دیوہیکل مجسمے بڑی بڑی بادبانی کشتیوں پر لاد کر دریائے نیل کے ذریعے پہنچائے جاتے،ہزاروں مزدور، گھوڑے، اونٹ وغیرہ  مقررہ مقام پر پہنچا دیتے

 دیوہیکل مجسمے بڑی بڑی بادبانی کشتیوں پر لاد کر دریائے نیل کے ذریعے پہنچائے ...
 دیوہیکل مجسمے بڑی بڑی بادبانی کشتیوں پر لاد کر دریائے نیل کے ذریعے پہنچائے جاتے،ہزاروں مزدور، گھوڑے، اونٹ وغیرہ  مقررہ مقام پر پہنچا دیتے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:51
 مجھے ان کی اتنی گہری تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ تاہم جب اس نے بتایا کہ یہ دیوہیکل ستون ایک ہی پتھر کو تراش کر بنایا گیا ہے تو میں چونکا۔ ا سکے کہنے کے مطابق ایسے ستونوں کو اسوان کے قریب ایک پہاڑی علاقے سے لایا جاتا تھا۔ یہ بات حیران کر دینے کے لئے کافی تھی۔ میں بڑی دیر تک سوچتا ہی رہا کہ سینکڑوں میل دور سے یہ ستون کس طرح یہاں لایا گیا ہوگا اور پھر اسے کیسے اس جگہ پر نصب کیا گیا ہوگا۔ اتنے بڑے ستون کو عمودی حالت میں کھڑا کرنا بھی کوئی اتنا آسان کام نہ تھا،جب کہ اسی زمانے میں مشینی سہولیات بھی میسر نہیں تھیں۔ ظاہر ہے یہ سارا کام افرادی قوت کے ذریعے ہی انجام پایا ہوگا۔
عبدو نے بتایا کہ یہ اور اسی قسم کے پتھروں سے بنے ہوئے دیوہیکل مجسمے بڑی بڑی بادبانی کشتیوں پر لاد کر دریائے نیل کے ذریعے یہاں پہنچائے جاتے تھے۔ جہاں سے ہزاروں مزدور، گھوڑے، اونٹ وغیرہ ان کو دوسروں پر دھکیلتے ہوئے مقررہ مقام پر پہنچا دیتے۔ اس نقل و حمل کے دوران کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ کشتی ان پتھروں کا بوجھ نہ سہار سکی اور دریا برد ہوگئی۔ ایک مقام سے اس قسم کا ایک ستون دریافت کیا گیا جو دریائے نیل کے اندر کئی فٹ گہرے پانی میں ابھی تک پڑا ہے اور کوشش کے باوجود ابھی تک نکالا نہیں جاسکا۔
 ایسے ستونوں کو مغرب میں کلوپیٹرا کی سوئی یا’Needle  Cleopatra‘کہا گیا۔ اور جب یہاں مصر میں آثار قدیمہ اور قدیم نوادرات کی لوٹ سیل مچی تو دنیا کے بڑے اور طاقت ور ملک ایسے ہی متعدد ستون اکھاڑ کر اپنے ملکوں میں لے گئے اور انہیں بڑے شہروں کے مصروف ترین مقامات پر نصب کر دیا۔
وہ صحیح کہہ رہا تھا، بعد میں نے ایسے ہی ستون لندن، پیرس اور نیویارک کے مختلف چوراہوں پر ایستادہ دیکھے۔وہاں چونکہ اور کچھ خاصی چیز دیکھنے لائق نہیں تھی اور اندھیرا بھی ہلکے ہلکے اترنا شروع ہوگیا تھا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اب واپسی کا قصد کیا جائے۔
تحریر اسکوائر
ٹیکسی والا گھما پھرا کر ایک بڑے مگر عام سے چوک سے گزرا تو عبدو نے بتایا کہ یہ یہاں کا شہداء چوک ہے جو دوسری عرب اسرائیل جنگ،جو 6 اکتوبر 1973ء کو شروع ہوئی تھی، کے شہیدوں کے نام سے منسوب تھا۔
حیرت انگیز طور پر مصری اس جنگ کو لے کر بہت حساس ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ انہوں نے ایک بہت ہی کامیاب منصوبہ بندی کے ساتھ نہر سوئز کو راتوں رات عبور کیا اور بہادری سے لڑتے ہوئے دوسرے کنارے پر مورچہ بند اسرائیلیوں پر جھپٹ پڑے۔ یہ صحرائے سینا ء کا وہ علاقہ تھا جو پہلی عرب اسرائیلی جنگ 1967ء میں مصر کے ہاتھ سے نکل کر اسرائیلی قبضے میں چلا گیا تھا تب سے یہ نہر آمدورفت کے لئے بند ہوگئی تھی۔ نہر کے کنارے، ایک طرف مصری اور دوسری طرف اسرائیلی مورچہ بند بیٹھے تھے۔ مصری بڑی جرأت اور بہادری سے لڑے اور نہر کے پار پہنچ کر آس پاس کا سارا علاقہ یہودیوں سے خالی کرا لیا۔ ہرچند کہ بعد میں اسی لڑائی میں ان کا بہت نقصان ہوا تھا اور انہوں نے ایک بار پھر اپنا بہت سارا علاقہ بھی گنوا دیا تھا جس پر اسرائیل نے اس جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -