عمران اعظم رضا کی ’’ ماں جی ‘‘
محبت ایک فطری جذبہ ہے جو خالق حقیقی نے انسان کے خمیر میں اس طرح گوندھ دیا ہے کہ انسان محبت کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتا ۔اللہ ربّ العزّت اپنی تمام مخلو قات میں سے سب سے زیادہ محبت حضرت انسان ہی سے کرتا ہے ۔میرے خیال میں جواباً حضرت انسان بھی سب سے زیادہ محبت اپنے خالق حقیقی سے ہی کرتا ہے ۔ میرے اس مفروضے کی دلیل حضرت ابراہیم ؑ کی چھری کے نیچے حضرت اسما عیل ؑ ، میدان بدر میں جان نثار ان محمد عربی ﷺ سے لیکر کربلا میں حضرت علی اصغرؓ بن حضرت حسینؓ ہیں ۔ اگرچہ فطری طور پر اکثریت میں حضرت انسان قد ر ے ’ ’ بے وفا‘‘ ہیں لیکن اس کے با وجود خالق حقیقی سے ان کی محبت کی مثالیں اس قدر ہیں کہ ایک مختصر تحریر میں ان کا بیان نا ممکن ہے ۔ انسانوں میں ایک دوسرے سے محبت کی مثال دی جائے توسب سے زیادہ محبت ماں اپنی اولاد سے کرتی ہے ۔ ماں کی اپنی اولاد سے محبت اس قدر مثالی ہے کہ خالق نے جب اپنی محبت کی مثال دینا چاہی تو اس نے ماں کی محبت کو بطور تمثیل پیش کیا اور فرما یا کہ میں انسان سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں ۔ سبحان اللہ ، کیا کہنے ماں کی محبت کے ۔ وہ یگانہ و یکتا ، جو کسی مخلوق کو تمثیلاً بھی کہیں اپنے برابر کھڑا نہیں کرتا محبت کے معاملے میں وہ ماں کی عظمت بڑھانے کے لیے اپنی محبت کو اس کی محبت سے دلیل کے طور پر ملا دیتا ہے ۔ ماں کی اپنی اولاد سے محبت ہے ہی ایسی مقدس کہ خا لق حقیقی کواس خالق مجازی کا ذکر محبت کے باب میں اپنے ساتھ کرنا پڑا۔ وہ ماں ہی ہے جو نا فرمان سے نا فرمان اور گناہ گار سے گناہ گار اپنے بچے کو بھی اپنے دامن میں اس کے تمام عیوب سمیت چھپا لیتی ہے اور زمانے کو اس کی پاک دامنی کی گواہی دیتی ہے ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں اگر دنیا میں ماں کا رشتہ اس خوبی سے خالی ہوتا تو شاید ہی دنیا میں کوئی بشر ہوتا جو معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل رہ جاتا ۔ اے خالق حقیقی! تیری سب سے بڑی تخلیق ’’ ماں‘‘ کی عظمت کو سلام ۔
جہاں ماں اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتی ہے وہاں حلالی اولاد بھی اپنی ماں سے محبت کا عملی مظاہرہ کرتی رہتی ہے ۔ میں نے قصداً لفظ ’’حلالی‘‘ کا استعمال کیا ہے ورنہ ماں سے محبت اس خصوصیت سے مشروط نہیں ۔ خیر ماں سے محبت کے ہزاروں لاکھوں انداز ہیں ان میں سے ایک انداز تحریری اظہار کا بھی ہے ۔ جن لوگوں کو اللہ ربّ ا لعزت نے اس وصف سے نوازا ہے وہ اپنی ماں سے محبت کا اظہار بذریعہ تحریر بھی ضرور کرتے ہیں ۔اگرچہ اربوں نفوس میں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن محدود ہونے کے باوجود ماں سے تحریری محبت کا اظہار اتنا محدود نہیں کہ اس کے لیے قلم و قرطاس ترس جائیں ۔ قلم و قرطاس کی یہ پیاس بجھانے والوں میں ایک نام عمران اعظم رضا کا بھی ہے ۔
عمران اعظم رضا بنیادی طور پر سول سروس میں ہیں ۔ وہ محکمہ پولیس میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔نہایت پڑھے لکھے اور قابل افسران میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ایم فل مکمل کر چکے ہیں اور عنقریب ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کرنے والے ہیں ۔ کئی شعری او ر نثری کتب کے خالق ہیں ۔ زیاد ہ فوکس سلیبس بکس رہیں۔ مقابلہ جات کے امتحانات کے لیے ان کی کتب کی تعداد ان کی ادبی کتب سے کہیں زیادہ ہے ۔ شاعری ہو یا نثر، انہوں نے اپنی فنی پختگی و مہارت سے اپنا لوہا منوا لیا ہے ۔ ان کی شہرت سرحد کے اس پار بھی جا پہنچی ہے اور شہرہ آفاق شاعر ، نغمہ نگار، فلم اسکرپٹ رائٹر ، ڈائریکٹر گلزار بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے ۔ ان کی کتاب ’’ ابابیلیں‘‘ پر گلزار کو بے سا ختہ داد دینا پڑی جو عمران ا عظم رضا کی علمی و ادبی قابلیت کا بلا شبہ اعلٰی ترین اعتراف ہے جو ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ۔وطن عزیز کے مستند نقادان فن اور ارباب علم و دانش سے بھی وہ اپنے فن اور قابلیت پر نقد داد وصول کر چکے ہیں ۔ ان کی اب تک آخری تصنیف ’ ’ ماں جی‘‘ ہے جو اب تک ان کی علمی ادبی شہرت اور عزت میں مسلسل اضافے کا باعث بنی ہوئی ہے ۔
’’ ماں جی ‘‘ (مجموعہ مضامین) ان کی اپنی والدہ مرحومہ محترمہ شکیب اعظم رضا سے ان کی بے پناہ محبت کا اظہار ہی نہیں بلکہ ان پر مضمون ایک ایسی عظیم خاتون کی مستند تاریخ کا درجہ رکھتا ہے جو اپنے خاندان کی بقاء ، ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ نچھاور کر دیتی ہے ۔ ’’ ماں جی ‘‘ پر مضمون ہمیں ایک ایسی خاتون سے متعارف کرواتا ہے جس کی اپنی تمام ضروریات اورخواہشات اپنے خاندان کی ضروریات اور خواہشات میں ضم ہو چکی ہیں۔ عمران اعظم رضاکی قلمی مہارت محترمہ شکیب اعظم رضا مرحومہ و مغفورہ کی زندگی کو ہمارے سامنے ایک فلم کی صورت میں متحرک کردیتی ہے ۔ وہ ہمیں ایک جیتا جاگتا کردار نظر آنے لگتی ہیں جو اپنی اولاد کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک پل بھی جمود کا شکار نہیں ہوتیں ۔ شاید ان کا ایمان رہا ہو کہ ان کا تحرک ان کے خاندا ن کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے اور ان کا سکوت اس سفرکو جمودکا شکار کر سکتا ہے ۔
’’ ماں جی‘‘ میں شامل دیگر مو ضوعات پر مضامین معاشرتی نا ہمواریوں ، مسائل ، مشکلات اور مصائب کا احاطہ کرتے ہیں ۔ ہمیں جھنجوڑ کررکھ دیتے ہیں اور ہمارے منہ پر ایک ’’ تھپڑ‘‘ رسید کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی دعوت دیتے ہیں ۔ ’’ ماں جی ‘‘ میں کل 33 مضامین شامل ہیں جن میں بابا رولا، حرام خور ، جتنی روشنی اتنا اندھیرا ، الّو کا پٹھا، رات کے دس بجے ، دال روٹی ،ہزار کا نوٹ ، شیدہ ، نان ٹکی ، تھپڑ، 14 فروری اور بووا بریکاں والا قابل ذکر ہیں ۔ یہ مضامین عمران اعظم رضا کی طبیعت کے تنو ع اور مو ضوعات کے وفور کی علامت ہیں ۔ یہ مضامین ہمیں حقیقت کی اس دنیا میں لے جاتے ہیں جس کے باسی بدست خود بہشت بریں کو دوزخ بنا نے پر تلے ہوئے ہیں ۔ ایک حساس آدمی کا قلم ہماری ارواح کو بیدار کرنے کے لیے قرطاس پر دستک دیتا نظر آتا ہے ۔ جواب نہ ملنے کی صورت میں ’’ بلا اجازت ‘‘ ہمارے اندر گھس آنے کی صلاحیت رکھتا محسوس ہوتا ہے ۔
’’ ماں جی ‘‘ میں شامل تحریریں یقیناًعمران اعظم رضا کی مشا قی کا ثبوت ہیں ۔ وہ ہمیں ایسے ’’ ادبی سرجن ‘‘ سے متعارف کرواتی ہیں جو اپنے قلم کی نوک سے ہمارے جسم کو چیرتا ہے ۔ اس میں سے بے حسی ، ظلم ،نا انصافی اور شیطانی اوصاف کا ناسور چیر کر نکال باہر پھینکنا چاہتا ہے ۔ عمران اعظم رضا کی فنی مہارت کا فیصلہ آج کا ناقد ہرگز ہرگز نہیں کر سکے گا ۔ ان کی تحریروں کی حقیقی معرفت کے لیے کئی سالوں کی ریاضت چاہیے ۔ صرف علم ا لبیان پر دسترس سے آپ ان کی تحریروں میں چھپے معنی و مطالب کو نہیں جان سکتے ۔ عمران اعظم رضا کی تحریروں کی حقیقی معرفت کے لیے چہرے کی نہیں دل کی آنکھوں کی ضرورت ہے کیونکہ عمران اعظم رضا دل سے لکھنے کے عادی ہیں اور جن کے پاس دل کی آنکھیں نہیں ہیں انہیں عمران اعظم رضا کی تحریریں پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔