کیا حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات کامیاب ہوں گے؟
ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے یہاں مذاکرات بھی اتنے طویل ہو جاتے ہیں کہ وقت کی ٹرین ہی نکل جاتی ہے اور سب ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ 1977ء میں بھٹو کی حکومت اور اپوزیشن میں بھی مذاکرات شیطان کی آنت بن کر لمبے ہوتے گئے اور بالآخر لائن کٹ گئی۔مارشل لاء آ گیا اور گیارہ سال تک جاری رہا۔ اب مارشل لاء کی تو گنجائش کم ہی ہے تاہم ملکی استحکام اور درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے ملک میں بے یقینی کی کیفیت ختم ہو، سیاسی بے چینی کا خاتمہ ہو اور سب سے بڑھ کر ایک افہام و تفہیم کی فضا قائم ہو، تاکہ ملک جس جمود کا شکار ہے اس سے نکل کر آگے بڑھ سکے۔ آج کل حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن سنجیدہ حلقے نجانے ان پر کیوں تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ مذاکرات میں اتنے طویل وقفے سمجھ سے بالاتر ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے دو نکات پیش کر دیئے ہیں۔ عمران خان سمیت تمام سیاسی کارکنوں کی رہائی اور دوسرا 9مئی اور 26نومبر کے و اقعات کی انکوائری کے لئے جوڈیشل کمیشن کا قیام۔ یہ دونوں مطالبات حکومت کے لئے ایک مشکل کھیر ہے، جسے آسانی سے ہضم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان میں فریق فوج بھی ہے، جو 9مئی کو ملک کی دفاعی و سلامتی تنصیبات پر حملہ قرار دیتی ہے۔ اس کے لئے فوجی عدالتیں بھی بنائی گئیں اور سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے نو مئی کے واقعات اتنے واضح ہیں کہ ان پر کسی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر بھی متعدد پریس کانفرنسوں میں اس کا اظہار کر چکے ہیں۔اب اگر اس کی جوڈیشل انکوائری شروع ہوتی ہے اور حقائق اس کے برعکس نکلتے ہیں تو بہت پریشان کن بات ہوگی۔ ایک راستہ تو وہی ہے جس کے بارے میں غیر جانبدار حلقوں نے اشارہ کیا ہے کہ اس معاملے کو ماضی کا حصہ بنا کر آگے بڑھا جائے، لیکن گزشتہ دو برسوں میں اس کی بنیاد پر جو کچھ ہوا ہے، اسے کس خانے ہی ڈالا جائے گا۔ اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر یہ بھی کہہ چکے ہیں جب تک 9مئی کے اصل ماسٹر مائنڈ کو سزا نہیں ہوتی، اس وقت تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ اب دلچسپ صورت حال یہ ہے دونوں طرف سے انصاف کی بات کی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہو جاتا ہے معاملے کو کسی کنارے لگانے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کرائی جائے مگر یہ بیل منڈھے چڑھتی اس لئے نظر نہیں آتی کہ 9مئی کا جو بیانیہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے دیا ہے، وہ اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ یوں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی یہ شرط کہ 9مئی اور 26نومبر کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے ایک بہت کڑوی گولی ہے اور یہی شرط مذاکرات کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ جہاں تک دوسری شرط کا تعلق ہے، یعنی عمران خان اور سیاسی کارکنوں کی رہائی تو اس کا تعلق بھی درحقیقت 9مئی سے ہی ہے۔ اگر سیاسی کارکنوں اور عمران خان کو رہا کر دیا جاتا ہے تو پھر 9مئی کا سارا بیانیہ بھی دریا برد ہو سکتا ہے۔ پہلے ہی 9مئی کے بعد پریس کانفرنسیں کرنے والوں کو چھوڑ کر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنے موقف کو بہت نقصان پہنچایا ہے اب اگر عمران خان اور سیاسی کارکنوں کو بھی چھوڑ دیتے ہیں تو گویا اس بات پر مہر لگ جائے گی دو سال میں تحریک انصاف کو بدترین صورت حال کا نشانہ بنایا گیا۔ ان دو بڑے مطالبات کے باوجود اگر حکومت ایک کمیٹی بنا کر مذاکرات مذاکرات کھیل رہی ہے تو کچھ لوگ اگر اسے مذاق رات کہتے ہیں تو کیا غلط کہتے ہیں۔ یہ تو نظر آ رہا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے کچھ نرم گوشہ پیدا ہوا ہے، لیکن بات آگے کیسے بڑھے گی، اس پرا بہام کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اتار چڑھاؤ کا یہ کھیل ہر دور میں ہوتا رہا ہے مگر اس بار انتہائیں اتنی دور دور ہیں کہ انہیں یک جا کرنا کاردارد نظر آ رہا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ دونوں طرف سے دل بڑے کرکے آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈا جائے۔ دباؤ میں اس وقت حکومت ہے۔ حالات اب اس نہج پر ہیں کہ تحریک انصاف کو مزید دبانے کی گنجائش نہیں رہی۔ 26نومبر کے بعد عالمی دباؤ بھی بڑھا ہے اور اس کے بعد فوجی عدالتوں سے سزاؤں پر بھی عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے سوالات اٹھائے ہیں۔ پھر امریکی انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی کا عمل بھی اسی ماہ کی بیس تاریخ کو مکمل ہو جائے گا۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے حالات کا اسی سطح پر برقرار رہنا جس پر پچھلے دو سال سے ہین، آسان نہیں رہا۔ کوئی نہ کوئی صورت تو نکالنی ہوگی کہ ڈیڈلاک ختم ہو۔ وقت گزارنے کی تکنیک بھی اب کارگر ثابت نہیں ہو سکتی کہ آگے کوئی ایسا پڑاؤ دکھائی نہیں دے رہا جو موجودہ صورتِ حال کو ٹھہراؤ سے ہمکنار کر دے۔ یقینا اب حکومتی کمیٹی بھی تحریک انصاف کے سامنے ایسے نکات یا شرائط اٹھائے گی جو تحریک انصاف کے مطالبات کا جواب آں غزل ہوں گے۔ ممکن ہے موجودہ سیٹ اپ کو چلنے کی شرط رکھی جائے۔ یہ بھی ممکن ہے تحریک انصاف کے دو مطالبات میں سے ایک مطالبہ مان لیا جائے اور عمران خان سمیت سیاسی کارکنوں کو رہا کرکے 9مئی اور 26نومبر کے واقعات پر جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ واپس لینے کی شرط رکھی جائے۔ مذاکرات کھلے دل سے کئے جائیں تو ہر چیز ممکن ہوتی ہے۔
پاکستان میں کسی بات کو انہونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ناممکنات کو ممکن بنانے والا ملک ہے۔ ماضی میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ موت کی سزائیں سنائی گئیں، جلاوطنیاں ہوئیں، غداری اور دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے، سزائیں دی گئیں، مگر ہوا بدلی تو سب کچھ بدل گیا، ایسے جیسے کچھ ہواہی نہیں تھا۔ اصولاً تو اب اس کھیل کو بند ہونا چاہیے۔ یہ ملک کے ساتھ کھلواڑ ہے اور اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔حکومتیں بنانے اور گرانے کی یہ مشق ہمارے اندر دراڑوں کا سبب بن گئی ہے۔ عوام اور اداروں کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے ہیں، اعتماد اور بھروسے کی جو زنجیر ملک کی مختلف اکائیوں کو مضبوط رکھتی ہے، وہ ٹوٹ رہی ہے۔ یہ وقت ضد اور انا کو چھوڑنے کا ہے۔ بہت نقصان ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے۔ سب کے مفادات پورے ہو سکتے ہیں اگر پاکستان کو چلنے دیا جائے۔ مختلف بیانیے بنا کر اور مختلف واقعات کو ڈیزائن کرکے آج کے حالات میں عوام کو اندھیرے میں نہیں رکھا جا سکتا جس سے جو غلط ہوا ہے وہ مان لے اور ملک کی خاطر دل کشادہ کرے۔ تحریک انصاف بھی اسی جذبے سے آگے بڑھے اور حکومت و اسٹیبلشمنٹ بھی حالات کی نزاکتوں کو پیشِ نظر رکھ کر فیصلے کرے۔ آئین کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے اور اس کی روشنی میں منزل کی طرف سفر شروع کیا جائے تو منزل ضرور ملے گا۔