عمران خان کا سیاسی سفر

عمران خان کا سیاسی سفر
 عمران خان کا سیاسی سفر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

24 اپریل 2016 ایف نائن پارک اسلام آباد میں تحریک انصاف نے اپنے قیام کے بیس سال مکمل ہونے پر یوم تاسیس کا جشن منایا ، جس میں مرد و خواتین کی بڑی تعدادنے شرکت کی۔ اس موقع پر تحریک انصاف کی سیاسی جدوجہد کی دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی، جس میں صرف عمران خان کی تقاریر اور پانامہ لیکس سے متعلق وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے بیٹوں اور بیٹی کے بیانات خاص طور پر شامل کئے گئے ۔ سٹیج سیکرٹری نے جب عمران خان کو دعوت و خطاب دی عین اس وقت عشاء کی اذان ہو رہی تھی۔ دوران اذان ہی عمران خان نے اپنا خطاب شروع کر دیا ۔ قبلہ خان صاحب نے اپنے سیاسی کیرئیر کے آغاز اور بیس سالہ سیاسی جدوجہد کے اتار چڑھاؤ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پارٹی تو اب شروع ہوئی ہے ۔ پارٹی نظرئیے اور منشور میں عدل و انصاف کے قیام ، ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا درس، خواتین و اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور تعلیم کے فروغ کا ذکر کیا۔ راقم الحروف ناچیز پی ٹی آئی کا بانی رکن اور سال 1999ء تا 2004ء تک فیڈرل کیپیٹل تحریک انصاف اسلام آباد کا جنرل سیکرٹری رہ چکا ہے ، اس ضمن میں عمران خان کو کافی قریب سے سمجھنے کا شرف حاصل ہے ۔ بلا شبہ عمران خان کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں ۔ عوام کی بڑی تعداد ان سے دیوانگی کی حد تک محبت کرتی ہے ۔ ایلیٹ کلاس اور پڑھا لکھا نوجوان طبقہ ان کی وجہ سے سیاست میں دلچسپی لینے لگا ہے ۔ پی ٹی آئی کے طرز سیاست کی وجہ سے کارکردگی کا عنصر غالب آیا ہے ۔ عمران خان کے محب وطن پاکستانی ہونے میں شک کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے۔ بیرون ممالک سے فنڈریزنگ کر کے خیراتی شوکت خانم ہسپتال میں کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف کام کرنا ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ پی ٹی آئی کی مستقبل میں برسر اقتدار آنے کی پیش گوئیاں بھی کی جارہی ہیں۔ عمران کی خان کی سیاسی جدوجہد محنت سے عبارت اور اٹل حقیقت ہے ۔


یوم تاسیس پر عمران خان کا خطاب ان کی غیر منظم اندرونی کیفیت کا عکاس تھا ۔ وہ سال 1996ء سے 30 اکتوبر 2011ء لاہور کے کامیاب جلسے تک ایک سوچ ، ایک نظرئیے اور ایک منشور پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے رہے ۔ گوسال 2000ء میں وزیراعظم بنائے جانے کے لارے پر جنرل (ر) پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی حمایت بھی کی ۔ 2011ء لاہور کا جلسہ کامیاب ترین کروانے میں پی ٹی آئی کی نظریاتی لیڈر شپ کا بہت بڑا کردار تھا، جس کے بعد پارٹی کی ہوا چلی اور ایسی چلی کہ رکنے کا نام نہ لیا ۔ تب عمران خان کی سوچ بدلی وہ اپنے منشور اور نظریات سے ہٹتے چلے گئے پارٹی آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے انتخابی گھوڑوں اور سرمایہ داروں کو پارٹی کے اہم عہدؤں پر فائز کر دیا، جس سے نظریاتی لیڈرشپ دلبرداشتہ ہوتی چلی گئی۔ کرپشن کی کئی جہتیں ہیں۔ پارٹی آئین توڑ کر نظریاتی لیڈر شپ کو دیوار سے لگانا سیاسی کرپشن کہلاتا ہے۔ یہاں تک کہ بانی کارکنان اور چاروں صوبوں کے بانی صدور پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی جماعتوں کا لنڈا بازار کہنے لگے۔یہ امر حقیقی ہے کہ تحریک انصاف بیس سال گزرنے کے باوجود جمہوری ادارہ نہ بن پائی ۔ حتیٰ کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں مبینہ دھاندلی میں ملوث افراد احتساب کی زد میں آنے کی بجائے نہ صرف اہم پارٹی عہدؤں پر فائز رہے، بلکہ خیبرپختونخوا حکومت چلانے میں بھی سر فہرست ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیس سال گزرنے کے باوجود عمران خان پارٹی چیئرمین ہیں۔ عمران خان کو مائنس کر کے تحریک انصاف کہاں کھڑی دکھائی دے گی؟ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ یہ عمل عمران خان کی ذات کے قیدی ہونے کے تاثر کو تقویت بخشتا ہے۔پارٹی میں جمہوریت کی بجائے بادشاہت ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، حالانکہ وہ خود بادشاہت کے خلاف ہیں۔


یوم تاسیس پر عمران خان نے پانامہ لیکس کو بنیاد بنا کر کہا کہ نواز شریف مُلک کا وزیراعظم رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں ۔ نواز شریف سے اثاثے ڈکلیئر کرنے اور پارلیمنٹ میں پانامہ لیکس کے حوالے سے صفائی پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ بجا طور پر کہا کہ جب مُلک کے وزیراعظم کا خاندان ٹیکس چوروں کی جنت آف شور کمپنیوں میں اپنا سرمایہ لگائیں گے اور وہ وزیراعظم اپنے مُلک کی عوام سے ٹیکس جمع کروانے کا کس مُنہ سے کہے گا۔ میری نظر میں ایک اچھا کپتان وہ ہوتا ہے، جو کامیابی حاصل کرنے کے باوجود بھی اپنی خامیوں پر نظر رکھتا ہے ۔ ان کا احاطہ کرتا ہے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جب سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہو گی۔ پارلیمنٹ میں کیسے جمہوریت آئے گی ؟ پارلیمنٹ میں جمہوریت نہ ہوگی تو جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک کیسے پہنچیں گے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات عوام اور سیاسی کارکنان کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی کارکنان پاکستان، پاکستانیت اور پاکستان کے جھنڈے کو اپنی ذات کا حصہ بنا لیں تو ان سوالات کے جوابات خود بخود مل جائیں گے۔ میری سیاسی کارکنوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں کو وراثت اور شخصیت کی قید سے آزاد کرائیں ۔ جب جماعتوں سے خاندان اور شخصیات بڑی ہو جاتی ہیں تو سوچ اور نظریہ چھوٹا ہو جاتا ہے ۔ سوچ اور نظریہ چھوٹا ہو جائے تو مُلک بڑا نہیں ہو پا تا ۔ اس امر حقیقی سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اختیارات کا ارتکاز انسان کو کرپٹ کر دیتا ہے۔ ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہر پاکستانی کو اپنے گریباں اور من میں جھانکنا ہو گا ۔ جب ایسا ہو جائے گا تو تبدیلی کا آغاز ہو جائے گا ۔ ہم خود کو بدلیں گے، تو ملک اور سیاسی جماعتوں کے اندر تبدیلی آئے گی۔ بصورت دیگر جمہوریت ہمیشہ کے لئے وراثت اور شخصیت کی لونڈی بن کر رہ جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔

مزید :

کالم -