خاندان اس وقت نشوونما پاتا ہے جب افراد خانہ مل جل کر رہتے ہیں،بچے کو شاباش دینے کے بجائے اپنی مرضی کا موقع مہیا کیا جائے
مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:46
ایک بچے کی حیثیت سے آپ کی خواہش تھی کہ آپ اپنا انفرادی اندازفکر اور سوچ اپنائیں، اپنی ذات اور صلاحیتوں پر بھروسا اور اعتماد کریں۔ بچپن میں جب آپ کے والد نے آپ کو کوٹ پہنانے میں مدد کرنا چاہی تو آپ نے کہا: ”میں کوٹ خو دہی پہن سکتا ہوں۔“ مگر فوراً ہی آپ کو جواب ملا: ”مگر کوٹ پہنانے میں، میں تمہاری مدد کروں گا، کس کے پاس اس قدر وقت ہے کہ اتنا انتظار کرے۔“ یا ”تم ابھی چھو ٹے ہو، تم سے خو دکو ٹ پہنا نہیں جائے گا، اس لیے میں تمہیں کوٹ پہناؤں گا۔“ بحیثیت ایک بچے کے آپ کے اندر موجود آزادی کی امنگ‘ اپنی شخصیت کا خود مالک بننے کی خواہش جو بچے کی حیثیت سے ان میں تروتازہ تھی، اکثر اپنے والدین کے احکامات کے نتیجے میں معدوم ہو گئی…… والدین کہتے ہیں: ”اگر تم ہمارا کہا نہیں مانتے تو ہم بھی تمہارا کہا نہیں مانیں گے اورجب ہم تمہیں غلط کہیں گے، تمہیں خود کو غلط کہنا پڑے گا۔“ خاندان اس وقت نشوونما پاتا ہے جب افراد خانہ مل جل کر رہتے ہیں۔ جو والدین اپنے بچوں کو نقصان پہنچتا نہیں دیکھ سکتے، وہ اپنے بچوں کو خطرات سے محفوظ رکھنے کا عزم وارادہ کیے ہوتے ہیں …… بہرحال نتیجہ اس کا الٹ برآمد ہوتا ہے حالانکہ مشکل حالات (اپنے مسائل کو خود حل کرنے پر مبنی رویہ، اپنی تحقیرکے ضمن میں جوابی ردعمل، عزت و غیرت کے لیے لڑائی جھگڑا، اپنی مرضی اور خواہش اختیار کرنے کا عمل) میں اپنے آپ پر اعتماد اور بھروسا کرنے کے طریقے سے بے خبر ہونے کی صورت میں زندگی بھر کے لیے ایک آزادانہ اور اندازفکر اور رویہ و طرزعمل اختیار کرنا انتہائی ناممکن ہے۔
جب آپ کو ایک بچے کی حیثیت سے دوسروں کی مرضی اور خواہش پر عمل کرنے پر مبنی احکامات اور پیغامات وصول ہوئے، ممکن ہے کہ آپ کو یہ سب یاد نہ ہوں، ان میں سے اکثر آپ کی ابتدائی عمر میں آپ کو پیش آئے اور جبکہ والدین کے احکامات تسلیم کرنے پر مبنی پیغامات آپ کو وصول ہوئے، یہ احکامات و پیغامات آپ کی صحت اور تحفظ کے لیے ضروری اور اہم تھے، ان احکامات و پیغامات کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ ایک بچے کی حیثیت سے آپ کو ایسا مناسب رویہ اور طرزعمل اپنانا چاہیے یعنی وہ رویہ اور طرزعمل اپنانا چاہیے جو دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی وصول کرنے پر مبنی ہو۔یہ رویہ اور طرزعمل لازمی طور پر ایسا ہونا چاہیے جس کے ذریعے آپ اپنی مرضی اور خواہش کے برعکس دوسروں کی مرضی اور خواہش اپنے لیے اعلیٰ اور قابل ترجیح سمجھ سکیں۔ اس مرحلے پر اہم نکتہ یہ نہیں ہے کہ دوسروں کی مرضی اور خواہش اہم نہیں ہے لیکن اس کے بجائے بچے کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ بچے کو اس کے مناسب روئیے پر شاباش دینے کے بجائے اسے اپنی خواہش اورمرضی اختیار کرنے اور اپنانے کا موقع مہیا کیا جائے۔ بچے کو دوسروں کی طرف سے خوشنودی اور رضامندی مہیا کرنے اور اسے اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق اندازفکر اپنانے میں فرق نمایاں کرنے کی حوصلہ افزائی فراہم کرنی چاہیے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔