وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر84
جھارا افق شاہ زوری پر آفتاب بن کر چمکنے لگا تھا۔ انوکی سے اپنے چچا اکی پہلوان کی عبرتناک شکست کا بھرپور بدلہ لینے کے بعد وہ نشاط وکیف کی سرگرمیوں میں کھو گیا۔ یہ خوشیاں اور سرگرمیاں بھی اکھاڑے کی روایات سے بندھی تھیں جن میں خرافات نام کی ایک چیز بھی شامل نہ تھی۔ وہ اپنی خوشیوں میں مست تھا کہ اکھاڑے کا ایک پٹھہ اس کے قریب آیا۔ وہ عمر میں جھارے سے بڑا تھا اور بدمزاج شخص تھا۔ نہ جانے اسے کیا سوجھی کہ وقت کے رستم سے سینگ اڑا بیٹھا۔
’’جھارا جی!‘‘وہ طنز اچھالتے ہوئے بولا۔’’تمہیں یہ خوشیاں زیب نہیں دیتیں۔ تمہیں تو سوگ منانا چاہیے۔‘‘
’’اوئے بدبخت انسان۔‘‘ جھارا پہلوان نے اس کے لہجے کو گستاخ دیکھا تو اسے ڈانٹا۔’’تو کیا بدشگونی کررہا ہے۔ جااپنا نحوست زدہ چہرے لے کر غائب ہو جا۔‘‘
’’پہلوان جی!دنیا کہہ رہی ہے کہ جھارے نے انوکی کو شکست نہیں دی۔ یہ نورا کشتی ہے۔ اخبارات میں خبریں شائع ہورہی ہیں کہ انوکی اور جھارے کی کشتی مل ملا کر ہوئی ہے۔‘‘
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر83 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’اوے کیا بولتا ہے؟‘‘جھارے نے اسے گریبان سے پکڑا اور اسے اوپر اٹھادیا۔’’میں تمہیں نورا کشتی لڑتا دکھائی دیتا ہوں۔‘‘جھارے نے اسے ایک دھول رسید کی اور وہ لڑھکتا ہوا اکھاڑے میں گر گیا۔
نورا کشتی کی باز گشت ہر سو پھیل گئی تھی۔ اخبارات ٹھیکیداروں پر کیچڑاچھالنے لگے تھے کہ جھارا پہلوان اور انوکی کی کشتی نورا تھی۔ اس حقیقت کو مسخ کرنے کے لیے بھولو کے کچھ حریف اچھل کود کرنے لگے تھے۔وہ پہلوانوں کے خاندان کی عزت و وقار مجروح کرنے کے درپے تھے۔ حالانکہ یہ حقیقت کشابات تھی کہ جھارا اور انوکی کی کشتی صاف اور فیصلہ کن ہوئی ہے۔مگر کچھ خاص ٹھیکیداروں اور جواریوں نے اپنی جیبیوں کے صفایا کا دکھ مٹانے کے لیے یہ سہارا لیا تھا کہ اپنے من کی خباثت کے ذریعے جھارا پہلوان کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
بھولو برادران نے اس افواہ کا سد باب کرنے کی انتہائی کوششیں کر ڈالیں اور پریس میں وضاحت بھی کی کہ یہ افواہ سازی ان کے مخالفین کررہے ہیں اور اس میں رتی بھر صداقت نہیں ہے۔
یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس دوران گوگا پہلوان گوجرانوالیہ نے جھارے کو ایک بار پھر للکارا اور17اپریل1981ء کو ان دونوں کے درمیان کانٹے دار کشتی ہوئی۔ جھارے نے جارحانہ انداز میں حریف کو پسوڑی ڈال دی تھی۔ وہ یہ کشتی جیت گیا تھا۔
جیت پر جیت کا نشہ چڑھتا گیا اور جھارا پہلوان فن کی رمز شناسی میں طاق ہو گیا۔ فتوحات اس کے قدم چوم رہی تھیں۔ وہ اپنے عروج کی طرف والہانہ انداز میں گامزن تھا۔وہ انوکی سے کشتی کی افواہ سازیوں کا غم بھی بھول رہا تھا لیکن انہی دنوں اس کے ستاروں پر نحوست چھا گئی اور اس کے قدم اکھاڑے کے تقدس اور اپنی خاندانی شرافت کو داغدار کرنے کے لیے اٹھ گئے۔
ان دنوں ریلوے اسٹیشن پر دادا گیروں کا راج تھا۔ وہ بھارت سے سمگل شدہ پان اور کپڑے کا بھتہ لیتے تھے۔ جگا ٹیکس لینے والوں نے لاہور ریلوے اسٹیشن کو علاقہ غیربنا دیا تھا۔ ایک روز موہنی روڈ کا ایک شخص روتا پیٹتا جھارا پہلوان کے پاس پہنچا اور فریاد کی۔
’’مائی باپ آپ کے ہوتے ہوئے ہم غریبوں کو لوٹ لیا جائے تو قیامت آجائے گی۔‘‘
’’اللہ خیر کرے بھئی۔کیا ہوا ہے۔‘‘ جھارے نے پریشان ہو کر پوچھا۔وہ ایسا ہی تھا کسی کے غم پر غمزدہ ہو جاتا تھا اور کسی مصیبت زدہ کی مدد پر فوراً آمادہ ہو جایا کرتا تھا۔
’’ہونا کیا ہے پہلوان جی۔ لاہور اسٹیشن کے دادا گیروں نے مجھے مار مار کر سارا سامان لوٹ لیا ہے۔ مجھ سے جگا مانگ رہے تھے۔میں نے انکار کر دیا اور بتایا کہ میں جھارا پہلوان کا ہمسایہ ہوں۔اس کا ہی لحاظ کرو مگر انہیں ذرا رحم نہ آیا بلکہ کہنے لگے کہ نورا کشتیاں لڑ کر پہلوان بننے والا کسی رعایت اور سفارش کا مستحق نہیں ہے۔‘‘
جھارا طیش میں آگیا۔ وہ زود اثر تھا اس لیے فوراً مرنے مارنے پر تل گیا۔اس نے مزید بات نہ کی اور تانگہ جوتنے کاحکم صادر کیا۔’’چل میرے ساتھ۔ آج ان بدمعاشوں کے منہ لگ کر بھی دیکھتے ہیں۔‘‘
جھارا ساتھیوں کے ساتھ اسٹیشن پر پہنچ گیا اور تمام غنڈوں کی پٹائی کر دی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ بھولو پہلوان اور اسلم عرف اچھا پہلوان نے جھارے کی درگت بنا دی۔مگر شیر بپھر جائے تو اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہی جھارے کے ساتھ بھی ہوا۔ اس کا ہاتھ کیا اٹھا کہ ساری جھجک جاتی رہی۔ شام کے وقت لاہور اسٹیشن کے دادا گیروں کا مخالف گروپ جھارے کے پاس پہنچ گیا اور اسے ہلہ شیری دی۔ غنڈوں کی روایتی سیاست جھارے کی جڑوں میں بیٹھ گئی اور وہ خود ریلوے اسٹیشن پر جگا ٹیکس وصول کرنے لگ گیا۔
بھولو پہلوان اور برادران کو شدید دھچکا لگا تھا۔ فیصلہ کیا گیا کہ پہلوان کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے شادی کے بندھن میں باندھ دیا جائے تو شاید بچ جائے۔ بات چلی اور گوگا پہلوان کی دختر نیک اختر سائرہ کے ساتھ جھارے کے ساتھ جھارے کی شادی کر دی گئی۔سائرہ خوش شکل، خوش گفتار اور پڑھی لکھی تھی۔اس نے جھارے کو راہ راست پر لانا چاہا تو بڑی حد تک کامیاب ہو گئی مگر سدھر نے کا تاثر اس وقت زائل ہو گیا جب دولت کی طلب نے جھارے کو دنیائے بدمعاشی پر رائج کرنے پر اکسایا۔ اس کے خیر خواہ بن کر آنے والے دوست نما دشمن اسے پھر بدمعاشی کی دلدل میں لے گئے۔
جھارے نے روزمرہ کی’’گرائی‘‘کے لیے ایک بھاری سا غلہ بنا رکھا تھا۔ وہ دن بھر کی کمائی اس میں ڈالتا اور غنڈہ ٹیکس کی رقم سیغریب غربا کو خیرات کرتا۔ باقی جو بچتا بہی خواہوں اور اکھاڑے کے پٹھوں میں تقسیم کر دیتا۔ دولت کی چاٹ اور بے فکری نے اسے نشہ بھی لگا دیا۔ اس کا انکشاف بہت دیر بعد ہوا تھا۔
ایک روز جھارا ٹیکسالی کے باہر ایک کباب فروش کے پاس کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں خمار سے بھری تھیں اور بدن میں اینٹھن بڑھی ہوئی تھی۔نشہ کی انتہا کا اثر تھا کہ کبابوں کی اشتہا سے کباب فروش کے تمام کباب ہڑپ ہوگئے۔جھارا سارے کباب کھا گیا۔ یکایک اس کی طبیعت خراب ہو گئی اور قے کرنے لگا۔ اسے فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے جب انکشاف کیا کہ جھارا کو ہیروئن کی لت پڑ گئی ہے تو بھولو برادران کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے۔
یہ1981ء کے سال کی خوں آشام واردات تھی جس نیبھولو برادران کے جاہ و جلال اور درویش صفتی کو ملیا میٹ کردیا تھا۔ جھارا بدمعاشی اور نشے کی لت میں غرق ہو رہا تھا اور ادھر گوگا پہلوان داغ مفارقت دے گیا تھا۔
1981ء میں ڈیرہ غازی خاں میں ایک نمائشی دنگل ہو رہا تھا جس میں گوگا پہلوان اور ناصر بھولو کے درمیان کشتی ہونی تھی۔ گوگا پہلوان فری سٹائل کشتی میں ماہر تھا۔ اس نے اپنا تمام فن ناصر بھولو کو منتقل کر دیا تھا اور طے پایا تھا کہ ناصر بھولو دیسی کشتی کی بجائے فری سٹائل کشتیوں میں نام پیدا کرے گا۔ ڈیرہ غاری خاں کا نمائشی دنگل ناصر بھولو کی آزمائش بھی تھا۔ وہ بے چین تھا کہ جلد سے جلد یہ دنگل ہو اور وہ اپنے فن کا اظہار کر سکے۔ یہ دنگل پہلے کئی بار ملتوی ہو چکا تھا۔شاید گوگا پہلوان کو کاتب تقدیر کی طرف سے مہلت تھی۔بالآخر یہ کشتی ہوئی اور گوگا پہلوان ناصربھولو کی الٹی فلائنگ کک لگنے سے جاں بحق ہوگیا۔
گوگا پہلوان کی ناگہانی موت نے بھولو پہلوان کی برداشت توڑ دی اور وہ اپنے چھوٹے بھائی کی رحلت پر پھوٹ کر رویا اور بکھرتا چلا گیا۔ بھائی کی وفات نے اس کی کمر توڑ کر رکھی دی تھی تو جھارا کی شکائتوں نے اس کو منہ چھپانے پر مجبور کر دیا تھا۔جھارا اب اڑیل ہو چکا تھا۔ کوئی نصیحت اس پر اثر نہیں کررہی تھی۔ بھولو نے اس کو سر زنش کرنا تک ترک کر دی تھی۔ مبادا عزت و احترام کا بھرم بھی ٹوٹ جائے۔
اس سے قبل کہ جھارا برائیوں کی دلدل میں غرق ہو جاتا، چند ٹھیکیداروں نے اس کی عزت نفس ابھارنے کے لیے اس کا بھولا گاڈی سے مقابلہ طے کر دیا۔ بھولا گاڈی رستم لاہور تھا۔ وہ اعظم پہلوان برادر بھولو پہلوان کو شکست دے کر یہ اعزاز جیتا تھا۔(جاری ہے )
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر85 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں