اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 154
ایک دن حضرت سیدنا شاہ امیر ابو العلیؒ نے امیر نور العلا سے فرمایا ”کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاہ جہاں بادشاہ کے دربار میں اس وقت خون ریزی ہورہی ہے۔“
تھوڑی ہی دیر کے بعد نواب صداقت خاں کے قتل کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔
٭٭٭
دو بندگان دین کا آپس میں یارانہ تھا۔ ایک اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر کسی حسین پر فریفتہ ہوگیا اور اپنے دوست سے کہنے لگا کہ میرا دل تو بیمار ہوچکا، اب تیری مرضی ہے، مجھ سے دوستی رکھ یا نہ رکھ۔
دوسرے نے کہا ”توبہ کرو بھائی! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں تمہارے ایک گناہ کے باعث تم سے تعلقات ہی توڑلوں“ اور پھر اس نے اپنے دل میں مصم ارادہ کرلیا کہ جب تک حق تعالیٰ میرے دوست کو اس بلائے عشق سے رہائی نہ دلادے اس وقتتک نہ کچھ کھاﺅں گا، اور نہ پیوں گا۔
چالیس دن اس نے یوں ہی بھوک اور پیاس میں گزاردئیے اور پھر اپنے دوست سے اس کا حال پوچھا۔ اس نے کہا ”جیسا تھا ویسا ہی ہے۔“
تب بھی وہ ہمت نہ ہارا اور صابر رہا۔ بھوک کی وجہ سے سوکھ کر کانٹا ہوا جارہا تھا لیکن دعا جاری رکھی۔ آخر ایک دن دفعتہ اس کے مبتلائے عشق دوست نے آکر کہا کہ حق تعالیٰ نے اپنی عنایت و کرم سے میرے دل کو اس عشق سے نجات دلادی ہے اور جب کہیں جاکر اس نے کھایا پیا۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 153 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت سرمد شہیدؒ کو ایک مجلس کے سامنے بلایا گیا۔ اس مجلس میں علاوہ اورنگزیب کے علماءوفضلائے عصر بھی موجود تھے۔
اورنگزیب نے آپ سے دریافت کیا ”لوگ کہتے ہیں کہ تم نے دارا شکوہ کو مژوہ سلطنت دیا تھا، کیا یہ سچ ہے؟“
آپ نے جواب دیا ”ہاں سچ ہے اور وہ مژوہ درست نکلا کہ اسے ابدی سلطنت کی تاجپوشی نصیب ہوئی۔“
علماءنے پوچھا ”تم ننگے کیوں رہتے ہو؟“
اس کا جواب آپ نے ایک رباعی میں دیا
خوش بالائے کردہ چنیں پست مرا چشمے بدوجام بردہ ازدست مرا
اور در بغل من است زمن در طلبش دزدے عجبے برہنہ کردہ است مرا
علماءنے آپ کو کپڑے پہننے کو کہا لیکن آپ نے کچھ پرواہ نہ کی۔ اورنگزیب نے علماءکو مخاطب کرکے کہا ”محض برہنگی وجہ قتل نہیں ہوسکتی۔ اس سے کہو کہ کلمہ طیبہ پڑھے۔“ آپ سے کلمہ پڑھنے کو کہا گیا۔ آپ نے عادت کے موافق لا الہ پڑھا۔ جب علماءنے جملہ نفی سنا تو سخت برہم ہوئے۔
آپ نے جواب دیا ”ابھی تو میں نفی میں مسغرق ہوں، مرتبہ اثبات تک نہیں پہنچا ہوں اگر الا اللہ کہوں گا جھوٹ ہوگا۔“
اس پر علماءنے آپس میں طے کیا کہ آپ کا یہ فعل کفر ہے۔ اس فعل سے توبہ لازمی ہے لیکن آپ نے توبہ نہ کی۔ علماءنے فتویٰ دیا کہ قتل جائز ہے۔
دوسرے دن آپ قتل گاہ میں لے جائے گا۔ جب جلاد چمکتی تلوار لے کر آپ کے پاس آیا۔ آپ اسے دیکھ کر مسکرائے۔ نظر اٹھائی اور نظر ملائی اور یہ تاریخی الفاظ فرمائے۔
”میں تیرے قربان ہوں۔ آک۔ آکہ تو جس صورت میں بھی آئے میں تجھ کو خوب پہچانتا ہوں۔“
پھر آپ نے یہ شعر پڑھا
(ترجمہ) شور ہوا اور ہم نے خواب عدم سے آنکھ کھولی۔ دیکھا کہ شب فتنہ باقی ہے سوگئے۔“
یہ شعر پڑھ کر سر تسلیم خم کردیا اور جام شہادت نوش فرمایا۔
٭٭٭
حضرت ابن مبارکؒ کو ا یک دفعہ ایک بدخو کی معیت میں تھوڑی دیر راستہ چلنا پڑا۔ ب وہ آپ سے جدا ہوا تو خوش ہونے کی بجائے آپ نے رونا شروع کردیا۔
لوگوں نے پوچھا ”اس میں رونے کی کیا بات ہے۔“
آپ نے جواب دیا ”روتا اس لیے ہوں کہ وہ بچارا خود تو چلا گیا لیکن اس کی بدخلقی بھی افسوس کہ اس کے ساتھ ہی چلی گ ئی اور اس سے جدا نہ ہوئی۔ جس طرح کہ میں اس سے جدا ہوگیا۔
٭٭٭
حضرت علی بن موسیٰ الرضیؒ کی رنگت سیاہی مائل تھی لیکن بہت بڑے بزرگ تھے۔ نیشا پور میں جہاں آپ رہتے تھے۔ دروازے کے قریب ہی ایک حمام تھا۔ آپ جب کبھی حمام میں تشریف لے جاتے تو لوگ ازراہ احترام حمام خالی کردیتے تھے۔
ایک دن آپ وہاں گئے۔ لوگوں نے حسب معمول حمام خالی کردیا اور آپ اندر داخل ہوگئے۔ حمامی سے اتفاقاً غلطی ہوگئی اور ناگاہ ایک دہقان حمام کے اندر جاگھسا۔ وہاں آپ کو جو دیکھا تو سمجھا کہ خادموں میں سے کوئی حبشی غلام ہے۔
کہنے لگا ”اُٹھو پانی لاﺅ“ آپ لے آئے۔
پھر کہا ”جاﺅ مٹی لے آﺅ“ آپ وہ بھی لے آئے۔
غرض اسی طرح وہ کام بتاتا رہا اور آپ کرتے رہے۔ آخر حمامی بھی آپہنچا اور ایک دہقانکو جو آپ سے مخاطب پایا تو اتنا خفا ہوا کہ وہ وہاں سے بھاگ نکلا۔ آپ باہر تشریف لائے تو لوگوں نے بتایا کہ حمامی بھی اس واقعہ کے خوف سے بھاگ گیا ہے۔
آپ نے فرمایا ”اُسے کہہ دو کہ بھاگنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس میں بھلا اس کا کیا قصور ہے۔ یہ جرم اس کا ہے جس نے تخم فرزند ایک سیاہ فام کنیز کے رحم میں ڈالا۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 155 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں