شہید ختم نبوت

شہید ختم نبوت
شہید ختم نبوت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 13جون 1974ء کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں کہا ”میں مسلمان ہوں، مجھے مسلمان ہونے پر فخر ہے، کلمہ کے ساتھ پیدا ہوا تھا اور کلمہ کے ساتھ مروں گا، ختم نبوت پر میرا ایمان کامل ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں نے ملک کو جو دستور دیا ہے، اس میں ختم نبوت کی اتنی ٹھوس ضمانت نہ دی گئی ہوتی، 1956ء اور 1962ء کے آئین میں ایسی کوئی ضمانت کیوں نہیں دی گئی حالانکہ یہ مسئلہ 90 سال پرانا ہے، یہ شرف مجھ گناہ گار کو حاصل ہوا ہے کہ ہم نے اپنے دستور میں صدرِ مملکت اور وزیراعظم پاکستان کے لئے ختم نبوت پر کامل ایمان کو لازمی شرط قرار دیا ہے، ہم نے یہ ضمانت اس لئے دی ہے کہ ہمارے ایمان کی رو سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کے آخری رسول ہیں، مجھے خوشی ہے کہ میں نے ملک کو عوامی دستور دیا اور ان شاء  اللہ عوام کے تعاون سے قادیانیوں کا مسئلہ مستقل طور پر حل کر دوں گا، یہ اعزاز بھی مجھے ہی حاصل ہو گا اور یوم حساب، خدا کے سامنے اس کام کے باعث سرخرو ہوں گا“۔


انہی دِنوں مجاہد ختم نبوت جناب آغا شورش کاشمیری نے بھٹو سے طویل ملاقات کی،جس میں انہوں نے اثرانگیز انداز میں ختم نبوت کی وکالت کی، دوران گفتگو یکایک شورش نے بڑے جذباتی انداز میں جناب بھٹو کے پاؤں پکڑ لئے، جناب بھٹو نے جناب شورش کو ان کی عظمت کا احساس دلاتے اٹھا کر گلے لگا لیا،مگر جناب شورش ہاتھ ملا کر پیچھے ہٹ گئے اور کہا ”بھٹو صاحب! ہمارے پاس کون سی عظمت ہے؟ ہم ایک سو سال سے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و عظمت بحال نہیں کرسکے، ہم سے زیادہ ذلیل قوم کسی ملک میں آج تک پیدا نہیں ہو گی، ہم اس وقت عزت و عظمت کا تاج سر پر رکھ سکتے ہیں جب قادیانیوں سے محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت کا تاج چھین کر آقائے کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی نہ کر لیں“  پھر شورش نے جناب بھٹو کے سامنے روتے ہوئے جھولی پھیلا کر کہا ”بھٹو صاحب!  میں آپ سے اپنے اور آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم المرسلینی کے تحفظ کی بھیک مانگتا ہوں۔آپ میری زندگی کی تمام خدمات اور نیکیاں لے لیں، میں خدا کے حضور خالی ہاتھ چلا جاؤں گا مگر خدا کے لئے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی حفاظت کر دیجئے یہ میری جھولی نہیں فاطمہ (رضی اللہ عنہا)بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھولی ہے جس کی ناموس پر قادیانی حملہ آور ہیں“۔
جناب شورش کاشمیری کے یہ الفاظ سننے کے بعد جناب بھٹو میں سننے کی تاب نہ رہی، جسم میں جھرجھری سی آ گئی۔ جناب بھٹو نے کہا ”میں بھی آخر مسلمان تھا اور اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھتا تھا۔ میں مسلمان کی حیثیت کے سوا اپنی ہر حیثیت بھول گیا تھا۔میں نے شورش سے وعدہ کر لیا کہ میں قادیانی مسئلہ ضرور حل کردوں گا“ چنانچہ 7 ستمبر 1974ء کو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بنا پر 13 دن کی طویل جرح کے بعد آئین کی دفعہ 106 کی شق (2) اور 260 کی شق (3)کے تحت غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔


مسلمانوں کی تقدیر بدلنے والے اس عظیم الشان کام کے بعد جنت کے سیدھے راستے کے مسافر ختم نبوت کے سپاہی جناب ذوالفقار علی بھٹو کے کہے گئے یہ سنہری الفاظ لکھنے کے قابل ہیں ”میں اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر رہا ہوں“۔
 جناب ذوالفقار علی بھٹو اس بات کا اظہار کئی مواقع پر کر چکے۔ ایک بار جناب بھٹو نے جناب شورش کاشمیری کو بتایا کہ جب حکومت میں ختم نبوت کی تحریک زوروں پر تھی تو سری لنکن لیڈر شریمتی بندرا نائیکے پاکستان آئیں اور جمی کارٹر کا پیغام دیا کہ اگر بھٹو یا پاکستان نے قادیانیوں کو چھیڑا تو امریکہ ناراض ہو جائے گا اور وہ سب کچھ کر دے گا جو نہیں ہونا چاہئے۔


جناب ذوالفقار علی بھٹو نے عالمی طاقتوں کے اس پیغام ”آپ پاکستان میں احمدیوں کا خاص خیال رکھیں“کے باوجود ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے میں دیر نہ کی وہ یہ بھی جانتے تھے اور جس کا برملا اظہار انہوں نے اپنی پھانسی سے پہلے لکھی جانے والی آخری کتاب’اگر مجھے قتل کیاگیا“ میں کیا کہ مسٹر زیڈ اے فاروقی کے بیانات وائٹ پیپر میں جگہ جگہ شامل ہیں۔اتفاق یہ ہے مسٹر زیڈ اے فاروقی، مسٹر این اے فاروقی کے بھتیجے بھی ہیں جن کی بیوی میرے مقدمہ میں وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کی بیوی کی بہن ہے اور مسٹر این اے فاروقی قادیانی ہیں اور انہوں نے مجھ سے اس بات کا بدلہ لیا ہے کہ میں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار کیوں دیا تھا۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کرنل رفیع الدین جو جیل میں سپیشل سکیورٹی سپرنٹنڈنٹ کے فرائض سر انجام دے رہے تھے سے ایک بار کہا (جس کا ذکر کرنل رفیع نے اپنی کتاب ”بھٹو کے آخری 323 دن“ میں بھی کیا ہے)”کرنل رفیع قادیانی آج کل کیا کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بد دعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھڑی میں پڑا ہوں، وہ مجھے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں“ پھر کہنے لگے ”میں تو بڑا گناہ گار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کر جائے اور میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردئے  جائیں“۔


کرنل رفیع کے بقول دست شناسی ان کا مشغلہ تھا، اس کے لئے بہت سی کتابیں پڑھیں، بے شمار ہاتھ دیکھے لیکن پھر پامسٹری کو پڑھنا اور پریکٹس کرنا چھوڑ دیا لیکن ایک دن جناب بھٹو کے ہاتھ کی لکیروں کو بغور دیکھ رہا تھا تو جناب بھٹو نے کہا ”رفیع کیا دیکھ رہے ہو“ کرنل رفیع نے کہا ”جناب آپ کے ہاتھ پر زندگی کی لکیر سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی کافی دراز ہے“ جناب بھٹو نے کہا ”بھٹوز ہمیشہ جوانی میں مرتے ہیں “ کرنل رفیع نے کہا ”آپ کا ہاتھ تو اس کے خلاف کہہ رہا ہے“ کرنل رفیع کے مطابق جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد مجھے اللہ کے انسان کو دئیے گئے اس علم پر بہت شک وشبہ پیدا ہوا، مگر جب ایک دن ایم اے ملک کا یہ بیان پڑھا تو ڈھارس بندھی کہ کچھ سر دست شناسوں نے کہا ہے کہ شہید کے ہاتھ پر زندگی کی لکیر ہمیشہ رہتی ہے اس کے ہاتھ کی لائف لائن کبھی نہیں ٹوٹتی کیونکہ وہ مرتا نہیں ہے۔
صد افسوس! ایک بار پھر 4 اپریل آ کر گزر گئی۔جناب ذوالفقار علی بھٹو کی یاد میں کئی کالم لکھے گئے،ٹی وی پروگرام ہوئے حتیٰ کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈران کے بیانات بھی جاری ہوئے۔
لیکن کسی نے بھی شہید ختم نبوت جناب ذوالفقار علی بھٹو کے تاقیامت قائم ودائم رہنے والے اس عظیم کام یعنی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا ذکر تک کرنا گوارا نہ کیا۔اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔۔۔آمین۔۔۔!!

مزید :

رائے -کالم -