سپیکر رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کیس ،سپریم کورٹ نے کارروائی کل تک ملتوی کر دی
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) سپیکر رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کیس پر سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی گئی ، عدالت نے 31 مارچ کو اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرلیا۔
سپیکر رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بینچ نےکی ، دوران سماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا بیان آیا ہے کہ 3 ماہ میں انتخابات نہیں ہو سکتے ، میری کوشش ہے کہ آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آجائے ۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں لیکن فریقین کا موقف سنیں گے ۔
رضا ربانی نے دلائل دیے کہ 28مارچ کوعدم اعتمادکی تحریک منظورہوئی مگرسماعت ملتوی کی گئی، ڈپٹی سپیکرنےرولنگ پڑھی اورارکان کوآرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کامرتکب قراردیا، ڈپٹی سپیکرنےیہ بھی اعلان نہیں کیاکہ تفصیلی رولنگ جاری کریں گے، ڈپٹی سپیکرنےکس بنیادپررولنگ دی کچھ نہیں بتایا، ڈپٹی سپیکرکےسامنےعدالتی حکم تھانہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ، ڈپٹی سپیکرنےتحریری رولنگ دےکراپنی زبانی رولنگ کوغیرمؤثرکردیا، ڈپٹی سپیکرکی رولنگ آئین کیخلاف ہے، جوکچھ ہوا اس کوسویلین مارشل لاہی قراردیاجاسکتاہے،سسٹم نےازخودہی اپنامتبادل تیارکرلیاجوغیرآئینی ہے، عدالت نےدیکھناہےپارلیمانی کارروائی کوکس حدتک استثنیٰ ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ عدالت نیشنل سکیورٹی کمیٹی اجلاس کے منٹس اور خط بھی طلب کرے اور حقائق جانچے ، عدالت سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے کر قومی اسمبلی کو بحال کرے ، وزیر اعظم نے کہا کہ سٹیبشلمنٹ نے انہیں تین آپشن تجویز کی تھیں ، وزیر اعظم کے بیان کی تردید سٹیبشلمنٹ نے بھی کر دی ہے ۔
رضا ربانی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل شروع کئے اور کہا کہ آرٹیکل 95 کی ذیلی شق ایک کے تحت عدم اعتماد قرارداد جمع ہوئی ،عدم اعتماد کی تحریک پر 152 ارکان کے دستخط ہیں ، مخدودم علی خان نے قرارداد پڑھ کر عدالت کو سنائی اور کہا کہ 3 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی، 161 ارکان کی حمایت پر سپیکر نے عدم اعتماد کی اجازت دی، رولز 237 کے تھت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونا تھی ، 31 مارچ کو قرارداد پر بحث نہیں کرائی گئی ، 3 اپریل کو ووٹنگ ہونا تھی ، مقدمہ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے عدم اعتماد سے متعلق ہے ، معاملہ قواعد پر عملدرآمد کا نہیں ، آئین کی خلاف ورزی کا ہے ۔
مخدودم علی خان نے کہا کہ اکثریت نہ ہونے پر وزیر اعظم کا رہنا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، سوال یہ ہے کہ کیا سپیکر کو اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کااختیار تھا۔ وزیر اعظم اکثریت کھو دے تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے ۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے ، یہ رولز میں ہے ، آئین میں نہیں ۔ وکیل مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں ، آرٹیکل 69 بے ضابطگیوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتا۔
دوران سماعت خاتون وکیل نے فریق بنانے کی استدعا کی جسے چیف جسٹس نے مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ فریق بننے کی درخواستیں نہیں سن رہے ۔خاتون وکیل نے کہا کہ سارا مسئلہ جس کی وجہ سے بناہے اس کو بلایا جائے سابق امریکی سفیر اسد امجد کو بلایا جائے ، اسد امجد کے خط کی وجہ سے سارا مسئلہ شروع ہوا ، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ بیٹھ جائیں ، ہم انفرادی درخواستیں نہیں سن رہے ،ہم نے سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو سننا ہے ۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر لکھی ہوئی رولنگ لائے اور پڑھ دی ، ڈپٹی سپیکر رولنگ پڑھتے ہوئے سپیکر کا نام بھی لے گئے تھے ، یعنی یہ سب کچھ پہلے سے طے تھا ، اجازت چاہتا ہوں کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پاس کرنے کی ویڈیو جمع کرانا چاہتا ہوں ۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا ڈپٹی سپیکر ، سپیکر قومی اسمبلی سے تحریری اجازت لئے بغیر رولنگ پاس کر سکتا ہے ؟، ڈپٹی سپیکر کا سپیکر کے اختیارات استعمال کرنا آئینی ہے یا غیر آئینی ؟۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے پر پارلیمان میں اکثریت موجود تھی ، رولز کے تحت آئینی حق نظر انداز نہیں ہو سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے وقت 20 فیصد ممبران کی موجودگی کا مقصد کیا ہے؟۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہماری پریکٹس نہیں ہے کہ ریاستی پالیسی یا فارن پالیسی کے معاملات میں مداخلت کریں ، عدالت سٹیٹ پالیسی یا فارن پالیسی کو نہیں دیکھتے ، ہمارے لئے اچھا ہوگا اگر معاملے کو قانون ، آئین کے تناظر میں پرکھا جائے ۔
اے این پی کے وکیل شہباز کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ مجموعی طور پر مخدوم علی خان کے دلائل اپنا رہا ہوں ، جس قسم کے حالات لائے گئے غیر آئینی اقدام ہو سکتا ہے ۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آگاہ کریں کہ پارلیمان کس قسم کی تحریک منظور کر سکتا ہے ، تمام تحاریک کاموازنہ کرنا چاہتے ہیں ، پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتے ، پارلیمان کیلئے بے حد احترام ہے ،آج سماعت مکمل نہیں ہو سکتی ۔
تمام درخواست گزاروں نے دلائل مکمل کر لئے ، عمران خان کی جانب سے وکیل عدالت میں پیش ہوئے جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے تو انکی نمائندگی کیسے کریں گے۔ صدرعارف علوی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر نے نمائندگی کی ۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کہ کہ تمام وکلاء کل دلائل مکمل کر لیں ، پرسوں مجھے موقع دیا جائے ، یہ میری زندگی کا اہم ترین کیس ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نگران حکومت کا قیام اس کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے ، کوشش ہے کہ کل فیصلہ سنا دیں ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف کیس میں اسمبلی تحلیل ہوئی اور نگران حکومت بن چکی تھی ، عدالت نے نواز شریف کیس میں فیصلہ ایک ماہ بعد جاری کیا تھا ۔ قومی اہمیت کا کیس ہے ، تفصیلی معاونت کرنا چاہتا ہوں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وقت کم ہے لیکن جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہتے ۔
بابر اعوان نے کہا کہ کل باضابطہ دلائل کا آغاز کروں گا۔