لکھی گئیں اورسناتن دھرم کے اوتار شری رام چندر کےبیٹوں لو اور قصو کے بسائےلاہور اور قصور جیسے شہربھی یہیں ملتے ہیں۔ ملتان جیساقدیم شہر بھی یہاں ہے اس خطے پر ماضی کے مختلف ادوار میں مختلف غیرملکی طاقتیں حملے کرتی رہیں قبضے بھی ہوتے رہے اور ختم بھی ہوتے رہے لیکن یہاں ہم افغان قابضین کے بارے میں بات کریں گے۔
پنجاب پر اٖفغانستان کا باقاعدہ قبضہ افغانستان نامی ملک کے بانی احمد شاہ ابدالی کے دور میں1748میں ہوا، انہوں نے یہاں اپنےگورنرمقرر کیےلیکن افغان حملہ آوروں کا یہ دور دسویں صدی عیسوی میں شروع ہوا تھا جب غزنی کےترک امیرسلطان محمود غزنوی نےپنجاب پر حملہ کیا تھا۔ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ محمد بن قاسم کے حملے کے بعد ملتان پر مسلسل مسلم حکومت ہی قائم رہی ۔ سلطان محمود غزنوی کے پنجاب پر حملوں کے وقت بھی ملتان شہرپرمسلم حکومت ہی قائم تھی اور اس کے آس پاس اگرچہ ہندوراجاوں کی حکومت تھی لیکن ملتان کے حاکم ابوداود قرامطی کا کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا یا لڑائی نہیں تھی۔ لاہور پر قبضے سےپہلے سلطان محمود غزنوی نےپہلےپشاور،بھیرہ کےبعدملتان پرہی قبضہ کیا تھا۔ سن1005عیسوی میں محمودغزنوی نے اپنے آٹھویں اور ملتان پر دوسرےحملےمیں جب ملتان پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت ملتان پرقرامطی فرقےکی حکومت تھی سلطان محمود غزنوی خود سنی حنفی عقیدہ رکھتا تھا اور اس نےملتان میں شدیدقتل عام کیا تھا تاریخی حوالوں کے مطابق سلطان محمود غزنوی نے یہاں اسقدر قتل عام کیا تھا کہ اس کا اپنا ہاتھ تلوار کے دستے پر جم گیا تھا۔ بہرحال محمود غزنوی نے ملتان پر قبضےکے بعدیہاں سے اہل تشیع کی ایک شاخ قرامطیوں کے اقتدارکا بھی خاتمہ کردیا سلطان محمود غزنوی کےجانشینوں نے تو پنجاب پر ایساقبضہ کیا کہ لاہور کو اپنا پایہ تخت بھی بنا لیا اس کےبعدغورکےحکمران سلطان شہاب الدین غوری نے پنجاب پرقبضہ کیا ۔سن1175عیسوی میں ملتان سے فرقہ قرامطیہ کا مکمل خاتمہ شہاب الدین غوری کے ہاتھوں ہی ہوا اور باقی بچے قرامطی بھی تہہ تیغ ہوئےاور لاہور میں سلطان محمود غزنوی کا آخری جانشین خسرو ملک بھی سلطان شہاب الدین غوری کے ہاتھوں ہی دھوکے سےگرفتارہوا۔ اس کےبعد برصغیر میں مسلم حکومت قائم ہوئی اور ملتان شہر اور لاہورشہر پرعموما ایک ہی گورنرحکومت کرتا تھا۔ سن1398عیسوی میں وسطی ایشیا کےمغل حکمران امیرتیمور نےجب ہندوستان پر حملے کا فیصلہ کیا تو پہلا قتل عام ملتان میں ہی ہوا اور پھر پنجاب کا دیگر علاقہ ظلم و ستم کا نشانہ بنا۔ دہلی میں جو بھی حکمران ہوتا اس کا لاہورکےلیےنامزد کردہ گورنر ہی ملتان کا بھی حکمران ہوتا تھا۔ اور کابل و قندھار بھی مغلیہ سلطنت کا حصہ تھےیہ سلسلہ مغلیہ خاندان کےعروج تک برقرار رہا حتی کے ایرانی طالع آزما نادرشاہ افشار کے ہندوستان پر حملے اور1739عیسوی میں مغل بادشاہ محمد شاہ (رنگیلا) کی کرنال میں شکست کے بعد مغلوں کا زوال ایسا تیز ہوا کہ نادرشاہ افشار کے بعد اسی کے فوجی کمانڈر احمدشاہ ابدالی نے جب قندھار پرحکومت قائم کی اور1747عیسوی میں افغانستان کے نام سے ایک نیا ملک بھی قائم کیا اور پھرحملہ کرکےپنجاب کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور میرمعین الملک کو خطہ پنجاب لاہور اور ملتان کا گورنر مقرر کیا لیکن میر معین الملک کی وفات کے بعد سن1754عیسوی میں دہلی کےمغل فرمانروا عالمگیر ثانی نے میرمومن کو لاہور اور ملتان کا گورنر مقرر کر دیااحمد شاہ ابدلی نے پھرخطہ پنجاب پر حملہ 1757عیسوی کے اس حملے میں ہی پنجاب کے بعد دلی باری آئی اور دلی میں بھی لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوا ۔
اس دوران ہی احمدشاہ ابدالی نےاپنے قبیلے کےہی شجاع خان سدوزئی کوملتان کاگورنر بنایا اس دوران سن1770عیسوی کے دور میں سکھوں نے ملتان پر قبضہ کر لیا اور ملتان شہر دس سال ان کے قبضے میں رہاپھر مظفرخان سدوزئی ملتان کے گورنر بنے1765عیسوی کےبعد باقی پنجاب احمدشاہ ابدالی کے ہاتھوں سے نکل گیا اور جگہ جگہ سکھ مثلوں کی حکومتیں قائم ہو گئی تھیں ۔ سہہ حاکمان لاہور یعنی تین سکھ سرداروں کا لاہور پرقبضہ ہو گیا جن کے ظلم و ستم سے بھرپور دور سے جان چھڑانےکےلیے اہلیان لاہور (ہندو،مسلم، سکھ) نے مشترکہ طور پر گوجرانوالہ کے حاکم رنجیت سنگھ سے درخواست کی جن نےسن1798عیسوی میں لاہور پر اہلیان لاہور کی مدد سے قبضہ کر لیا اور باقی پنجاب سے بھی مختلف سکھ مثلوں کا خاتمہ کرتے ہوئے دوبارہ ایک حکومت قائم کی ، جن میں جھنگ اور قصور کے مسلمان حاکموں کے علاوہ باقی متعدد علاقوں پر سکھ حاکم تھے جن میں اکال گڑھ کا دوول سنگھ، چنیوٹ کا کرم سنگھ، امرتسر کا گوردت سنگھ وغیرہ بھی شامل تھے۔
خطہ پنجاب کےتقریبا سارے ہی علاقوں پر قبضے کے بعد رنجیت سنگھ نے ملتان کا رخ کیا جو ابھی تک افغان سلطنت میں شامل تھا اور اس کا صوبہ دار مظفرخان سدوزئی خود بھی احمد شاہ ابدالی کے قبیلے سے ہی تھا، 2جون1818عیسوی میں ملتان کی فتح کے بعد خطہ پنجاب سے افغان سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اس مہم میں ریاست بہالپور کا تعاون بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کو حاصل تھا۔ نواب مظفر خان سدوزئی کی باقی بچی اولاد مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ لاہور چلی گئی اور مہاراجہ کے دربار میں خاص عزت کی حقدار ٹھہری۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے دیوان ساون مل کو ملتان کا دیوان مقرر کیا اور جھنگ کو بھی تاریخ میں پہلی بار ملتان کے دیوان کے زیرانتظام کیا۔ اس کے بعد دوبارہ کبھی خطہ پنجاب کے کسی علاقے پر افغانستان کا قبضہ نہیں ہو سکا اگرچہ انگریز یہاں پر قابض ہوئے لیکن افغان سلطنت دوبارہ قائم نا ہو سکی ۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔