قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 100

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 100
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 100

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شراب کا ذکر بہت پہلے سے لٹریچر میں موجود ہے بلکہ تاریخ عالم میں موجود ہے ۔لیکن شاعروں کے حوالے سے شراب کا پینا ایک لازم و ملزوم قرار دیا جاتا رہا ہے اور یہ بہت حد تک ٹھیک بھی ہے۔ زمانہ قدیم سے لے کر اس وقت تک جبکہ شراب پر پابندیاں عائد نہیں ہوئیں تھیں، ہمیں شاعروں کی محفل میں کثرت سے دور جام چلتا نظر آتا ہے ۔
اُردو شاعروں میں ہمیں ایک خوش ظرف اور شگفتہ مزاج بادہ نوش نظر آتا ہے ۔ شرابی لفظ میں اس لیے استعمال نہیں کر رہا کہ اس میں بڑی تضحیک کا پہلو ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر پینے والے کو ہم شرابی نہیں کہہ سکتے اس لیے میں غالب کو بادہ خوار کہتا ہوں۔ انہوں نے خود بھی اپنے لیے یہی لفظ استعمال کیا تھا۔
یہ مسائل تصوف ، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
غالب سے ہمیں شراب کی یہ ایک روایت ملتی ہے لیکن، جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں ، شراب کا شعر کی تخلیق سے قطعاًٍ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ شاعروں کی محفل میں کسی طرح شراب در آئی اور شراب کی روایت بن گئی۔ غالب کے خطوط پڑھئے، ان کی عام زندگی دیکھئے یا ان کی شاعری کا مطالعہ کیجئے شراب کا ذکر اور اس کے اثرات ملیں گے۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 99  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مے سے غرض ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے
غالب اس کی وجوہ کچھ بھی بتاتے رہے ہوں۔ میں اس وقت آپ کو اپنے ملنے والے ان دوستوں ، ان بزرگوں اور ان ثقہ لوگوں کی شراب نوشی کے کچھ واقعات سنانا چاہتا ہوں جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور جن میں شریک رہا ۔ کچھ قیام پاکستان سے پہلے کے واقعات ہیں اور کچھ بعد کے ہیں۔
قیام پاکستان سے پہلے بزرگوں میں جس شاعر کی شراب نوشی کا سب سے زیادہ چرچا تھا وہ جگر مراد آبادی تھے۔ میں نے انہیں اس حالت میں کبھی نہیں دیکھا لیکن ان کی داستانیں سنتا رہا اور جب ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو وہ ترک بادہ کر چکے تھے اور ایک سیدھے سادے شہری کی حیثیت سے مجھے نظر آئے۔ ان میں اب شراب کی بجائے ایک اور چیز نے جگہ لے لی تھی اور وہ تاش تھی۔ وہ تمام رات اسی میں گزارتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس سے پہلے جورات وہ نشے میں یا پینے پلانے میں گزارتے تھے، انہوں نے اس کا بدل ڈھونڈ لیا تھا۔
ان کے علاوہ اختر شیرانی کا بہت چرچا تھا۔ پھر مجاز لکھنؤی بھی اس کے لیے بہت مشہور تھے۔ ادھر جو لوگ تھے ان میں الطاف مشہدی ، مجید لاہوری ، حاجی لق لق اور عبدالحمید عدم وغیرہ اس سلسلے میں بہت مشہور تھے۔ ان سے جو ملاقاتیں ہوئیں ان کے چھوٹے چھوٹے واقعات بتاتا ہوں۔
یہ واقعہ پارٹیشن سے پہلے کا ہے کہ پنڈی میں ایک مشاعرہ ہوا۔ اس میں حاجی لق لق بھی شریک تھے۔ حاجی لق لق ادب کے کوئی باقاعدہ نامور شاعر نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق صحافت سے تھا اور ان کی مزاحیہ شاعری نچلے طبقے میں بہت مقبول تھی۔ یہ ’’زمیندار ‘‘ میں کام کرتے تھے جہاں مولانا ظفر علی جیسے جیدآدمی صرف حقے پر گزارا کرتے تھے وہاں ان کے ساتھیوں میں حاجی لق لق اتنی پیتے تھے کہ شراب بھی دہائی دے کر کہتی تھی کہ مجھے حاجی لق لق سے بچاؤ۔ انہیں میں نے وہاں ایسی حالت میں دیکھاکہ واقعی مجھے شراب پر رحم آنے لگا کہ یہ کس آدمی کے پلے پڑ گئی ہے۔ یہ پینے کے بعد سٹیج پر بیٹھ کر جو شاعر آتا تھااس پر فقرے کستے تھے۔ پینے کے بعد ان کی یہ عادت نمایاں ہوجاتی تھی ویسے بذلہ سنج آدمی تھے اور شگفتہ باتیں کرتے تھے لیکن پینے کے بعد یہ ہوتا تھا ۔ جب لوگ منع کرتے تھے تو چپ ہو جاتے تھے لیکن تھوڑی دیر کے بعد ان کا پھر یہ سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ اس عادت کا میں نے حال پارٹیشن کے بعد سرگودھا کے ایک مشاعرے میں دیکھا۔
یہ مشاعرہ الطاف مشہدی نے منعقد کیا تھا۔ اس میں ہندوستان اور پاکستان کے شعراء شریک ہوئے۔ حاجی لق لق پئے ہوئے تھے اور الطاف مشہدی صاحب نے بھی پی رکھی تھی۔ جگر صاحب پڑھنے کیلئے آئے اور وہ اس وقت صوفی تھے اور پینی چھوڑ چکے تھے۔ حاجی لق لق پہلے بھی جملے بازی کر رہے تھے لیکن جب انہوں نے جگر صاحب پر جملے بازی کی تو الطاف مشہدی نے کہا کہ حاجی چھوڑ بھی ۔ کیا بک بک لگائی ہوئی ہے ۔ اور تو حاجی لق لق نہیں بلکہ حاجی بک بک ہے ۔ اسی لیے میں تجھے بلا تا نہیں تھا۔ الطاف مشہدی اور حاجی لق لق آپس میں بے تکلف دوست تھے۔ حاجی لق لق بالکل خاموش ہو گئے۔ لیکن جونہی الطاف مشہدی نے کسی دوسری طرف منہ کیا تو حاجی لق لق نے پھر اپنی کارروائی شروع کر دی ۔ اس کے بعد الطاف صاحب پلٹے ۔ وہ دیوہیکل آدمی تھے اور ویسے بھی جب آدمی پئے ہوئے ہو تو کچھ فالتو قوت شراب کی بھی ہوتی ہے ۔ مشاعرہ جاری تھا ۔ انہوں نے حاجی لق لق کو دونوں بازوؤں سے اٹھایا اور انہیں اس طرح پکڑ لیا جیسے کوئی مردہ بانہوں پر رکھا ہوتا ہے ۔ وہ سٹیج سے اترے اور پنڈال کے باہر جا کر انہیں پھینک آئے۔ یہ ایک غیر ذمہ دار آدمی کی فضول عادت کا نتیجہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
راجہ حسن اختر علامہ اقبال کے پرستاروں اور ہم جلیسوں میں سے تھے۔ وہ بہت معزز اور معتبر آدمی تھے ۔ اور کسی زمانے میں ڈپٹی کمشنر بھی رہ چکے تھے ۔ معاشرے میں ان کا بہت مقام تھا۔ ان کے بیٹے بھی اچھے عہدے پر تھے۔ کیانی فیملی تھی ۔ ان کے بیٹھے محمود اختر کیانی تھے۔ یہ شاعر تھے اور ہمارے دوستوں میں سے تھے اور انہیں پینے کی لت تھی۔ ان کی یہ عادت تھی کہ جب پی لیتے تھے تو اس حوالے سے علامہ اقبال کا ذکر کرتے تھے کہ وہ ان کے والد کے دوست تھے۔ وہ پینے کے بعد علامہ اقبال کو تایا کہا کرتے تھے۔ اگر کوئی بات ہو جائے اور خواہ وہ ادبی سطح پر ہی کیوں نہ ہو لیکن اس میں علامہ اقبال کی مخالفت کا کوئی پہلو نکلے تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے تھے ۔ ان کی صرف یہی عادت تھی ۔ ویسے وہ پینے کے بعد بالکل نارمل ہوتے تھے۔ موٹر سائیکل چلاتے تھے، اور اگر کبھی زیادہ پی ہوتی اور واپس گھر جاتے وقت کہیں بنچ پڑا ہوا دیکھتے تو گھر جانے کی بجائے وہیں سو جاتے تھے۔ صبح جب آنکھ کھلتی تو گھر بھی چلے جاتے تھے۔ لیکن پینے کے بعد علامہ اقبال کو تایا کہنا اور ان کی مخالفت کرنے والے آدمی سے جھگڑا کرنے کی ان کی عادت پختہ تھی اور اکثر لوگوں کو ان کی اس عادت کے بارے میں پتہ بھی تھا چنانچہ بعض اوقات دوست انہیں چھیڑنے کے لیے ذرا علامہ اقبال پر تنقید بھی کر لیتے تھے۔
(جاری ہے )