اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 159
حضرت حسن بصریؒ سے لوگوں نے پوچھا ”ان لوگوں کی مجلس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ جو ہمیں ڈرا ڈرا کر ہمارے دل کے ٹکڑے کئے دیتے ہیں؟“
آپ نے فرمایا ”ایسے لو۳گوں کی صحبت اختیار کرنا جو تمہیں آج ڈرا کر کل کے خوف سے نجات دلادیں، ان لوگوں کی صحبت سے بدرجہابہتر ہے جو آج تمہیں بے خوفی کا سکون بہم پہنچا کر کل قیامت کے دن دردناک خوف میں مبتلا کردیں۔“
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 158 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت عطا سلمیؒ اہل خوف میں سے تھے۔ پورے چالیس برس تک قہقہہ لگانا تو در کنار کبھی تبسم تک نہ فرمایا۔ اور نہ کبھی آسمان کی طرف دیکھا۔ اور جب ایک مرتبہ آسمان پر نگاہ جا پڑی تو بے ہوش ہوکر گر پڑے اور اس کے بعد عادت ہوگئی کہ ہر رات کو کئی مرتبہ اپنے آپ کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھا کرتے کہ کہیں کوئی حصہ مسخ تو نہیں ہوگیا۔ اگر لوگوں پر قحط یا زلزلہ جیسی کوئی مصیبت نازل ہوجاتی تو آپ فرمایا کرتے۔
”یہ سب میری شامت اعمال اور بدبختی کا وبال ہے جو زمانے پر ٹوٹ پڑا ہے اگر میں نہ رہوں تو لوگوں کو آفت و بلا سے رہائی مل جائے۔
٭٭٭
حضرت مسورابن محزمہؒ مین قرآن سننے کی تاب نہ تھی۔ ایک دن کسی اجنبی نے جسے ان کی اس بات کا علم نہ تھا۔ ان کے سامنے یہ آیت پڑھ دی۔
ترجمہ آیت: ”جس روز ہم متقیوں کو رحمن کے دارالنعیم کی طرف مہمان بنا کر جمع کریں گے اور مجرموں کو دوزخ کی طرف ہانکیں گے۔“
تو بے اختیار ہوکر کہنے لگے کہ میں کہاں کا متقی ہوں۔ میں تو مجرموں میں سے ہوں۔“ اور کہا ”ذرا ایک بار پھر سے تو دوہراﺅ۔“
اجنبی نے دوبارہ جب یہ آیت پڑھی تو آپ نے ایک نعرہ مارا اور جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
٭٭٭
ایک بار ایک بڑھیا گنگا تری حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کے پاس حاضر ہوئی۔ اس بے چاری کا بیٹا گم ہوئے بیس سال ہوچکے تھے۔ راہ تکتے تکتے آنکھیں تھک گ ئی تھیں۔ عرض کی کہ اگر میرا بیٹا مل جائے تو بڑھاپے کا سہارا بن سکتا ہے۔ میری مدد فرمائیے۔
حضرت باباؒ اس کی فریاد سے بڑے متاثر ہوئے اور کچھ دیر مراقبے کے بعد فرمایا ”جاﺅ تمہارا بیٹا گھر آگیا ہے۔“
آپ کا ارشاد سن کر بڑھیا گھر چلی گئی۔ دروازے پر قدم رکھتے ہی بیٹا نظر آیا۔ چیخ مار کر گلے لگالیا اور بلائیں لینے لگی۔ حال پوچھا تو بیٹے نے بتایا کہ میں ایک ویرانے میں حیران و پریشان کھڑا تھا۔ راستہ گم تھا اور نجات کی کوئی صورت دکھائی نہ دیتی تھی۔ اچانک ایک مسلمان بزرگ ظاہر ہوئے اور میرا حال پوچھا۔ جب میں نے عرض کیا کہ مَیں اب اپنے گھر جانا چاہتا ہوں تو آپ نے آنکھیں بند کرنے کا حکم دیا۔ ادھر میں نے آنکھیں بند کیں اور جب دوبارہ کھولیں تو اپنے آپ کو گھر کی دہلیز پر پایا۔
بڑھیا نے بزرگ کا حلیہ پوچھا تو بیٹے نے وہی حلیہ بتایا جو حضرت بابا جیؒ کا تھا۔ فوراً اپنے بیٹے کو لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور اسلام قبول کرلیا۔
٭٭٭
ایک دفعہ خشک میووں کا ایک تاجر اپنا سامان لے قندھار سے دہلی جارہا تھا۔ وہ اجودھن (پاک پتن) کے پاس سے گزرا تو حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے اس سے پوچھا ”میاں! کیا لے جارہے ہو؟“
سوداگر نے ازراہ مذاق جواب دیا کہ پتھر ہیں۔“
آپ نے فرمایا ”بھئی، یوں ہی سہی۔“
کچھ دور جاکر سوداگر کو معلوم ہوا کہ سارا میوہ پتھروں میں تبدیل ہوچکا ہے۔ وہ فوراً بھاگا اور آپ سے معافی کا خواست گار ہوا۔ اس نے بطور نمونہ پتھر میں تبدیل شدہ میوے بھی آپ کی خدمت میں پیش کیے۔ آپ کو رحم آگیا اور اس کو معاف فرمادیا۔ سوداگر نے واپس جاکر دیکھا تو اس کے میوے اپنی اصلی حالت پر آچکے تھے۔ پتھر کے وہ میرے آستانہ عالیہ میں اب بھی موجود ہیں۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 160 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں