اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 158
حضرت ابن عمرو النخعیؒ فرماتے ہیں کہ کوفہ میں ایک جوان نہایت حسین اور بہت اور مجاہدہ کرنے والا زاہد تھا، قبیلہ، تخع میں ایک قوم کے پڑوس میں آیا اور اُن کی ایک لڑکی کو دیکھ کر عاشق ہوگیا۔ اور اس کی عقل زائل ہوگئی اور اس لڑکی کا بھی وہی حال ہوا جو اس کا تھا۔ اس جوان نے اس کے باپ سے رجوع کیا۔ اس نے کہا کہ اس کی منگنی تو اس کے چچا زاد بھائی سے ہوچکی ہے۔
ان دونوں کو بوجہ عشق سخت تکلیف ہوئی۔ لڑکی نے اس کے پاس قاصد بھیجا کہ میں نے تمہارے عشق کا حال اور مصیبت کی داستان سنی ہے۔ میں بھی تمہاری طرح محبت میں مبتلا ہوں۔ اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس آجاﺅں یا تمہارے آنے کے اسباب بہم پہنچاﺅں۔“
اس نے قاصد سے کہا ”مجھے ان سے کوئی طریقہ پسند نہیں ہے۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں کہ اگر اس کی نافرمانی کروں تو بڑے عذاب کا اندیشہ ہے۔ میں ایسی آگ سے ڈرتا ہوں کہ نہ اس کی تیزی کم ہوتی ہے، نہ اس کے شعلے بجھتے ہیں۔“
جب قاصد نے لوٹ کر یہ واقعہ اس لڑکی کو سنایا۔ سن کر کہنے لگی ”باوجود اس حسن کے وہ پرہیز گار بھی ہے۔ قسم ہے اللہ پاک کی خوف خدا سب بندوں کو یکساں ہونا چاہیے اسی وقت اس نے دنیا ترک کی اور سارے معاملات پس پشت ڈال دئیے اور ٹاٹ کا لباس پہن کر عبادت میں مصروف ہوگئی لیکن اس جوان کی محبت میں پگھلتی جاتی تھی۔ حتیٰ کہ اس کی محبت میں مرگئی۔
وہ شخص جس کی قبر پر جایا کرتا تھا۔ ایک بار اُسے خواب میں دیکھا۔ وہ بہت اچھی حالت میں تھی۔ پوچھا ”تو نے کیا کیا دیکھا اور تیرا کیا حال ہے۔ اُس نے یہ شعر سنایا۔
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 157 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ترجمہ) ”ایسی نعمت اور عیش میں ہوں جس کو زوال ہی نہیں ہے۔ جنت ایسا ملک ہے جسے فنا نہیں ہے۔“
اس جوان نے کہا ”مجھے وہاں یاد رکھ۔ میں بھی تجھے ابھی تک نہیں بھولا ہوں۔“
کہنے لگی ”واللہ! میں بھی تجھے نہیں بھولتی ہوں۔ اور مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے۔ تو محنت و اجتہاد کر کے میری مدد کر۔“
جب وہ اتنا کہنے کے بعد جانے لگی تو جوان نے کہا ”میں تجھے پھر کب دیکھوں گا۔“
بولی ”عنقریب تم میرے پاس آﺅ گے۔“
اس خواب کے بعد وہ شخص صرف سات روز زندہ رہا۔
٭٭٭
ایک دیہاتی کا بل سے حضرت شاہ نیاز احمدؒ سے بیعت کرنے کی غرض سے بریلی آیا۔ شہر سے باہر دریا کے کنارے اس دیہاتی کی ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں اس دیہاتی نے اپنے آنے کی وجہ ظاہرکی۔
اس شخص نے یہ سن کر کہا کہ جس شخص کے پاس تم جاتے ہو، وہ نیاز احمد میں ہی ہوں۔“ وہ شخص وہیں بیعت سے مشرف ہوا۔ پھر اس شخص سے فرمایا کہ تم خانقاہ چلو، میں بھی وہیں آتا ہوں۔“
وہ شخص جب خانقاہ میں آیا تو دیکھا کہ حضرت شاہ نیازؒ کے سوم کی فاتحہ ہورہی۔ اب اس شخص کو معلوم ہوا کہ آپ نے اسے وصال کے بعد بیعت کیا تھا۔
٭٭٭
ایک صوفی نے ایک راہب سے بحث کرتے ہوئے سوال کیا ”کہ تم آخری رسول ﷺ پر ایمان کیوں نہیں لے آتے؟“
وہ بولا ”ہم اس لیے آپ کے رسول ﷺ پر ایمان نہیں لاتے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے چالیس روز تک کچھ بھی نہیں کھایا تھا اور یہ ان کے سچا نبی ہونے کی دلیل ہے۔ جب کہ تمہارے پیغمبر نے ایسا کبھی نہیں کیا۔“
اس صاحب تصوف نے کہا ”میں اپنے عظیم پیامبر کا محض ایک عام امتی ہوں۔ اگر چالیس روز تک کچھ نہ کھاﺅں تو کیا تم ایمان لے آﺅ گے۔“
اس نے کہا ”ہاں لے آﺅں گا۔“
وہ صوفی چالیس چھوڑ پچا سدن تک بغیر کچھ کھائے وہیں بیٹھے رہے اور کہا ’[اگر چاہو تو اور بھی صبر کرکے دکھاﺅں۔“
وہ بولا ”ہاں دکھاﺅ تو بھلا!“
چنانچہ وہ ساٹھ روز تک بیٹھے رہے اور کچھ بھی نہ کھایا۔ آخر وہ راہب ایمان لے آیا۔
٭٭٭
حضرت اصمعیؒ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں جامع مسجد بصرہ سے آرہا تھا۔ میں بعض گلیوں ہی میں تھا کہ ایک اعرابی سے ملاقات ہوئی۔ جو نہایت دبلا پتلا تھا اور اپنی اونٹنی پر سوار تھا۔ اس کے گلے میں تلوار پڑی ہوئی تھی اور ہاتھ میں کمان تھی۔ قریب آکر مجھے سلام کیا اور کہا ”تم کون لوگوں میں سے ہو۔“
میں نے کہا ”قبیلہ اصمع سے۔“
وہ بولا ”اصمعی تم ہی ہو۔“
میں نے کہا ”ہاں۔“
پھر اس نے پوچھا ”کہاں سے آرہے ہو؟“
میں نے جواب دیا ”ایسی جگہ سے آرہا ہوں جہاں اللہ کا کلام پڑھا جارہا تھا۔“
کہا ”رحمن کا بھی کوئی کلام ہے جسے آدمی پڑھتے ہیں۔“
میں نے کہا ”ہاں۔“
کہنے لگا ”کچھ مجھے بھی پڑھ کر سنادے۔“
میں نے کہا ”سواری سے اُتر جا۔“
وہ سورای سے اتر گیا۔ میں نے سورہ والذاریات شروع کی۔ حتیٰ کہ اس آیت پر پہنچا۔
یعنی ”تمہارا رزق جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آسمان پر ہے۔“
وہ سن کر بولا ”اے اصمعی! کیا یہ کلام اللہ عزوجل کا ہے۔“
میں نے کہا ”قسم ہے اس کی جس نے محمد ﷺ کو سچا نبی کر کے بھیجا۔ یہ کلام اسی کا ہے جسے اس نے اپنی نبی پر نازل فرمایا۔ پھر کہا ”بس کرو۔“
پھر کھڑے ہوکر اپنی سواری کے اونٹ کو ذبح کیا اور کھال سمیت اس کے ٹکڑے کئے اور کہا کہ اس کی تقسیم میں میری مدد کرو۔ ہم نے آنے جانے والوں پر تقسیم کردیا۔ پھر تلوار اور کمان ان کے ٹکڑے کئے اور ریت میں دبا کر جنگل کی جانب روانہ ہوا اور کہتا جاتا تھا
وفی السماءدزقکم وما توعدون
میں نے اپنے آپ پر ملامت کی کہ جس کلام سے یہ شخص بیدار ہوگیا تو اس سے کیوں نہیں بیدار ہوتا۔
جب میں ہارون الرشید کے ساتھ حج کے لیے گیا اور میں طواف کررہا تھا کہ مجھے کسی نے نرم آواز سے بلایا۔ میں نے پیٹھ پھیر کر دیکھا تو وہی اعرابی تھا جو بالکل لاغر اور زرد ہوگیا تھا۔ اس نے سلام کیا اور میر اہاتھ پکڑ کر مقام ابراہیمؑ کے پیچھے مجھے بٹھا یا اور کہا ”کچھ کلام اللہ پڑھ کر سنادے۔“
میں نے پھر پہلے والی سورت سنائی۔ جب میں اس آیت پر پہنچا وفی السماءرزقکم وما توعدون یعنی تمہارا رزق جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آسمان پر ہے۔ سن کر اعرابی نے ایک چیخ ماری اور کہا کہ ہم نے اپنے رب کا وعدہ سچا پایا۔ پھر کہا
”اور بھی کچھ ہے۔“
میں نے کہا ”ہاں، آگے فرماتے ہیں
ترجمہ آیت: قسم ہے پروردگار آسمان وز مین کی کہ یہ ایسا سچ ہے جیسا کہ تم آپس میں گفت گو کرتے ہو۔“
یہ سنتے ہی اُس اعرابی نے ایک چیخ ماری اور کہا ”سبحان اللہ۔ اللہ جل جلالہ، کو کس نے غصہ دلایا۔ حتیٰ کہ قسم فرمائی۔ کیا اس کی لوگوں نے تصدیق نہ کی اور اسے قسم کھانے پر مجبور کیا ”تین بار یہی بات مکرر کہتا رہا۔ اسی تکرار میں اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
٭٭٭
ایک شخص کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی مفلسی و بے زاری کا رونا رونے لگا۔ بزرگ نے پوچھا ”کیا تجھے منظور ہے کہ تیری آنکھ پھوٹ جائے اور تجھے دس ہزار درہم مل جائیں؟“
اس نے جواب دیا ”نہیں۔“
بزرگ نے کہا ”اگر تیرے کان، ہاتھ اور پاﺅں میں سے ہر ایک کے عوض تجھے دس دس ہزار درہم مل جائیں تو ۔۔۔؟“
اس نے کہا ”نہیں، یہ بھی مجھے منظور نہیں۔“
بزرگ نے کہا ”اچھا چلو، اپنی عقل کے بدلے میں دس ہزار درہم لے لو۔“
اس نے کہا ”نہیں، یہ بھی مجھے منظور نہیں۔“
تب اس بزرگ نے کہا کہ پچاس ہزار درہم کا مال تو یہی تیرے پاس موجو دہے، پھر مفلسی کی شکایت کیسی؟ او ریہ تو یہ اگر لوگوں سے کہا جائے کہ وہ اپنا حال ایک دوسرے سے بدل لیں تو بہت بھاری تعداد ان لوگوں کی نکلے گی جو اس پر رضامند ہونے ےس انکار کردیں اور ہرگز اس پر آمادگی ظاہر نہ کریں۔ پس جب حق تعالیٰ نے اسے وہ کچھ عنایت نہیں کیا تو یقینا اسے حق تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 159 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں