حکومت کے خلاف گرینڈالائنس کی تیاریاں

حکومت کے خلاف گرینڈالائنس کی تیاریاں
حکومت کے خلاف گرینڈالائنس کی تیاریاں
کیپشن: mian zakir hussain

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اگرچہ 11مئی 2013ءکو نواز حکومت کے قیام کے فوراََ بعد ہی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات لگنے شروع ہوگئے تھے، لیکن پاکستان مسلم لیگ سمیت کئی جماعتوں نے اس وجہ سے خاموشی اختیار کرلی کہ نوازحکومت کو پورا موقع دیاجائے اور ان کو سپورٹ کیا جائے کہ وہ اپنی اس ٹیم کی کارکردگی سے عوام کو درپیش مسائل کو حل کریں کہ جس منظم ٹیم کا دعویٰ میاں برادران پوری الیکشن کمپین میں کرتے رہے تھے، مگر اب ایک سال گزرنے کے بعد جب ہم حکومت کی کارکردگی پر نظرڈالتے ہیں، تو وہ افسوسناک حد تک انتہائی کمزور نظرآتی ہے اور وہ ٹیم جس کا تذکرہ کرتے میاں صاحب تھکتے نہیں تھے وہ تو یوں غائب ہوگئی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔یہ بات البتہ اپنی جگہ درست ہے کہ میاں برادران خود اچھے انسان ہیں خصوصاً شہبازشریف صاحب ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں جو انتھک محنت کرتے ہیں اور جس کا تذکرہ میں نے گزشتہ دِنوں اپنے دوست مجیب الرحمن شامی صاحب کے پروگرام میں بھی کیا، مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی انسان اکیلا کچھ نہیں کرسکتا اس کے لئے اسے ایک قابل ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔
 میاں صاحب کو کبھی بھی اچھی ٹیم نہیں مل پائی ان کی کچن کابینہ میں شامل لوگوں کی ترجیح شائد کبھی بھی وہ عوام نہیں رہے، جو انہیں اس مقام تک پہنچاتے ہیں، ان کے قریبی ساتھیوں میں ہمیشہ وہی لوگ رہتے ہیں، جو ہمیشہ ان کوقومی ایشوز پہ misguide کرتے ہیں، جس کا خمیازہ میاں صاحب کو کبھی حکومت سے بے دخلی اور کبھی ملک بدری کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے، لیکن ان سب باتوں اور دھاندلی کے الزامات کے باوجود دیگر سیاسی جماعتوں نے مسلم لیگ(ن) پر اعتماد کرتے ہوئے انہیںعوام کی خدمت کا موقع دینے کا فیصلہ کیا کہ شائد میاں برادران اب کی بار جس ٹیم کا انتخاب کریں گے۔ وہ واقعی ملک میں انقلاب برپا کر دے اور ملکی حالات سنوار دے، مگر اس کے برعکس ہوا یہ ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد میاں برادران کے اردگرد وہی خوشامدی اور مفاد پرست ٹولہ اکٹھا ہو گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج عوام کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوگئی ہے مائیں اپنے بچوں کو غربت و بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر خود قتل کررہی ہیں امن و امان کی صورت حال یہ ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے حساس ترین علاقے بھی محفوظ نہیں ۔
 ایم این ایز اور ایم پی ایز کے حکم کے بغیر کوئی ایس ایچ او تک بھرتی نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے میرٹ کی بجائے نااہل لوگ محکموں میں بھرتی ہو رہے ہیں، جن کی کارکردگی صفر ہوتی ہے، جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں لاہور میں ہائیکورٹ کے بالکل سامنے پولیس کی حفاظت میں ہونے کے باوجود فرزانہ نامی خاتون کو اینٹیں مار مار کر قتل کردیا گیا اور پولیس یہ سب ظلم ہوتا دیکھتی رہ گئی ۔اس کیساتھ ساتھ حکومت کا لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ بھی مذاق بن کے رہ گیا کہ ہم لوڈشیڈنگ تین ماہ اور چھہ ماہ میں ختم کردیں گے، مگر ایک سال بعد بھی یہ عالم ہے کہ 16،16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ معمول کی بات ہے ۔ملکی معیشت کی طرف دیکھیںتو اسحاق ڈار صاحب آئے روز ڈالر کے گرنے کی خوشخبریاں تو دیتے ہیں، مگر عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا وہ آج بھی روٹی کے ایک ایک لقمے اور صاف پانی کو ترس رہے ہیں اور وہ جو گزشتہ حکومت کویہ طعنے دیتے تھے کہ وہ ملک کو قرضوں میں جکڑ رہے ہیں اور ہم کشکول توڑ دیں گے ان کا یہ عالم ہے کہ صرف ایک سال میں ہی بیرونی قرضوں کے تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹتے نظرآرہے ۔
 ابھی حال ہی میں ورلڈ بنک نے بھی پاکستان کو ساڑھے12 ارب ڈالر قرض دینے کا وعدہ کرلیا ہے،جس کے بعد ملک میں ٹیکسوں اور مہنگائی کا ایک اور زبردست طوفان آئے گااور سب سے خطرناک بات جس نے دیگر سیاسی جماعتوں کو متحد کیا وہ حکومت کی دیگر اداروں کی طرح ملک کے منظم ترین ادارے آرمی اور آئی ایس آئی کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش ہے جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے، کیونکہ پاکستان آرمی ہی وہ واحد منظم ترین ادارہ ہے، جوملکی دفاع و سلامتی کا ضامن ہے اور دشمن کی آنکھوں میں کھٹکتا رہتا ہے اور اس کو کمزور کرناملک کو کمزورکرنا اور اس کے خلاف سازش کرنا ہے اور چودھری پرویز الٰہی کی یہ بات بالکل درست ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایک وزیردفاع اپنی ہی فوج پر کیچڑ اچھال رہا ہے۔ اسی تمام تر پریشان کن صورت حال نے ہی اپوزیشن جماعتوں کو سرجوڑنے کا موقع دیا ہے اور چودھری برادران اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے درمیان روابط شروع ہوگئے۔ چودھری برادران اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے درمیان لندن میں ملاقات کو مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں انتہائی اہمیت کا حامل قراردیاجارہا ہے اگرچہ فی الحال اس ملاقات میں عمران خان شامل نہیں ہوئے، مگر امید کی جاسکتی ہے کہ عنقریب الطاف حسین اور خاں صاحب بھی اس اتحاد کا حصہ ہوں گے۔ دوسری جانب یہاں پاکستان میں شیخ رشید اور سنی تحریک پہلے ہی حکومت کے خلاف کھڑے ہوچکے ہیں ۔ اب اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ بہت جلد واضح ہوجائے گا۔

مزید :

کالم -