پاکستان میں پیچیدہ سیاسی صورت حال

پاکستان میں پیچیدہ سیاسی صورت حال
پاکستان میں پیچیدہ سیاسی صورت حال
کیپشن: 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی سیاسی صورت حال اس وقت نازک مراحل سے گزر رہی ہے۔ گذشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے اپنے مطالبات کے حق میں ایک دھرنا اپنے حامیوںکوپارلیمنٹ،وزیراعظم ہاﺅس اور ایوان صدر کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا تو ریاستی مشینری حرکت میں آئی جس کے بعد پُر تشدد واقعات رو نما ہوئے۔ ریڈ زون میں ریاست کے اہم ادارے اور عمارتیں واقع ہیں اور ریاستی مشینری ان کی حفاظت کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دھرنا دینے والوں نے ان اداروں اور عمارتوں کی جانب یلغار کی تو معاملات پُر امن نہ رہ سکے اور تشدد کے واقعات رو نما ہونے ہوئے۔
گزشتہ تین ہفتوں سے پاکستان کے لوگ ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھے،کیونکہ حکومت اور مظاہرین دونوںاپنے اپنے م موقف پر ڈٹے رہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ فریقین میں سے کس کا موقف درست ہے یا اور کس کا غلط، یا کون اپنے مو¿قف میں کتنا درست ہے،یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس تمام محاذ آرائی میں ملک کو اقتصادی طور پر بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار میں اگرچہ کافی تضاد پایا جاتا ہے ،لیکن محتاط سے محتاط ترین اندازوں کے مطابق بھی پاکستان کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ کئی سو ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس اقتصادی نقصان کا سب سے زیادہ بوجھ ایک عام پاکستانی اٹھائے گا جو پہلے ہی غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے چنگل میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے اور ہمارے لیڈر اقتدار کی لڑائیوں میں مشغول ہیں۔
گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی یامجموعی طور پر وہ شفاف کہلائے جا سکتے ہیں، ان کی انکوائری ہوتی ہے یا نہیں، انکوائری کمیشن کیسا ہونا چاہیے، وغیرہ وغیرہ لوگوں کی اکثریت کی ان باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کا سب سے بنیادی مسئلہ روٹی، روزگار اور اپنے خاندانوں کی کفالت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عمران خان اور ڈاکٹرطاہر القادری نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تو ان کے ساتھ زیادہ لوگ نہیں تھے اور نہ ہی دھرنے میں اتنے لوگ آئے ،جتنا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ ہاں،البتہ دونوں کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ لوگوں کی بڑی تعداد نہ آنے کے باوجوددھرنا چل رہا ہے لیکن اب دھرنے کے منتظمین کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اسے اب مزید چلانا ناممکن ہوگا اس لئے آخری حربہ کے طور پر پارلیمنٹ، وزیراعظم ہاﺅس اور ایوان صدر کی طرف رخ کیا جو حسب توقع پر تشد دواقعات میں تبدیل ہو گیا ۔
اس وقت ملک کا المیہ یہ ہے کہ شدید اقتصادی دباﺅ کے باوجود سیاسی طور پر پاکستان ایک منقسم ملک بن چکا ہے، جہاں تقسیم در تقسیم نے بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے ہیں۔ جب موجودہ بحران ختم ہو جائے گا اور معمولات زندگی دوبارہ نارمل ہو جائیں گے ، اس کے بعد بھی کئی سال تک سیاسی تقسیم در تقسیم کے مضر اثرات پاکستان کو نقصان پہنچاتے رہیں گے۔ ہمارے ذہن ایسے ہو چکے ہیں کہ ہم اپنی رائے سے اختلاف رکھنے والے شخص کو قطعاً برداشت نہیں کرتے ،یہی وجہ ہے کہ سیاسی مسائل حل ہونے کی بجائے پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف چلے جاتے ہیں۔ 1977ءمیں بھی حالات پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف گئے جس کی وجہ سے جنرل ضیاءالحق کوملک میں مارشل لاءلگانے کا جواز مل گیا۔ اسی طرح جنرل ضیاءالحق کے جانے کے بعد جب میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتیں بنیں تو باربارکی آپس کی محاذ آرائی کے نتیجے میں ان کی حکومتیں دودوبارختم ہوئیں،حتیٰ کہ حالات ایسے ہوگئے کہ جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر ملک میں مارشل لاءلگا دیا۔
 اسی دور میں ایک اچھی ڈویلپمنٹ یہ ہوئی کہ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے صورت حال کی سنگینی کا ادراک کیا اور میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور بحیثیت مجموعی یہ دونوں پارٹیاںاس پر کسی نہ کسی حد تک عمل بھی کرتی رہی ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی صورت حال دیکھتے ہوئے میثاق جمہوریت کو امید کی ایک کرن سمجھنا چاہیے ،کیونکہ یہی وہ ایک دستاویز ہے جو ملک میں جمہوریت کے تسلسل کی ضامن بن سکتی ہے۔ اگر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری اس معاہدہ کی پاسداری جاری رکھتے ہیں تو غیر جمہوری قوتوں کے لئے مداخلت کرنامشکل ہو گی ۔مَیں صدق دل سے سمجھتا ہو ں کہ یہ دستاویز آئین پاکستان کے بعد ملک کی سب سے مقدس دستاویز کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور پاکستان کی بقاءکا دارومدار بھی آئین پاکستان اور میثاق جمہوریت پر ان کی روح کے مطابق من و عن عمل درآمد میں ہے۔
پاکستان کی سیاسی صورت حال اس وقت انتہائی پیچیدہ ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک سے زائد مواقع پر پاکستان میں بہت پیچیدہ حالات رہے ہیں جن کی وجہ سے ملک میں مارشل لاءبھی لگتے رہے ہیں اور ایک بار ہم اپنا آدھا ملک بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ان ادوار میں بھی ہم سیاسی طور پر پیچیدہ صورت حال میں کوئی قابل عمل سیاسی حل تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے۔پاکستان آج کل جس سیاسی پیچیدگی کے دور سے گذررہا ہے، اس میں صورت حال کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ تمام متحارب اس بات پر متفق ہوں کہ وہ مسائل کا سیاسی حل تلاش کریں گے تاکہ غیر جمہوری قوتوں کو کسی مداخلت کا موقع نہ مل سکے۔ جب مداخلت ہوتی ہے تو کسی سیاست دانوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا، سب کے سب کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں جن میں وہ سیاسی عناصر بھی شامل ہیں جو ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں مداخلت ہوتی ہے۔دنیا کا کوئی تنازعہ یا جنگ ہو، اس کا آخری فیصلہ ہمیشہ مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے۔پاکستان کی موجودہ صورت حال کا حتمی تصفیہ بھی مذاکرات کی میز پر ہوگااورجب تک یہ مسئلہ ختم نہیں ہوتا اور ڈیڈلاک برقرار رہتا ہے،اقتصادی اور معاشی مسائل میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہے گا۔

پاکستان میں جاری سیاسی بحران اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں پر قابو پانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ دونوں فریق اپنے موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے سنجیدگی سے مذاکرات کی میز پر مسئلہ کو حل کرنے کی نیت سے بیٹھیں۔حکومت کو بھی طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے اور اعتماد سازی کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عمران خان اور طاہر القادری کو بھی اپنے مطالبات کی فہرست سے وہ مطالبات نکال دینے چاہیئں جو اعتماد سازی کی فضا میں رکاوٹ بنتے ہیں۔اعتماد سازی کا ماحول قائم کرنے کے بعد انتہائی نیک نیتی سے ایک نیا میثاق جمہوریت ہونا چاہیے جس میں پارلیمان میں موجود تمام جماعتیں شامل ہوں اور یہ سب ایک زبان ہو کر پاکستان میں جمہوریت کی پاسداری کا عہد کریں۔

مزید :

کالم -